جموں//روہنگیائی اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو ریاست بدر کرنے کے حوالہ سے دائر ایک مفاد عامہ پٹیشن پر حکومت کو 6ہفتہ کے اندر جوابی بیان حلفی داخل کروانے کی ہدایت دی ہے ۔ بی جے پی کارکن ہنر گپتا کی جانب سے دائر عرضی ، جس میں ریاست میں مقیم ان مہاجرین کی شناخت کیلئے کسی ریٹائر جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دینے کی بھی مانگ کی گئی ہے ، کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس الوک ارادھے اور جسٹس بی ایس والیہ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے یہ حکم دیا۔ عرضدی دہندہ کی جانب سے دوارکا شرما جب کہ مرکزی حکومت کی طرف سے سندھو شرما، ریاستی سرکار کی جانب سے رمن شرما اور مہاجرین کی جانب سے شاہ فیصل اور فضل ابدالی عدالت میں پیش ہوئے۔ عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ چونکہ ریاستی حکومت یا اقوام متحدہ کی جانب سے جموں کشمیر میں کوئی بھی رفیوجی کیمپ تشکیل نہیں دیا گیا ہے اس لئے میانمار اور بنگلہ دیش کے تمام شہریوں کو ریاست سے نکال باہر کیا جائے اور انہیں سرکاری خزانہ سے دی جانے والی تمام سہولیات بند کر دی جائیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں 13400روہنگیائی اور بنگلہ دیشی شہری پچھلے چند برسوں سے قیام پذیر ہیں تاہم درخواست دہندہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ عرضی میں بتایا گیا ہے کہ 1982میں میانمار کی حکومت نے ان مہاجرین کو اپنا شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ان لوگوں نے بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور پاکستان میں ہجرت کی لیکن ان میں سے کسی بھی ملک نے مہاجرین کو پناہ نہیں دی جس کے نتیجہ میں یہ ہندوستان میں آ گئے۔ 8500نفوس پر مشتمل 1700کنبے جموں میں آ گئے اور لینڈ مافیہ نے ان کا استعمال سرکاری اراضی پر ناجائز قبضہ کرنے کے لئے کرنا شروع کر دیا۔عرضی میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان مہاجرین میں سے کئی ایک نے راشن کارڈ، ووٹر کارڈ اور پشتینی باشندہ ریاست جیسی اسناد بھی جعلسازی کر کے حاصل کر لی ہیں جب کہ کئی ایک اینٹی نیشنل کارروائیوں، منشیات فروشی، حوالہ لین دین میں ملوث ہیں۔ ان مہاجرین کو ریاست سے باہر نکالنے کی مانگ کرتے ہوئے عرضی میں کہا گیا ہے کہ جموں فرقہ وارانہ طور پر ایک حساس خطہ ہے اور مہاجرین کے یہاں رہنے سے آبادیاتی تناسب بگڑ جائے گا۔