کشمیر کے حالات پرخامہ فرسائی کے لئے قلم تھامنے سے قبل جگرتھامناپڑتاہے اوردل پسیج جاتاہے۔کشمیرکے حالات پرآج تک کوئی جتنا بھیجھانکا، کرب اورتکالیف کے انواع واقسام دیکھ کرنڈھال ہوا ،اور اعصاب مضمحل ہوئے۔حالات کی بڑھتی سنگینی کاعالم یہ ہے کہ قلم بھی اپنا دم خم برقرار رکھ سکنے میں شدیدمشکلات کاشکارہے اورہردردناک داستان لکھتے ہوئے خامہ ٔ دل چُور چُورہوجاتاہے لیکن چونکہ اس نے قسم کھارکھی ہے کہ مشکلات کے گرداب میں اور موت وحیات کی کشمکش میںاسنے زندہ رہ کرکشمیرکی المناک تاریخ کاہرباب رقم کرناہے، اپنے ضمیر کے ساتھ اسی عہد وفا کو نبھانے کے لئے ہرباراس کی ہمت اگرچہ ٹوٹ جاتی ہے مگرجبروت کے کچھ واقعات اس کی ہمت بندھا تے ہوئے اسے اپنافریضہ انجام دینے پرمستعدکرتے ہیں۔ ہوٹل گرینڈ ممتاکے عملے کی غیرت اوراس کی چابکدستی بھی اسے اپناکام پوراکرنے پرحوصلہ دیتی ہے۔کشمیر کی عزت پرحملہ آور راشٹر یہ رائفلز کے میجرگگوئی جس اپنے مظالم کے حوالے سے چرچے میں ہے، کے سامنے مذکورہ ہوٹل کے عملے نے اپنے ضمیراوراصول کا مورچہ پورے عزم وارادے کے ساتھ سنبھال کریہ ثابت کردیاکہ کشمیری مسلمان کی غیرت زندہ ہے، اوراس کی حمیت باقی ہے ؎
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ ودو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
غیرت وحمیت کو جن افرادیاقوموںنے حرز جاں اور قومی نشاں بنا لیا توتاریخ میں ان کاباب آب زرسے رقم ہوا۔غیرت اور وقار ذاتی بھی ہوتا ہے اور قومی بھی،اورجب بات قومی اورملی سطح پرآجائے تو قومی اور ملی سطح پر اس کی ضرورت و اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ دین اسلام بنیادی طور پر فرد سے لے کر معاشرے اور معاشرے سے لے کر قوم اور ملت کی ہر سطح پر وقار، عزت، آبرو اور غیرت و حمیت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے ثقافتی، سماجی، سیاسی اور مذہبی پہلوں میں جس پر بھی نظر دوڑائیں آپ کو ہر کہیں وقار اور حسن معنوی کی تہہ در تہہ گہرائیاں ملیں گی۔ شرک کو اللہ تعالی نے اسی لئے ظلم عظیم کہا ہے کہ اس میں بندہ خالق کی جگہ حقیر اشیاء کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اعلیٰ انسانی وقار کو خاک میں ملاتا ہے۔انسان کی سوچ، غور و فکر، تحقیق،انسانی شعور اور ان تمام کو یکجا کرنے کے بعد انسان میں پیدا ہونے والی بیداری کو ہی انسانی معاشرہ اور انسانی ترقی کی ارتقا کا بنیادکہا جاتا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک کہ اس میں شعور، آگہی اور بیداری نہ ہو۔شعور، آگہی اور بیداری سے مراد ہر قسم کی آگاہی و شعور چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، معاشرتی ہو یا ضمیری یا پھر شخصی، پس انسان کے ہر امور اور حالات سے ہمیشہ باخبر اور اس کے بارے میں مکمل تحقیق اور آگاہ ہونے کے عمل کو شعوری بیداری کہتے ہے اور اسی عمل کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی انسان حالات کو اپنے قابو میں کر کے اسے اپنی سمت کھینچ سکتا ہے۔اسی لئے بیدارمغزی اور حاضر دماغی بہت قیمتی جواہرمیں سے قرارپائے ہیں۔
جب دودشمن ممالک کے دوچوٹی کے جاسوس اسد درانی اور اے ایس دلت دبئی میں بیٹھ کرمزے سے مشترکہ کتاب لکھ رہے تھے اورپھردہلی میں اس کتاب کی رونمائی ہورہی تھی توایسے عالم میں کئی کیسوں میں ملوث کرداربدنام زمانہ فوجی میجر لتل گگوئی کی جنسی ہوس کوطشت از بام کرنے کے حوالے سے گرینڈممتاہوٹل کے عملے کی روشن ضمیری ، بیدارمغزی ،حاضردماغی اورغیرت سے یہ ثابت ہوگیاکہ ہم اتنے کاہل، سست نہیں جس طرح دشمن تخمینہ لگارہے ہیں اورنہ ہی اپنی زندگی کے جھمیلوں اورخرخچوں میں اتنے کھو ئے ہیں کہ ہمیں اپنی حالت کاپتہ ہی نہیںاورنہ ہم وہ قوم ہے جسے اپنی غلت بدلنے پر سوچنے اور اپنے مستقبل کو تاریکیوں سے نکالنے کی فرصت نہ ہو۔ہم وہ بھی نہیں کہ جنہیں اسِ بات کاپتہ ہی نہ ہو کہ آخر یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کیوں؟ اورنہ یہ کہ ہم میں سے ہر ایک صرف اپنے زخم سینکتا ہے ہم میں سے ہر ایک اپنا غم، درد اور دکھ سہتا ہے اور دوسرا تماشائی بن کر اپنے اوپر واقع ہونے والے اس ظلم اور زیادتی کا منتظر رہتا ہے،یہ بھی نہیں کہ جب ہم پر یہ قیامت نازل ہوتی ہے تو تب ہائے ہائے کرنے لگتے ہیں اور ہمارا دوسرا ساتھی اس کے تماشائی کا کردار اد کرتا ہے ،گذشتہ تین عشروں کے کربناک حالات کے دوران ہمارے کرداروعمل نے ثابت کردیاہے کہ ایساہرگزنہیں ۔ ہم میں ا سی طرح اجتماعی شعور موجزن ہو،ہم اسی طرح اجتماعی شعور کے لئے لڑے اور جدوجہد کریں تو کوئی وجہ نہیں اور وہ دن دور نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر ان تمام مصائب وآلام اور تکالیف سے نجات پالیں گے جنہوں نے ہماری کشتی ٔ حیات کوگھیرے میں لے رکھاہے۔
یہ تاریخ کانوشتہ ہے کہ جب تک نہ کوئی قوم اپنے اردِ گردِ کے حالات و اقعات، ان واقعات کے رونما ہونے پر تحقیق، غور و فکِر اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے مستعدہوجائے اور غلط کو غلط اورصحیح کو صحیح نہ مانے اور نہ جانے گے، تب تک وہ ایک باشعورقوم نہیں کہلاتی ۔ خوابِ غفلت سے بیدار ہو،اپنے شعور کو پیہم بیدار،رکھے ہر ملکی، معاشرتی، سیاسی و مذہبی معاملات سے آگاہ رہے، اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچا سکے اور اپنی اور اپنے آنے والے نسلوں کی مستقبل کو بھی روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے کیونکہ آج تک خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی جب تک اسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔قومی زندگی کا وقار خود داری اور غیرت و حمیت پر مبنی کارکردگی سے مشروط ہے۔ جن قوموں کو اجتماعی عزت اور وقار عزیز ہوتا ہے وہ ذاتی زندگی میں بے شمار ضرورتوں کی قربانیاں دینے کی عادی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اسی قومی اورملی وقار اور عزت کے اندر اپنی انفرادی غیرت و حمیت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ شہید کو اسلام میں اسی لئے نہایت قدر و منزلت حاصل ہے کہ وہ وسیع تر دینی اور قومی اورملی وقار کے پیش نظر اپنی غیر معمولی غیرت وحمیت کے سبب اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ اسلام کی فاتحانہ شان و شوکت کو دس بارہ صدیاں اسی جذبہ غیرت و حمیت نے سربلند رکھا۔ پھر جب انفرادی مفادات قومی اورملی مفادات پر غالب آنے لگے تو قومی اور ملی تشخص اور شان و شوکت کے بلند و بالا مینار بھی زمین بوس ہو گئے۔
جنگ عظیم اول کی تاریخی فتح کا جشن منانے والے برطانوی حکمران چرچل نے اسی اسلامی اجتماعی وقار کا مذاق اڑاتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے نقشے پر اپنے ہاتھ سے الٹی سیدھی لکیریں کھینچی تھیں جو بعد میں ٹکڑے ٹکڑے اسلامی دنیا کی سرحدوں میں تبدل ہو گئیں۔ وہ دن اور آج کا دن ایک صدی گزر چکی ہے مسلمان اجتماعی وقار اور سیاسی استحکام کو ترس گئے ہیں۔ ان کی غیرت و حمیت بھی اب اسی طرح ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔ اس دور بے عزتی سے نکلنے کے لئے مسلمانوں نے پوری دنیا میں اگرچہ مزاحمتی تحریکیں شروع کر رکھی ہیں لیکن مخالفین نے انہیں اس زوال میں بھی فکری، مذہبی، سیاسی اور ثقافتی انتشار کا شکار بنا رکھا ہے۔ مکار، چالاک اور دور اندیش دشمن نے مسلمانوں کے اجتماعی وقار اور غیرت ملی کو خاک میں ملانے کے لئے بے شمار ہمفرے، میرصادق ،میر جعفر اور لارنس آف عربیہ متحرک کر رکھے ہیںاور انہیں ذاتی گروہی اور علاقائی سیاست میں اُلجھا کر ان کی اجتماعی وقار کی منزل کو کتنا دور کر دیا ہے۔
کشمیرکازکے پیچھے یہی فکروفلسفہ کارفرماہے کہ یہاں شخصی عزت و وقاراور قومی اور ملی غیرت و حمیت بحال ہوکراسے چارچاندلگ جائیں مگرعصرموجودکی استعماری طاقتیں اخلاقی اورقانونی طورپرکی کسی بھی جائزتحریک کو نہ صرف خاطر میں ہی نہیں لاتیں بلکہ اپنے مجرمانہ کردارپربرملا معذرت کی بجائے مزید غصہ کا اظہار کرتے ہوئے قوموںکے بنیادی حق کوپامال کرکے اپنے متعفن اورقبیح اہداف کے تعاقب میں کاروائیاں جاری رکھتی ہیں۔وہیں استعماری طاقتیں جو ہماری قومی آزادی اور وقار کو آئے روز اپنے پاں تلے روندتی ہیں، ہمارے فانوسِ شرم وحیاکوچکناچورکرتے ہیں اورہمارے خیام کولوٹ لیتے ہیںلیکن یہ امرطے ہے کہ غلام اگر غلامانہ ذہنیت کا غلام نہیں تو اس کی آزادی کے دن جلد یا بدیر ختم ہو جاتے ہیں مگر غلامانہ ذہنیت کی شب تاریک کا سحر میں تبدیل ہونا ایک بالکل علیحدہ معاملہ ہے اور اس کا خاتمہ ذہنیت کی تبدیلی تک ممکن نہیں۔ غلامانہ ذہنیت ناقابل معافی ہے کیونکہ یہ اختیاری معاملہ ہے۔ اس پرجتناشکر اداکیاجائے توکم ہے کہ ہم غلامانہ ذہنیت کے حامل ہرگز نہیں۔ اگراس میں کسی کوشک ہے تواسے ممتاہوٹل کے عملے کے کرداروعمل کودیکھ لیناچاہئے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ایک دورتھاکہ ہم ذہنی غلامی کی سیاہ اور تاریک میں بھٹکے ہوئے تھے اوراس بدترین دور میں ہمیں ذہنی غلام قیادت سے واسطہ پڑا تھا ۔لیکن ہم اس دورسے اب کلی طورپرنکل چکے ہیں۔اگرچہ آج کاحکمران ٹولہ آج بھی ذہنی غلامی کی آخری سطح پر فائز ہیں،اور اس حمام میںبھارت نواز جماعتیںسبھی ننگی ہیں اوراس ضمن میں ان میں سے کسی ایک پر انگلی اٹھائی نہیں جاسکتی لیکن رب الکریم کاشکرہے قوم کوان کی اصل شناخت میںکوئی ابہام تھا اورنہ ہے۔ کرسی کے ان پجاریوں نے یہاں کیا کیا نہ کیا؟؟؟قوم ان کی ہر طرح کی ایک ایک واردات کوبھول کہاں سکتی ہے؟؟؟
قوم جانتی ہے کہ یہ اسی قبیل وقماش کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے کشمیریوںکے وقار اور عزت و آبرو کے معاملے میں ہردورمیں کلی طورپربے حسی اور چشم پوشی کا مظاہرہ کیا ۔ سبینہ سیکس سیکنڈل کیس اس امر واقع پرگواہ ہے کہ انہوں نے ہمیں ہر ڈگر لوٹا ،ہمارے آشیانوں پربجلیاں گرادیں اورہماری عزت و آبرو کوخاک میں ملادیا۔ ایسے میں قوم بہر صورت بیداررہی ،اس نے اپنی غیرت کا پیمانہا اور مورال بلند رکھا، عزتیں نیلام کر نے و الے والے درندوںکا لٹھ لئے پیچھاکیااورجنسی بھیڑیوں کے بھیڑنماچہروں کوبے نقاب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ۔ سری نگرمیں پیش آئے سبینہ سیکس سیکنڈل پرقوم ا یک آوازہوئی اوراس وقت تک چین کی سانس نہ لی جب تک اس میں ملوث ایک ایس پی ، سی آرپی ایک ایک بڑے عہدیدار، دوممبران اسمبلی اور متعدد تاجرین وغیرہ کو ننگا نہ کیا ۔ یہ الگ بات ہے بعدازاں کشمیر کے دوسرے المیوں کی طرح اس معاملے کو بھی گول کیا گیا۔
اسی شرم ناک سلسلے کی ایک کڑی بدھ23مئی 2018 کو اس وقت کشمیر کی عصری تاریخ اک داغ بن گئی جب سرینگر کے کہنہ کھن ڈلگیٹ میں واقع ہوٹل گرینڈ ممتا میں آرمی میجر گگوئی نے آن لائن بکنگ کرکے ہوٹل کی دوسری منزل پردو کمرے بھی بک کرائے تھے۔حسب پروگرام وہ ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ وہاں پہنچا تو ہوٹل عملہ کو اپنا آدھار دکھایا اور انٹری کرنے کی کوشش کی، لیکن ناک نقشے سے نیپالی دکھنے والے شخص اور ایک کشمیری لڑکی کو دیکھ کر ہوٹل عملے کو اس معاملہ پر شبہ ہوا ، انہوں نے کمرہ دینے سے انکار کیا۔ اس پر سادہ کپڑوں میں ملبوس میجر نے گرم گفتاری کی ۔ مذکورہ میجر اور اس کے ساتھی فوجی اہلکارسمیر ملہ کی تلخ کلامی کے دوران ہی ہوٹل کے عملہ کی چابکدستی کا ثبوت دے کر تھانہ خانیار کو بروقت مطلع کیا جس نے میجر گگوئی، اس کے ہمراہ کم عمر لڑکی اور ایک مقامی فوجی اہلکار کو بر سر موقع گرفتار کیا ۔ پولیس خاموشی سے دیکھتی ہے کہ کس طرح فوج کشمیریوں کے سینے پر مونگ دلنے، انہیںپابہ زنجیررکھنے ، جنگل راج کے مسلسل نفاذکو ممکن بنانے،بندوق کی تڑتڑاہٹ قائم رکھنے،کشمیریوںکی تذلیل و بے آبروئی ، گھروں کی توڑپھوڑ اور لوٹ مار کامشغلہ جاری رکھنے ،مکینوں اورمکانوںکوآگ میں بھسم کرنے ، زندانوں کی تعدادبڑھانے ، تعذیب خانے آبادرکھنے، شہیدمزارات کوتوسیع دلانے ، مظلوموں کی آہوں اورستم رسیدوں کی چیخ وپکار کاٹیون بڑھانے میں تمام حدیں پار کر ہی ہیں، مگر اس بار پولیس اہل کاروں نے اپنی اصل دایوٹی کا حق ادا بھرپورحق اداکرکے میجرگگوئی کاکطا چھٹا ظاہر کیا،ا گر چہ بعدازاں بیان لینے کے بعد اسے اپنی یونٹ کے سپرد کرنے میں پولیس منٹوں کی تاخیر نہ کی ۔ آج تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی وردی پوش اہلکاریاآفیسرکے کھلے جرائم کابھانڈا سراہ پھوٹا توایسے موقعوں پریہی پولیس آئیں بائیں شائیں کر نے لگ جاتی ہے تاکہ مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے رہ جائے ۔ بہر حال اب سننے میں آیاہے کہ میجر گگوئی کے خلاف کورٹ آف انکوائری بٹھائی گئی لیکن جب مجرم ہی منصف ہوتواس کورٹ آف انکوائری کا کیا حشرہوگا، وہ محتاج تبصرہ نہیں۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران فرضی جھڑپوں میں کئے گئے قتل عام ،بستیوں کوجلانے اورگھروںکے مال و اسباب کولوٹنے میں ملوث پائے گئے وردی پوش اہلکاراورآفیسران میں سے کتنوں کوکورٹ آف انکوائری میںمجرم ٹھراکرسزاہوئی؟ اس تلخ حقیقت سے اہل کشمیرقطعی طورپربے خبرنہیں۔ میجر گگوئی کا شرم ناک قصہ منظر عام پر لانے کا سارا کریڈٹ ہوٹل گرینڈ ممتا کے سر جاتا ہے ۔اس ہوٹل کے عملے کو سلام!!!