Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

روس کا کروفر بحال ہوگا؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 10, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
۱۷۶۸ء اور۱۷۷۴ء کے دوران روس اور غیر معمولی حد تک پھیلی ہوئی ترک سلطنت کے درمیان مناقشہ رہا جس کے بعد۱۷۷۴ء میں دونوں کے درمیان’’ کوچوک کینارکا‘‘ کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے سے روس کوجہاں ’’کو کرچ‘‘ اور’’ ازوو‘‘ کی بندر گاہوں کے ذریعے بحیرہ اسود تک براہ راست رسائی ملی۔ وہاں ترکی میں عیسائی اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے کا حق بھی ملااور علامتی طور پر خود مختار کریمین خانیت کو تھوڑے بہت اختیارات کے ساتھ مقرر کیا گیا۔ اس معاہدے کے۹ سال بعد روس کے حکمراں طبقے کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کے خلاف عوام نے مزاحمت کی۔ دوسری طرف کریمیا کی طرف آباد گاہوں کا بہاؤ جاری تھااس سے روس کی ملکہ کیتھرین دوم کے ایلچی شہزادہ گریگوری پوٹیمکن کو کریمیا کے روس سے بزور الحاق کا بہانہ مل گیا۔ اسے معمولی سی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سال یعنی۱۷۸۳ء میں کریمیا کے دارالحکومت سیواستوپول کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس بڑی تبدیلی سے روس بحیرہ اسود میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا جبکہ سلطنت عثمانیہ نے زوال کی راہ پر طویل سفر شروع کیا۔ 
سلطنت عثمانیہ کا انحطاط جاری رہا۔ ساتھ ہی بحیرہ اسود کے خطے میں علاقائی طاقتوں کے درمیان زیادہ اثر و رسوخ ثابت کرنے کی کشمکش بھی جاری رہی۔ کوئی ایک بھی فریق حتمی اور فیصلہ کن فتح کا دعوی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔۱۸۵۳ء سے۱۸۵۶ء کے درمیان روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان کریمیا کی جنگ ہوئی جس نے لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنا دیا ۔ اس تنازع میں برطانیہ اور فرانس نے عثمانیوں کا ساتھ دیا۔ انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ روس کا مزید طاقتور بن کر ابھرنا اس خطے میں اس کی بھرپور بالا دستی کے قیام کی راہ ہموار کر دے گا مگر یہ خوف بہت حد تک بلا جواز تھا کیونکہ روس کبھی اس پوزیشن میں نہ آسکا کہ باسفورس اور آبنائے ترکی پر اپنا بھرپور کنٹرول قائم کرسکے۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کی شرکت کا ایک اہم محرک یہ تھا کہ آبنائے ترکی پر کنٹرول قائم کیا جائے، مگر یہ منصوبہ بھی بیک فائر کرگیا کیونکہ جرمنوں نے ترکوں کے ساتھ مل کر روسیوں کو ناکامی سے دوچار کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اختتام پر روسی اور عثمانی سلطنت زوال سے دوچار ہوئیںاور خطے کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی کوششیں نئے سرے سے کی گئیں۔ پہلی کوشش ۱۹۲۰ء کا معاہدہ سیورز تھا اور دوسری، قدرے کامیاب کوشش ۱۹۲۳ء میں لوزان کے امن معاہدے کی صورت میں کی گئی۔ اسی سے ترک جمہوریہ کی راہ ہموار ہوئی۔ ترکی تزویراتی اعتبار سے اچھی پوزیشن میں آگیا تھا اور اس نے لوزان امن معاہدے کے ذریعے یورپی طاقتوں کو پیغام دیا کہ وہ کسی کی مرضی کے سامنے زیادہ نہیں جھکے گا۔ اس کے نتیجے میں۱۹۳۶ء کے’’ مانٹریکس کنونشن‘‘ نے جنم لیا جس نے آبنائے ترکی پر ترکی کا کنٹرول باضابطہ بنایا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ بحیرۂ اسود کے جن ممالک سے ترکی کا کوئی مناقشہ نہیں ان کے جنگی جہاز بحفاظت گزر سکیں۔ بحیرہ اسود کے خطے سے باہر کے ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ ایسے جنگی جہاز نہ بھیجیں جن کا وزن ۱۵ ہزار ٹن سے زائد ہو اور مجموعی وزن کی حد ۴۵ہزار ٹن رکھی گئی۔ اور یہ جہاز بحیرہ اسود میں ۹ دن سے زیادہ نہیں رک سکتے تھے تاہم امریکا مانٹریکس کنونشن کا فریق نہیں تھا۔ 
طاقت کا یہ توازن بہت نازک تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر کشیدگی ایک بار پھر جاگ اٹھی۔ سوویت یونین کی خواہش تھی کہ ترکی مانٹریکس کنونشن پر نظر ثانی کرے تاکہ علاقے کے پانیوں پر سوویت ریاست کا کنٹرول معقول حد تک قائم ہوسکے۔ ۱۹۴۶ء کے آبنائے ترک بحران میں سوویت یونین نے بحیرہ اسود میں اپنی عسکری موجودگی بڑھادی تاکہ ترکی میں سوویت فوجی اڈوں کے قیام کا مطالبہ ترک حکومت سے منوایا جاسکے۔ بڑھتے ہوئے دباؤکے باعث ترکی نے امریکا سے مدد چاہی جس کا جواب امریکا نے فوری اور مثبت دیا یعنی خطے میں جنگی جہاز بھیج دیے۔ سوویت یونین نے پسپائی اختیار کی مگر یہ مناقشہ۱۹۴۷ء کی ٹرومین ڈاکٹرائن کی بنیاد بناجس کی بنیاد پر سوویت یونین کو کنٹرول کرنے اور ایک خاصے خطے تک محدود رکھنے کے لیے امریکا نے ترکی اور یونان کو۱۹۵۲ء میں معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو)کی رکنیت دلائی۔ سرد جنگ کے پورے دور میں بحیرہ اسود کے خطے میں ترکی، نیٹو، امریکا اور سوویت یونین کے درمیان ایک تناؤ بھرا توازن برقرار رہا۔ ۱۹۷۶ء سے ترکی نے سوویت طیارہ بردار جہازوں کو (جو یوکرین میں تیار کیے جاتے تھے ) اپنے پانیوں سے گزرنے کی اجازت دی۔ 
۱۹۹۱ء میں سویت یونین کی تحلیل کے بعد بحیرہ اسود کا خطہ مغربی طاقتوں کے لیے تزویراتی اعتبار سے پہلا سا اہم نہ رہا، مگر روس کیلئے اس کی اہمیت کم نہ ہوئی کیونکہ اسے بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے ان پانیوں کی شدید ضرورت ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یوکرین میں موجود جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ تھا ۔ ۱۹۹۴ء میں ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ میں مذاکرات کے بعد ایک میمورینڈم پر دستخط کیے گئے جس میں یوکرین نے روس، امریکا اور برطانیہ کی طرف سے سلامتی یقینی بنائے جانے کی ضمانت کے عوض جوہری ہتھیار ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ فرانس اور چین نے بھی اس بات کی ضمانت دی کہ وہ یوکرین کی سلامتی اور سا  لمیت برقرار رکھنے میں معاونت کریں گے۔ 
پالیسی کے حوالے سے اس بڑی کامیابی کے باوجود جزیرہ نما کریمیا کے معاملے پر روس اور یوکرین میں کشیدگی برقرار رہی۔ زار کے دور کے روس اور یوکرین کے انضمام کے۳۰۰ سال مکمل ہونے پر۱۹۵۴ء میں سوویت یونین کے اس وقت کے وزیراعظم نکیتا خروشیف نے جزیرہ نما کریمیا کو تحفے کے طور پر یوکرین کا حصہ بنایا تھا۔ تب سے یہ علاقہ دونوں ممالک کے درمیان بارگیننگ چپ کا سا درجہ اختیار کیے ہوئے تھا۔ روس نے ملٹری انفرا اسٹرکچر برقرار رکھا۔ سیواستوپول کی بندر گاہ میں روس کا فوجی اڈا بھی برقرار رکھا گیاتاکہ بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کو چلانا ممکن رہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے وقت سیوا ستو پول میں روس کے ۶۰فوجی تکنیکی شعبے اور دیگر امور سے متعلق ایک لاکھ افراد جبکہ۲۸ آبدوزوں سمیت۸۳۵ جہاز بحیرہ اسود میں تھے۔ یہ غیر معمولی عسکری موجودگی سیواستوپول شہر اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے یوکرین کی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کیلئے کافی تھی۔ جزیرہ نما کریمیا میں روس کے اثرات بہت مضبوط اور نمایاں تھے، وہاں قوم پرستی کی لہر موجود تھی جس کا روسی قیادت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کریمیا نے اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھی اور۱۹۹۵ء تک اس کا اپنا آئین موجود تھا۔ یہ سب کچھ یوکرین کی قیادت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کافی تھا۔۱۹۹۷ء میں روس اور یوکرین کے درمیان دوستی کا معاہدہ ہواجس کے تحت بحیرہ اسود کے سوویت بحری بیڑے کا ۱۹ فیصد یوکرین کو ملا اور روس کی طرف سے بیشتر قرضے ختم کرنے اور توانائی رعایتی نرخ پر فراہم کرنے کے عوض یوکرین نے سیواستو پول کی بندرگاہ روس کو بیس سالہ لیز پر دے دی۔ 
روس میں یہ تاثر موجود رہا ہے کہ سابق سویت ریاستوں اور بحیرۂ اسود پر اس کا حق فطری طور پر یعنی جغرافیائی حقیقت کی حیثیت سے زیادہ ہے مگر اس میں اِتنی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت نہ تھی کہ اس تاثر کو حقیقت کا روپ دے سکتا۔۰۴ ۔۲۰۰۳ء میں جارجیا کے گلابی انقلاب اور ۰۵۔۲۰۰۴ء میں یوکرین کے نارنگی انقلاب کے بعد روس نے بھی علاقائی بالا دستی قائم کرنے کے حوالے سے اپنی پالیسی مزید سخت کردی اور اپنی بات منوانے کی طرف زیادہ مائل دکھائی دینے لگا۔ جارجیا اور یوکرین میں روس کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والے قائدین کو بدل دیا گیا اور ان کی جگہ وہ لوگ آئے جو مغرب یا یورو اٹلانٹک کے لیے واضح جھکاؤ رکھتے تھے۔ اسی وقت یعنی۲۰۰۴ء میں نیٹو نے بلغاریہ اور رومانیہ کو بھی رکنیت دے دی یوں بحیرہ اسود سے جڑی ہوئی۶ ریاستوں میں سے۳  نیٹو کی رکن ہوگئیں اور باقی۳ میں سے بھی جارجیا اور یوکرین کو رکنیت دینے کی باتیں کی جانے لگیں۔ نیٹو نے ۲۰۰۸ ء کی بخارسٹ سربراہ کانفرنس کے اعلامئے میں کہا کہ یورپ اور اٹلانٹک کے خطے کی سلامتی کے لیے بحیرہ اسود کے خطے میں معاملات کا درست رہنا لازم ہے۔
روسی قیادت نے نیٹو کی طرف سے کئے جانے والے ان اقدامات کو اپنے اثر و رسوخ کے روایتی خطے میں مداخلت سے تعبیر کیا اور بحیرہ اسود میں اپنے اثرات بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کی راہ ہموار کی۔ ۲۰۰۶ء اور پھر۲۰۰۹ء میں روس نے یوکرین کو رام کرنے کیلئے توانائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ روس نے یوکرین کے ذریعے یورپ کو قدرتی گیس کی فراہمی بند کردیاور ساتھ ہی توانائی کے نرخ بھی بڑھادیے۔ اگست۲۰۰۸ء میں روسی افواج نے، جو۱۹۹۳ء میں جارجیا اور جنوبی اوسیشیا کے قضیے کے آغاز سے جنوبی اوسیشیا میں موجود تھیں، اس الگ ہوجانے والے خطے کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے جارجیا کے صدر کی کوشش ناکام بنائی اور جارجیا میں داخل ہوئیں اور جارجیا کی فوج پر قابو پالیا اور دارالحکومت تبلسی پر تقریبا ًقبضہ کرلیا۔ اس لڑائی میں دونوں طرف سے مجموعی طور پر ۳۵۰ فوجی اور۴۰۰ سے زائد شہری مارے گئے۔ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس نے جنوبی اوسیشیا اور ابخازیہ کی طرف سے آزادی کے اعلان کو شرفِ قبولیت بخشا۔ تب سے اب تک روس نے جارجیا پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے اقدامات جاری رکھے ہیں۔ وہ انتظامی طور پر دونوں خود مختار علاقوں(جنوبی اوسیشیا اور ابخازیہ)کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے بھی کوشاں رہا ہے۔ 
دوسرا، جغرافیائی اور عسکری اعتبار سے گہرے اثرات کا حامل واقعہ مارچ ۲۰۱۴ء میں کریمیا کا روس سے الحاق تھا۔ یہ الحاق یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ کی عوامی انقلاب کے نتیجے میں برطرفی کے بعد رونماہوا۔ بڈاپیسٹ میمورینڈم کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس نے جزیرہ نما کریمیا میں دوبارہ عسکری پیش رفت کی اور ساتھ ہی مشرقی یوکرین میں فوجی مداخلت بھی کی جس کے نتیجے میں اس خطے میں ملٹری ری انفورسمنٹ کی راہ ہموار ہوئی۔ کئی یونٹس کی تعیناتی کے علاوہ اینٹی ایئر اور اینٹی سرفیس میزائل سسٹمز بھی نصب کیے گئے۔ یورپ کے سابق سپریم الائیڈ کمانڈر جنرل فلپ ایم بریڈ لو نے۲۰۱۵ء میں کریمیا کو روس کی طرف سے طاقت کے اظہار کا پلیٹ فارم قرار دیا۔ روس نے کریمیا میں کی جانے والی لشکر کشی کے ساتھ ہی کسی بھی جوابی کارروائی یا بیرونی مداخلت کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی۔ کریملن کا کہنا تھا کہ کریمیا کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے وہ جوہری ہتھیار نصب کرنے کا حق رکھتا ہے۔ 
 ستمبر۲۰۱۵ء میں شام میں روسی فوجی مداخلت خطے میں روسی عسکری موجودگی کو بھرپور استحکام بخشنے کی یہ آخری صورت تھی،روس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ بحیرہ اسود کے بیڑے کے مختلف اجزا کو متحرک کیا اور دفاعی و جارحانہ میزائل نظام نصب کیے۔ روس اب شام کے علاقے لاطاقیہ میں ایئر بیس کامیابی سے آپریٹ کر رہا ہے اور تارتوس میں اپنے بحری اڈے کو توسیع اور تجدید و تزئین نو کے عمل سے گزار رہا ہے تاکہ وہاں بیک وقت جنگی جہازوں کو لنگر انداز رکھا جاسکے۔ روس نے قبرص سے بھی معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت وہاں روسی جہاز لنگر انداز کیے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ روسی قیادت مصر سے بھی ایک فوجی اڈے کے قیام کیلئے بات چیت کر رہی ہے۔ لیبیا میں بھی فوجی اڈہ قائم کرنے کی باتیں سامنے آرہی تھیں مگر روسی حکام نے انہیں افواہ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ 
انیسویں صدی میں روس ایک بڑی اور بالا دست قوت کی حیثیت رکھتا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں روس کی طاقت غیر معمولی حد تک پھیلی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اس میں شکست و ریخت کا عمل بھی شروع ہواجو ۱۹۹۱ء کے بعد ایک تھکی ماندی قوت کے طور پر ظاہر ہوا۔ بحیرہ ٔاسود اور بحیرۂ روم میں امریکا اور یورپ کی موجودگی اور عمل دخل گھٹتا جارہا ہے۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے روس اب متحرک ہوتا جارہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کریملن مشرقی بحیرہ روم میں اپنی موجودگی بڑھانے پر توجہ دے گا یا نہیں۔ کیا وہ کریمیا اور مشرقی یوکرین میں اپنی عسکری موجودگی کو زیادہ تقویت پہنچانا چاہتا ہے؟ اور کیا وہ نیٹو کی موجودگی گھٹانے کے حوالے سے بلغاریہ پر دباؤ ڈالے گا؟ اور کیا وہ ترک پانیوں میں اپنی موجودگی زیادہ مستحکم کرنے کے لیے ترکی سے زیادہ دوستی اور اشتراکِ عمل پر توجہ دے گا؟ 
 ۱۸۵۳ء کے بعد سے روس کے لیے بحیرہ ٔاسود کی تزویراتی اہمیت کے محرکات تبدیل نہیں ہوئے۔ پہلے انفرادی حیثیت میں ریاستیں روس کے مقابل رہا کرتی تھیں۔ بعد میں امریکا اور یورپ نے تنظیموں اور اتحادوں کی سطح پر روس کے لیے راستے بند کرنے کی راہ ہموار کی۔ کریمیا عسکری اہمیت کا سب سے بڑا منبع ہے۔ ترکی مرکزی حریف کے طور پر کھڑا ہے اور ترک پانیوں کے ذریعے ہی روس کو اپنی اہمیت منوانی ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ مشرقی بحیرہ روم میں امریکا اور یورپ کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کاؤنٹر بیلنس کے طور پر کام کیا جائے تاکہ وہ مشرقی اور وسطی بحیرہ کی طرف زیادہ پیش رفت ممکن نہ بناسکے۔
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

امر ناتھ یاترا کے لیے جموں میں رجسٹریشن مراکز پر عقیدت مندوں کا ہجوم، سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات
تازہ ترین
امر ناتھ یاترا جموں و کشمیر کی روحانی یکجہتی اور ثقافتی ورثے کی علامت : نائب وزیر اعلیٰ
تازہ ترین
لیفٹیننٹ کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد ، ملی ٹینسی متاثرہ خاندانوں کے مسائل پر تبادلہ خیال
تازہ ترین
امر ناتھ یاترا: ایل جی منوج سنہا نے تیاریوں کا حتمی جائزہ لیا
تازہ ترین

Related

طب تحقیق اور سائنسمضامین

زندگی گزارنے کا فن ( سائنس آف لیونگ) — | کشمیر کے تعلیمی نظام میں ایک نئی جہت کی ضرورت فکرو فہم

June 30, 2025
کالممضامین

“درخواست برائے واپسی ٔ ریاست” جرسِ ہمالہ

June 30, 2025
کالممضامین

! ہمارا جینا اور دکھاوے کے کھیل

June 30, 2025
کالممضامین

مقدس امرناتھ جی یاترا | تاریخ اور بین ا لمذاہب ہم آہنگی کا سفر روحانی سفر

June 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?