یہ امر اطمینان بخش ہے کہ مرکزی حکومت نے دو روز قبل جموں وکشمیر کیلئے 10ہزار کروڑ روپے سے زائد کا ایک میگا مالیاتی پروجیکٹ منظور کیا ہے۔ اس منصوبے میں کچھ اہم سڑکیں بنانے کے علاوہ بین علاقائی رابطوں کیلئے کچھ اہم ٹنلوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ان پروجیکٹوںمیں پیر کی گلی ٹنل کی تعمیر (3,830کروڑ روپے)، سادھناٹنل کی تعمیر (3,330کروڑ روپے)،مغل روڈ پرززنار۔شوپیان سیکشن کی تعمیر (852کروڑ روپے)،لالچوک سے پارم پورہ تک 4لین فلائی اوور (700کروڑ روپے)،قومی شاہراہ701پر تریہگام۔چھمکوٹ سیکشن کی تعمیر (966کروڑ روپے)، ناربل۔ گلمرگ سیکشن پر میگا فلائی اوور (445کروڑ روپے)،قاضی گنڈ بائی پاس کی تعمیر (95کروڑ روپے)، قومی شاہراہ444پر شوپیان میں رمبی آرا پر دو لین پُل (71کروڑ روپے)اور دیگر کئی سڑک و روڈ سیفٹی منصوبے شامل ہیں۔مرکزی وزارت نے اَگلے تین برسوں میں جموں و کشمیر میں کئی اہم شاہراہ منصوبوں کے لئے ڈِی پی آر / فزی بیلیٹی سٹیڈی کی تیاری کی بھی منظوری دی ہے جن میںقومی شاہراہ444کی سرینگر سے قاضی گنڈ تک توسیع اور بہتری (63کلومیٹر)،قومی شاہراہ701پر شوپیان سے ماگام تک 2لین پلس پی ایس سڑک کی تعمیر (75کلومیٹر)،پنج ترنی ٹنل (10.80کلومیٹر) اور اس کے 31کلومیٹر اپروچ روڈ کی تعمیر،دومیل۔کٹرا۔باملہ (قومی شاہراہ144) کی 4گلیاروں والی سڑک پر ترقی (82کلومیٹر) شامل ہیں۔یہ تمام منصوبے جموں و کشمیر کے انفراسٹرکچر، روزگار، سیاحت اور دفاعی آواجاہی کے لئے انتہائی اہم قرار دئیے جا رہے ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ان منصوبوں کی منظوری پر وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر برائے سڑک ٹرانسپورٹ و شاہراہیں نتن گڈکری کا شکریہ اَدا کیا ۔
یہ خبر ایسے موقعہ پر آئی ہے جب جموں و کشمیر ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے جہاں خوشی کے بہت کم لمحات لوگوں کو میسر ہیں اور لوگوں کے پاس جشن منانے کا کوئی بہانہ نہیں ہے تاہم ان پروجیکٹوںسے یقینی طور پر مایوسی کے بادل چھٹ چکے ہیں اور لوگوں کے چہروں پر خوشی لوٹ چکی ہے۔ان منصبوںکے تحت بین علاقائی رابطوں میں بہت بہتری آئے گی۔ یہ وہ چیز ہے جس کا جموں و کشمیر کے لوگ دہائیوں سے مطالبہ کر رہے تھے۔ چونکہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس کے مختلف موسمی زون ہیں اور یہ علاقے سخت سردیوں کے مہینوں میں منقطع رہتے ہیں۔ اس سے ان سرنگوں کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں بہت بڑا فرق پڑے گا۔ سرنگوں کے دونوں طرف کے لوگ کاروبار، تعلیم اور سفر کے حوالے سے قابل اعتماد روابط استوار کر سکتے ہیں۔ قدیم ثقافتی روابط بھی مضبوط ہوں گے۔سری نگر جیسے شہروں میں خاص طور پر صحت کے شعبے میں دستیاب سہولیات ان سرنگوں کے اس پار رہنے والے لوگوں کو سال بھر دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ سردیوں کے مہینوں میں، بصورت دیگر جب موسم میں ہلکی سی خرابی بھی ہوتی ہے تو ان خطوں میں لوگوں کو کس طرح تکلیف ہوتی ہے۔ سرنگوں کے کام کرنے کے بعد اور سڑکیں مکمل طور پربن جائیں گی، نقل و حمل کی آسانی سے نہ صرف لوگوں کو راحت ملے گی بلکہ دیگر شعبوں میں ترقی کو مضبوطی ملے گی۔
اگرچہ عوام اور سیاسی قیادت خاص طور پربرسر اقتدارپارٹی نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ایک خوفناک خوف ہے۔ تقریباً تمام بڑے ترقیاتی کاموں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ڈیڈ لائن بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ جو بھی ایجنسیاں آخر کار پروجیکٹ کے اصل کام میں شامل ہوں، انہیں ڈیڈ لائن پر پورا اترنا چاہیے۔ نیز مرکزی اور یوٹی ایجنسیوں کے درمیان جو بھی ہم آہنگی درکار ہے، اسے صاف ستھرا اور مؤثر طریقے سے انجام دیا جانا چاہئے تاکہ نہ صرف یہ پروجیکٹ معیاد بندمدت میںمکمل ہوسکیں بلکہ کام بھی معیاری ہوں اور جس مقصد کیلئے یہ پروجیکٹ در دست لئے گئے ہیں ،وہ مقاصد بھی پورے ہوں۔
��������������