احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمتہ، نبی المرحمتہ، نبی ال ملحمتہ، الرحمہ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفیٰ، المجتبیٰ، الصادق، المصدوق، الامین، صاحب مقام محمود، صاحب الوسیل والدرج الرفیع، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامّی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الروؤف الرحیم، العرو الوثقیٰ! صلی اللہ علیہ وسلم
میرے ماں باپ آپؐ پرقربان!
اپنی زبان کوکروڑوں مرتبہ مشک وکافورسے بھی دھوکربیان کرناچاہوں،روئے زمین میں پھیلے ہوئے جنگلات کے تمام اشجارکے قلم اورتمام ارض کائنات کے سمندروں کے پانی کوروشنائی میں بھی تبدیل کرکے آپ کے کسی ایک مناسک کی تعریف بھی تحریرکرناممکن نہیں لیکن اس ناچیزکاعریضہ ،میری یہ جسارت،میری یہ رسائی،میرے قلم کی یہ آہ نیم شبی،میری آہ سحری کی یہ بازگشت دامن قرطاس پربکھرکرسمٹ کرگریبان قرطاس کاقلاوہ بن کراس بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہونے کی اجازت چاہ رہی ہے اوریہ جسارت ،یہ جرأت ،یہ ہمت ،یہ رسائی اوریہ اجازت آپ ہی کی مہربانی اورآپ ہی کے لطف کاصدقہ ہے۔
آپ ﷺکے سائل سینکڑوں ہوں توبھی میں پہچاناجاؤں ،ہزاروں ہوںتوشائدرسائی ہو،لاکھوں ہوں توشائدشنوائی ہو،کروڑوں ہوں توشائدکارواں عشق و محبت میں ایک گوشہ مل جائے مگراس آستاں کے سامنے بے حدوحساب ،بے شماروبے تعداد وبے کراں آپ کے درپرکھڑے سوالی ہیں ،ان میں ایک یہ غلام بھی ہے ۔میں اپنے بیان کی ،اپنے اسلوب کی،اپنے اندازکی حیثیت کوبھی خوب جانتاہوں لیکن پھربھی سوت کے یہ چندقلمی تارآپ کے دربارِ عالیہ میں لے کرحاضرہورہاہوں۔
اے رحمت اللعالمین !اتنے بڑے دربارکی روایات جہاں فجرسے مغرب تک۷۰ہزارملائکہ حاضرہوتے ہوںاورمغرب سے لے کر فجرتک ۷۰ہزارملائکہ کی دوسری جماعت حاضری کاشرف حاصل کرتی ہو اورپھرقیامت تک ان کی باری نہ آئے،یہ بے مایہ ،بے بضاعت،آداب ونعت نگاری سے ناواقف ،بھلااتنے بڑے دربار سے کیسے آشناہوسکتاہے؟؟؟صرف اس لئے حاضرہورہاہوں کہ شاہوں کے دربارمیں بغیرنذرانے کے حاضرہوناگستاخی سمجھی جاتی ہے، لہندایہ ناچیز اپنے دل کے ٹکڑوں کوعقیدت ومحبت کی کشتی میں درودشریف کاغازہ لگاکر آپ کے دربارمیں درخواست پیش کرنے کی اجازت کاطلب گارہے!
اے پیغمبرمجتبیٰؐ !میں فقیرہوں،مجھے مانگنابھی نہیں آتا،صدالگانے کے سلیقہ سے بھی ناواقف ہوں،میری صدا،میرے چندآنسوہیں جونیم شب بہہ کرآپؐ کی بارگاہ میں قبولیت کے منتظرہیں اورآج پریشان الفاظ کی شکل میں قلم کی نوک پرآنے کیلئے مچل رہے ہیں۔اگران آنسوؤںکے کچھ مطالب ہوسکتے ہیں توانہیں قبول فرمائیں۔ان آنسوؤں کے پردے میںجوسوزہے وہ آپؐ سے پوشیدہ نہیں،جودردہے آپؐ سے چھپانہیں،جوگدازہے وہ آپؐ سے پنہاں نہیں،ان سب کوالفاظ بناکرآپؐ کی خدمت میں تحریرکرنابھی چاہوں توبھی ممکن نہیں،بس!یہ آپ کی محبت کے داغ ہیںجوکبھی مدہم بھی نہیں ہوسکتے،یہ آپ کی یادوں کے زخم ہیںجوبھرنہیں سکتے،یہ داغ ،یہ زخم بھی آپ ہی کی نگاہِ کرم کاایک عطیہ ہیں۔
اے طہٰؐ!بزرگوں سے سناتھا،کتابوں میں پڑھاہے کہ آپؐ کی بارگاہ میں نعت خواں،مدحت سرا،آہ وفغاںکرنے والے ذکراذکارکرنے والے آپؐ کے درجات ِ عالیہ بیان کرنے والے اورلکھنے والے بلاروک ٹوک پہنچ جاتے ہیں۔میں قصیدہ خواں بن نہیں سکاکہ خوش آوازنہیں ہوں،مقررنہیں بن سکاکہ آپؐ کی مدح سرائی میں کوئی کمی نہ رہ جائے،مدحت سرانہ ہوسکاکہ ذوقِ شاعری نہیںہے،آہ وفغاں نہ کرسکاکہ سینہ بریاں نہ پایاہے،فریادوفغاں لے کرنہ پہنچ سکاکہ زبان اس کے شایانِ شان نہ کرپایاہوں،ہاں اسی لئے میرے مہربان ورفقاء برملاالزام دینے سے گریزنہیں کرتے کہ محبت کاصحیح حق اداکرنے کے سلیقے کاراستہ ڈھونڈنے میںپوری سعی استعمال نہیں کرپایالیکن آپﷺ سے عرض کروں میں تواپناحالِ دل ماسوائے اپنے ربِ کریم کے علاوہ کسی اورکے سامنے افشاء کرنے کونہائت بے ادبی سمجھتاہوں۔ مجھے ایسی توفیق حاصل ہوجائے کہ میں آپؐ کے لائے ہوئے پیغام میںاس طرح ڈھل جاؤں کہ میراساراوجودعجزوانکساری کاایساغلام بن جائے کہ میراہرعمل آپ کی خوشنودی کاحامل بن جائے تاکہ روزِ محشر میری شناخت آپ ؐکے غلاموںمیں ہو!
اے یٰسیں ؐ!آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے احوال و فضائل ،آپؐ کی مبارک ہستی کا سراپا، قد و قامت اور مبارک شکل و صورت جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشک ماہ و انجم بن گیا، آپؐ ﷺکی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دئے اور آپﷺؐ کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگ ِعالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اپنے عبد کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اقدس کو جملہ اوصافِ سیرت سے مالا مال کر تے ہوئے آپﷺؐ کی شخصیت کو ظاہری حسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا کہ آپﷺؐ کا حسنِ صورت بھی حسن سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔آپؐ ﷺکے حسن سراپا کا ایک لفظی مرقع اصحاب کرامؓاور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آپﷺ کو وہ حسن و جمال عطا کیا کہ جو شخص بھی آپﷺؐ کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو دل وجان سے متاثر ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔لاریب!آپﷺ کومیرے رب نے ایسے سانچے میں ڈھالا کہ حسانت کا ہر پیکر آپ ؐ کے حسن بے کراں کے سامنے بھی آپؐ کے روبرو ہیچ ہے۔
اے نبی مشہود ؐ!آپﷺؐ اللہ تعالی کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالی نے انبیائے سابقینؑ کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ ؐ کی ذاتِ اقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپﷺ ؐافضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپؐ ﷺہی کی ذات ہے۔ آپؐ ﷺکی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالی ہے:(یہی )وہ لوگ (پیغمبرانِ خداؑ)ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں)!آپﷺ ان کے(فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے ان)کی پیروی کریں(تاکہ آپ کی ذات میں ان تمام انبیا و رسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔ (الانعام۹۰:۶)
حضرت حسان بن ثابتؓ جنہیں آپﷺؐ بڑی محبت کے ساتھ اپنے مدحیہ اشعارسنانے کاحکم دیتے تھے ،وہ آپؐکے کمالِ حسن کو بڑے ہی دِلپذیر انداز میں یوںبیان کرتے ہیں:
وَاَ حْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَط ؔعَیْنِیْ وَ اَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تلِْدِ اَلْنِسائُ
خُلِقَتْ مُبَرّ اُمِنْ کُلِّ عَیْبِِ کَاْنَکَ قَدْ خَلِقْتَ کَمَاْ تَشَاٗ ئُ
(آپﷺ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ ﷺ سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپﷺکی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک)ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے)جیسے آپ ﷺکے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ ﷺ کی صورت بنائی ہے)۔حسان بن ثابت، دیوان : ۲۱
ملا علی قاریؒ ایک دوسرے مقام پر قصیدہ بردہ شریف کی شرح میں لکھتے ہیں :
اگر خدائے رحیم و کریم حضور ﷺ کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اس کی برکت سے مردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دور ہوجائیں اور غافل دل ذکرِ الہٰی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی حکمت کاملہ سے حضور ﷺ کے اِس انمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہد حقیقت اس کے منافی ہے۔ حضورﷺکے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لئے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلو کا شکار ہوکر معرفتِ اِلہٰی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔
میں نے بھی ایک بہانہ تلاش کیاہے ،ایک حیلہ ڈھونڈاہے کہ آپؐ کی بارگاہِ اقدس میں حاضری ہوجائے۔آپ میرے حالات وکوائف سے بذریعہ ملائکہ مقربین واقف ہیں کہ آپؐ کے درپرحاضری کیلئے دن رات دعاؤں کے سہارے اپنی عاجزی اوربے بسی کااس امید پراظہارکررہاہوں کہ دلِ بے تاب سے نکلیں ہوئی فریادیں اب زیارت کی اجازت کی طلب گارہیں۔ آپﷺ توایسے آقاہیں کہ آپﷺ کے دستِ مبارک میںپتھروں کوزباں مل جاتی ہے،چرندپرند،اشجارہی نہیںبلکہ ارض وسماکی ساری مخلوق آپ کی نسبت پرصدافتخارکادعویٰ کرتی ہے تومیراقلم بھی آپﷺکی صفات کے بحرِ قلزم سے ایک قطرے کی خیرات سے سیراب ہونے کی اجازت چاہتاہے ۔آپﷺؐ کوتواللہ نے قاسم کی صفت سے متصوف فرمایا ہے اورمیرے لئے تویہی انعام میری زندگی کاسب سے بڑاحاصل ہے کہ ربّ ِ کریم نے مجھے آپﷺ کاامتی بنایا !
اے مزملؐ!آپ کو خالق ارض و سما رب العلٰی نے رسولِ کائنات، فخرِ موجودات اور نسلِ انسانی کے لیے نمونہ کاملہ اور اسوئہ حسنہ بنایاہے اور آپ ﷺ کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا گیاہے ۔آپ ؐکے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار و معیارمقررکردئے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی سیر ت کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کر روزِ وصال تک کے ہر ہر لمحہ کوباری تعالیٰ نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے، آپ ﷺ کی ہر ادا کو آپ ﷺ کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم
تک پہنچایا ہے، لہٰذا آپﷺ کی سیرت مبار کہ جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے۔ دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرت آپﷺ کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آج بھی آپﷺ سے متعلق زندگی کے ہرلمحے سے متعلق اشیا کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جاتی ہیں۔
اے متین ومصدّق ؐ!اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اورآپﷺؐ کو نمونہ حیات بنایا ہے، وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جوآپؐ سے قولاً، فعلاً منقول ہے، آپ ﷺ کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپؐ نے فرمایا ہے: ’’جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔
اے محسن انسانیت ﷺ! عبادات واطاعات سے متعلق آپؐ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپﷺ کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوتارہتاہے۔آپؐ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی آپ ﷺ کا عنوان پرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے آپ ؐکی مبارک سیرت کا اور یہی تفسیر ہے: ورفعنالک ذکرک کی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو عہدِ رسالتؐ نہ مل سکا تو پھر ان کے لیے عہدِ صحابہ ؓ ہی معیارِ عمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت آپﷺہی کی تربیت کا عملی پیکر ہے، اسی لئے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے کیونکہ خودآپؐ ﷺنے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق واطوار، ایمان و اسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، پھرکہیں فرمایا:کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقوی کو اللہ نے جانچا ہے، کہیں فرمایا : اے لوگو! ایسے ایمان لا ؤجیساکہ محمد ﷺکے صحابہؓ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا : یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔یہ سب اس لیے کہ یہ سب آپﷺؐ کے تربیت یافتہ اورآپؐ کی سیرت کا عکس جمیل تھے۔ ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی آپﷺ کی سیرت کا نور جھلکتا تھا، یہی سبب ہے کہ خودآپؐﷺنے فرمایا:میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتدا ومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پا جاؤ گے (ترمذی)، چونکہ صحرا، جنگل میں سفر کرنے کے لیے سمت معلوم کرنے کے لیے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اسی لئے آپﷺؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ستاروں سے تشبیہ دی کہ وہ نفوس قدسیہ شرک وکفر کے صحرا میں مینارئہ ایمان ہیں۔
چندمستندکتابوںمیںآپؐﷺکے چند خاص گوشوں کو موضوع بنایاگیاہے جو آپ ﷺکے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ ہیں مختصر طور پر ہر اس پہلو کو ذکر کرنے کی جسارت کر رہاہوں۔
ولادت شریف اور حلیہ مبارکہ :عام روایات کے مطابق ۱۲ربیع الاوّل عام الفیل کو آپﷺؐ نے شکمِ مادر سے تولد فرمایا۔ شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند و جامع ذریعہ ہے جس کو امام ترمذی رحم اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے، آپﷺ ؐکا میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہ مبارک چوڑا، چکلا کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا انتہائی سڈول چکنا ،کہیں داغ دھبہ نہیں،
(بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں)