روزہ : مقصدیت وغایت

Kashmir Uzma News Desk
16 Min Read
  اسلام نے روئے زمین پر نہایت پاکیزہ اور طیب معاشرہ قائم کرنے کی ٹھان لی ، ایک ایسا معاشرہ جس میں شرک ہو نہ بت پرستی ، بلکہ اس میں توحید خالص ہو اور عبادات و بندگی صرف اللہ واحد کے لئے ہو۔ ایک ایسا سماج جس میں ظلم و استبداد نہ ہو بلکہ اس میں حق و انصاف اور حریت و اخوت کا دور دورہ ہو ۔ ایک ایسی زندگی جس میں جہالت اور نا خواندگی ہو اور بے حیائی اور فحاشی کا دخل نہ ہو بلکہ بہر نوع طہارت، پاکیزگی ، نظافت اور پاکدامنی ہو۔ ایک ایسا معاشرہ ، جس میں حسد اور کینہ پروری نہ ہو بلکہ محبت ، تعاون ، خلوص، امداد باہمی اور اخوت،ایثاراورہمدردی ہو۔اونچ نیچ کی تمام حدود پامال ہوں اورمسلمان ، مسلمان کا بھائی ثابت ہو۔غرض ایسی حیات صالحہ جس میں نہ فضول خرچی ہو نہ تعیش بلکہ اس میں انفاق ہو ، سخاوت ہو اور ایثار ہو۔ ایسی زندگی جس میں لوٹ کھسوٹ نہ ہو بلکہ محنت ، عمل اور رزق حلال کے حصول کی طلب ہو۔
آج جو انسانی فضائل کے سوتے خشک ہو چکے ہیں ۔ شرافت انسانی کی مٹی پلید ہو رہی ہے ۔ ضمیر بگڑ چکے ہیں اور شرم و حیا خاک میں مل چکی ہے مختلف النوع جرائم عام ہو چکے ہیں انسانی قدروں کا جنازہ نکالا جا چکا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دلوں میں خوف خدا نہیں رہا۔ دلوں میں عظمت الٰہی کا احساس مردہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بڑے شد و مد سے انسانوں کو خوف خدا اور تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے ۔ تا کہ ضمیر بیدار اور بلند ہوں ، ضمیر کی بیداری ہی میں انسان کی نجات اور اس کی دنیوی و اخروی ساعات کا راز مضمر ہے۔ خوف الٰہی اور خشیت ایزدی کے صرف یہی مثبت نتائج و ثمرات نہیں ہیں بلکہ الٰہی خوف سے انسان اپنا مثبت کردار بھی بخوبی ادا کرتا ہے ۔ اس سے نفس انسانی ہر خیر و سعادت کے اپنانے میں کوشاں رہتا ہے اور انسانی خودی کو خیرو برکت کی جانب عروج و ارتقاء نصیب ہوتا ہے۔
مغرب کی اس مادی یلغار کے باوجو د عصر حاضر کا انسان یقینا آ ج بھی ایک ایسے دین کی تلاش میں سر گرداں ہے جو ایک طرف تو نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور دوسری طرف انسان کے مادی اور روحانی کمال کا ضامن ہو۔ ہمارا اس حقیقت پر پختہ ایمان ہے کہ یہ دونوں عناصر اسلام میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں  اس لئے یہی وہ دین ہے جس کے اصول و مبادی محکم و پابند ہیں۔ اس کے مصادر مستحکم ہیں اور یہ دین تغیر و تبدل اور تحریف سے محفوظ ہے۔ اسلام ہی وہ مکمل دستور حیات ہے جس کا مقصد اعلیٰ انسانی زندگی کا قیام ہے ۔ ایسی بلند پایہ زندگی جس میں عقل و ضمیر کو مکمل آزادی ہو ۔ ارادہ اور تفکر پر کوئی پابندی نہ ہو جس میں ہر فرد معاشرہ محسوس کرے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے معاملات کا خود مالک ہے ۔ حق کے سوا اس پر کسی قسم کا حکم نہیں چلتا ۔ وہ حق جو غالب رہتا ہے کبھی مغلو ب نہیں ہوتا۔اسلام نے اپنے عقائد عملی نمونوں اور گراں قدر اصولوں سے جذبات میں زندگی کی لہر دوڑا دی ۔ خوابیدہ قلوب کو بیدار کیا۔ انسان کے خیر و فلاح کے احساست کو متحرک کیا تا کہ انسان خوشگوار تعلقات ، مخلص دوستی اور حسن کارانہ طرز عمل کے لئے اپنے اندر وسعت اور فراخ دلی محسوس کرے ۔ اسلام نے  ہر قسم کے ظلم و ستم اور اسلام سے بغاوت و سرکشی کے خلاف اعلان جہادکیا تا کہ کسی کی عزت و ناموس پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکے۔ کوئی کمزور ناتواں اپنے آپ کو معاشرہ میں تنہا محسوس نہ کرے ۔ غریب و نادار کو اپنی ہلاکت و بربادی کا خوف نہ رہے اور کسی کا مال نا حق نہ لیا جا سکے۔
 اس دین نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی ہمتوں کو بلند اور ان کے ارادوں کو محکم کیا۔ ان کے عزائم میں پختگی پیدا کی ۔ چنانچہ وہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے اپنے آپ کو قوموں کی امامت اور انسانوں کی قیادت کا اہل ثابت کیا۔ انسانیت کو اوہام و خرافات سے نجات دلا دی۔ استبداد ملوکانہ کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ۔ زمین کو کفرو شرک اور فتنہ و فساد کی آ لائشوں سے پاک کر دیا ۔ اسی دین کی مکمل پیروی کی بدولت صدر اول کے مسلمانوں کو فتح و ظفر اور کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی ۔ ان کا علم و عمل اس دین پر ایمان ہی کا مرہون منت تھا۔ اس دین پرایمان کی بنیاد پر انہوں نے ایک ایسی درخشندہ تہذیب کی تعمیر کی ۔ جس نے چند برسوں میں ہی شرق و غرب کو اپنی نورانی کرنوں سے منور کر دیا۔
دین کے سامنے مکمل خود سپردگی کے عمل کو ایمان کہا جاتا ہے اور جب مومن خدا کے سامنے خود سپردگی اختیار کرتا ہے تو ایمان اس کے قلب میں راسخ ہو جاتا ہے  ایمان کی جڑیں نفس کی گہرائیوں میں مضبوطی سے جم جاتی ہیں ۔ تو انسان کی وہ خفیہ صلاحتیں قوتیں بیدار ہو جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں ۔ پوشیدہ صلاحیتوں کے اس اظہار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خیر کی طرف بڑی محبت سے لپکتا ہے اور شر سے نفرت کے ساتھ دور بھاگتا ہے ۔ ان کے اندر تقوی پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ کی صفت سے متصف صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہو۔ انہیں ’’ورثہ نبوت اور کار رسالت‘‘ کی علمبرداری کے لئے تیار کر رہا ہوں ۔ انہیں حقیقی بندگی کے لئے تیار کر کے لشکر الٰہی کا حصہ بنا دیا ہو۔ یہ مرتبہ و مقام حاصل کر لینا کوئی آسان بات نہیں ہے لیکن بندہ خلوص دل سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ خود اس کی رہنمائی فرما کر اس کی کوشش کو کامیاب بنا دیتا ہے۔تا ہم ا س منزل تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی مرضی سے اپنی نفسانی خواہشات اور شہوات سے دستبردار ہو۔ شبہات کو اپنے دل میں جا گزیں نہ ہونے دے ۔ ذات الٰہی میں اپنے مجاہدہ کو جاری رکھے پھر کہیں جا کر اسے لذت یقین اور حلاوت ایمان نصیب ہوجاتی ہے ۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ترجمہ’’ بندہ اس وقت متقیوں میں شامل نہیں ہو سکتا جب تک ضرر رساں باتوں سے بچنے کے لئے احتیاطاً وہ بے ضرر باتوں کو بھی نہیں چھوڑ دیتا‘‘معلوم ہوا کہ تقویٰ ہر نیکی کا منبع، ہر بہتری کا سر چشمہ اور فرد اور جماعت کے لئے صلاح و فلاح کا اصل الاصول اور مصدر ہے ۔ تقویٰ کی اس حقیقت کے پیش نظر انسان کے لئے ضروری ٹھہرا کر وہ زیادہ سے زیادہ اس صفت سے متصف ہو۔ شاہراہ زندگی کی کٹھن راہوں میں تقویٰ انسان کے لئے بہترین زادہ راہ ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں ترجمہ’’ اور زادر اہ ساتھ لے لو کیونکہ بہترین زادراہ تقویٰ ہے ۔ ‘‘ تقوی کہاں سے پیدا ہوتا ہے جب ہم روزہ داری کے اصل مقصد پر بات کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ روزہ داری کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے ۔
عبادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ ہی کی اطاعت ،اسی کے لئے عجزو نیاز اورجو اس نے دین عطا فرمایا اس کے احکام پر بلا چوں و چراعمل کیا جائے۔عبادت اس مفہوم میں انسان کو اس قابل کر دیتی ہے کہ وہ صرف اس ذات کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے ۔جس کو اس نے پیدا فرمایا یہ عبادت،انسانوں کو ظن ، وہم اور باطل پرستیوں سے بچاتی ہے ۔ خدا اور بندہ کے مابین کسی بھی باطل شئے کو حائل نہیں ہونے دیتی۔ اور انسان کے سامنے ایک ایسے واضح راستہ کی نشاندہی کرتی ہے جس پر گامزن ہو کر بندہ براہ راست اپنے رب سے رابطہ قائم کر لیتا ہے۔ یہ عبادت ہی ہے کہ جس کے ساتھ ہی اللہ کی یاد دہانی ہے اور اللہ کی یاد سے انسان کا دل ، اس کی عظمت سے معمور ہو جاتا ہے ۔ اور جب دل اللہ کی معرفت اور اس کی عظمت سے سر شار ہو جاتا ہے تو وہ نفس کی قوتوں کو برو خیر کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اسے شر و گناہ سے باز رکھتا ہے ۔ عبادت، کامل شخصیت کی تعمیر میں اساسی رکن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ کامل شخصیت جسے اللہ تعالیٰ بنانا چاہتا ہے ۔اس بنیاد پر عبادت ہی صالح سوسائٹی کے قیام کا ذریعہ ہے ۔ لہٰذا یہی غایت الغایات اور مقصد اصلی ہے ۔
اس غرض و غایت تک پہچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور اختیار و ارادہ سے نوازا ہے ۔ مقدس وحی کی روشنی سے انسان کو سرفراز فرمایا ہے ۔ اور اس طرح اسے اس قابل کر دیا کہ وہ عبادت کی ذمہ داری کو اٹھا سکے ۔تا کہ انسان پر حجت تمام ہو سکے اور اس کے پاس کوئی عذر اور بہانہ باقی نہ رہے۔ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ روزہ قرب الٰہی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔اس کے کثیر الجہات مبارک اثرات ہیں کہ نفوس اس کے عادی ہو کر خیر و بر کے لئے آمادہ ہوں۔ روزہ دار جب اپنی شہوتوں کو ترک کر دیتا ہے حالانکہ وہ اپنی محبوب ترین چیزوں کو باوجو یکہ ان کے استعمال پر قادر ہوتا ہے لیکن محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کے حصول کے لئے شہوات چھوڑ دیتا ہے جس کے نتیجے میں اس میں خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے ۔ کنٹرول کا ملکہ نشو و نما پاتا ہے اور ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ پھر روزہ اس کے ارادہ کو قوی سے قوی تر کرتا ہے ۔ انسان کو صبر و برداشت کا عادی بناتا ہے پھر انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات اور واقعات کے مدو جزر کاآمنا سامنا پوری بہادری کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ زندگی کی سختیوں ،تلخیوںاورمشکلوںکے آگے سپر انداز نہیں ہوتا اور نہ ہی حوادث زمانہ کے سامنے جھکتا ہے یہ طے ہے کہ انسان کا ارادہ جس قدر قوی اور مضبوط ہو اتنا ہی عادت کا کنٹرول ڈھیلا پڑ جاتا ہے ۔ اس سے انسان کو بہت سی بری عادتوں کے چھوڑنے کا موقع ملتا ہے جن سے بدن کمزور اور بیمار اور مال رائیگاں ہو جاتا ہے ۔ ضمیر کی بیداری اور ارادہ کی مضبوطی سے انسان کو عظمت و شرافت حاصل ہوتی ہے اور اسے فوزو فلاح اور نجات و کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کاروزہ محض روزہ توڑنے والی اشیاء سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تمام برائیوں اور نا فرمانیوں کو ترک کرنے کا نام ہے اسی لئے حکم ہے کہ روزہ دار کو صرف اچھی گفتگو کرنی چاہیے اور خوبصورت افعال سر انجام دینے چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ترجمہ ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ یعنی منکرات اور شرور سے بچاتا ہے ۔یوں روزہ ، نفس کے لئے فضائل اختیار کرنے اور تمام حالات میں میں احسن طریقہ کار اپنانے کا ایک عملی سبق اور مشق ہے ۔ روزہ سے نفس انسانی کا تزکیہ ہوتا ہے اور تطہیر ہوتی ہے ۔ انسان خیر کا امیدار بن جاتا ہے اور شر سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ اگر روزہ سے انسان میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا اور اسے اس درجہ مہذب نہیں بنا سکتا تو بندے کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کے ہاں اس کے روزے قبولیت کا مقام پالینے میں کامیاب نہیں ہوتے اور پھر روزہ دار کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاترجمہ’’ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ترجمہ ’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے‘‘۔
روزہ کا مقصد یہ بھی ہے کہ سوسائٹی میںزندگی گزارنے والے مالدار اور نادار دونوں محرومی اور شہوات سے لطف اندوز ہونے کو ترک کرنے میں مساوی ہوں ۔ روزہ ، نادار کے نفس کو بلندی عطا کرتا ہے ۔ اس لئے کہ مالدار بھی اس فریضہ کی ادائیگی میں اس کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔
(بقیہ بدھوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *