روزہ : مقصدیت وغایت

Kashmir Uzma News Desk
11 Min Read
روزہ کا مقصد یہ بھی ہے کہ سوسائٹی میںزندگی گزارنے والے مالدار اور نادار دونوں محرومی اور شہوات سے لطف اندوز ہونے کو ترک کرنے میں مساوی ہوں ۔ روزہ ، نادار کے نفس کو بلندی عطا کرتا ہے ۔ اس لئے کہ مالدار بھی اس فریضہ کی ادائیگی میں اس کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔روزہ سے امیروں کے دلوں میں محبت، رحم دلی او رشفقت کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ روزہ امیروں کو ان لوگوں کی مدد پر ابھارتا ہے جن پر زندگی کی راہیں تنگ ہو چکی ہوتی ہیں ۔ روزہ دلوں میں محبت کے جوہر پروان چڑھا دیتی ہے جس وجہ سے کدورت، نفرت اور کینے نابود ہو جاتے ہیں ۔ معاشرہ کی ترقی اور طمانیت بخشنے کی کثرت کی خاطر ، امیر اور غریب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام باوجود یہ کہ مصر کے خزانوں کے مالک تھے پھر بھی بکثرت روزہ رکھتے تھے۔ ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب فرمایا:مجھے اندیشہ ہے کہ میں شکم سیر ہو کر بھوکے کو بھول جائوں۔روزہ کی حکمتیں اور اس کے اثرات ہیں کہ ان سے فرد مہذب ، ذمہ دار ہوتا ہے اور معاشرہ با کمال ہوتا ہے اور روزہ کے ذریعہ امت ترقی و رفعت کی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے۔  
 روزہ ،روزہ دار کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے ۔ جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجھک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف حد درجہ رغبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ روزہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان میں یہی کیفیات پیدا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ دلوں میں گناہوں کے اکثر جذبات حیوانی قوت کی افراط سے پیدا ہوتی ہے ۔ روزہ انسان کے ان جذبات کی شدت کو کمزور اور کرش کرتا ہے اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نوجوانوں کو جو اپنی مالی مجبوریوں کے باعث نکاح کرنے سے معذور ہوں یہ مشورہ دیا کہ وہ روزہ رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ روزہ شہوت کو توڑنے اور کم کرنے کے لئے بہترین علاج ہے‘‘ روزہ کے قانونی پہلو پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس کے ذریعہ انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تا کہ احکام ِ خداودندی کو بجا لاتے وقت انسان اپنی آزادی اور خود مختاری سے دست بردار ہو جائے کفر اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو خود مختار محسوس کرے اس کے علی الرغم اسلام یہ ہے کہ انسان ہر آن اپنے آپ کو اس کا بندہ اور محکموم محسوس کرے ۔ سال میںایک مرتبہ رمضان کے روزے  ۷۲۰ گھنٹے پیہم اس شعور کو ذہن پر قائم رکھتے ہیں تا کہ سال بھر انسان کے ذہن پر اس کے اثرات بدستور قائم رہیں ۔
احساس بندگی کے ساتھ ساتھ روزہ داری سے جو چیز لازمی طور پر پیداہو تی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جس خدا کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کی اطاعت کرے ۔ ان مبارک دنوں میں فطری طور پر بندے کا اپنے رب سے ایسا ربط رہتاہے کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔ اس دوران انسان میں خود بخودیہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے ۔ لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے ۔ احساس بندگی کی یاد ہانی کے ساتھ ساتھ اطاعت امیر کی تربیت دینا بھی ضروری ہے ۔ روزے میں اگرچہ بظاہر(غذا اور جنسی خواہشات) پر پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان پر پابندی پوری طرح حاوی ر ہے ۔روزہ داری سے ضبط نفس میں کمال پیدا ہوتا ہے اس تربیت کے ضابطہ میں کسنے کے لئے خواہشات پر مکمل طور پر پابندی لگادی گئی ہے تراویح پڑھنے اور سحری کے لئے اٹھنے سے راحت پسندی اورعیش پرستی پر بھی کافی ضرب پڑتی ہے ۔جس سے انسان سنبھل جاتا ہے۔ 
 اگر انسان کامطمح نظر یہ بن جائے کہ کسی بھی طرح ان خواہشات کی تسکین ہو تو یہ خواہش انسان پر سوار ہو جاتی ہیں ۔ اس کے برخلاف اگر انسان ارادے کی باگیں مضبوطی سے تھامے رکھے تو پھر وہ خواہشات کو اپنے پیچھے اور مرضی کے مطابق چلا سکتا ہے اسی لئے روزہ خواہشات کو قابو میں رکھنا سیکھاتا ہے ۔ روزہ امیروں کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ فاقہ کشی کیسی اذیت ناک اورتکلیف دہ شئے ہوتی ہے ۔ اس وقت اسے اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال بھائی یاد آتے ہیں ۔ اور دل میں یہ احساس کروٹ لیتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا ثواب ہے ۔ جو خود بھوکا نہ ہو، اور جو خود پیاسا نہ ہو۔ اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیونکر ہو سکتا ہے ۔ بقول حافظ ابن قیم’’ سوز جگر سمجھنے کے لئے پہلے سوختہ جگر کا ہونا ضروری ہے‘‘ روزہ اسی احساس کو زندہ اور ایثار ، رحم اور ہمدردی کے جذبہ کو بیدار کرتا ہے ۔ چنانچہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت’’ سحابِ رحمت‘‘ کی طرح ہوتی تھی۔اسی مبارک اور پاکیزہ سنت کا اثر ہے کہ آج تک مسلمانوں کے یہاں اس مہینہ میں غریبوں اور فقیروں کی امداد و اعانت کی جاتی ہے اور انہیں جی بھر کر کھانا کھلایا جاتا ہے ۔ 
 انسان کتنا ہی ناز و نعمت میں پلا اور ثروت و دولت کی گود میں کھیلا ہو ۔ تا ہم زمانہ کا انقلاب اور زندگی کی کش مکش اس کو مجبور کر تی ہے کہ وہ اپنے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بنائے ۔ جہاد کے ہر متوقع میدان کے لئے بھوک اور پیاس کے متحمل اور اپنے آپ کو صبر و ضبط سے آشنا رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مجاہد اور غازی میدان جنگ میں بھوک اور پیاس کی تکلیف کو جس طرح ہنسی خوشی برداشت کرتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ روزہ ایک قسم کی جبری ورزش ہے ۔ جو ہر مسلمان کو سال میں ایک مرتبہ کرائی جاتی ہے ۔ تا کہ وہ ہر قسم کی جسمانی مشکلات کے اٹھانے کے لئے ہر وقت تیارر ہے اور دنیا کی کش مکش ، جدوجہد ، سختی و مشقت کا پوری طرح مقابلہ کر سکے اور اس میں صبر و تحمل پیدا ہو سکے۔ طبی لحاظ سے  دیکھیں تو روزہ انسانی صحت کے لئے نسخہ کیمیا ہے جس طرح حد سے زیادہ فاقہ اور بھوک جسم کو کمزور کر دیتی ہے ۔ اس سے کہیں زیادہ حد سے زیادہ کھانا انسان کے جسم کو مختلف امراض کا نشانہ بناتا ہے ۔جبکہ تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں انسان کا بھوکا رہنا صحت کے لئے ضروری ہے ۔ اور مختلف بیماریوں کا قطعی علاج ہے ۔ طبی ہدایت ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک وقت کھانے کا ناغہ کیا جائے ۔ اس لئے سال بھر میں ایک ماہ کے روزے رکھتے ہیں تا کہ انسان کو ذاتی تجربہ ہو گا کہ ایک مہینہ کا روزہ کتنی بیماریوں سے دور کر دیتا ہے ۔ اس لئے یہ ایک قسم کا سالانہ جبری جسمانی علاج بھی ہے ۔ 
 روزہ ایک پوشیدہ، خاموش اور بے ریا عبادت ہے ۔ جس میںنمود و نمائش کی کوئی گنجائش نہیں جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے ۔ دوسروں پر اس کا راز افشاں نہیں ہو سکتا۔ ریا سے بچنا ہی تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے ۔ اسی اخلاص اور بے ریائی کا یہ اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا کہ روزہ دار میرے لئے اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ترجمہ’’ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘ بہر حال روزہ کے مذکورہ صدر انفرادی و اجتماعی ثمرات اسی صورت مرتبت ہوتے ہیں جب نیت میں خلوص ہو دل میں اللہ کی معبودیت اور اپنی عبدیت کا یقین ہو۔ آقائے حقیقی کی اطاعت کا جذبہ ہو۔ رضائے الٰہی کی طلب و تلاش ہو ۔ فلاح اخروی کی آرزو ہو اگر دل اللہ کی حاکمیت اور معبودیت کے یقین سے اور نیت اجر آخرت کی طلب سے بے بہرہ ہو تو پھر روزہ نہیں بلکہ محض فاقہ ہے دیکھنے میں تو اسلام کی عمارت کا ایک ضروری رکن تعمیرہورہا ہے مگر فی الواقع وہاں تعمیر نام کی کوئی چیز موجود نہیں ۔ ایسے میں پھر نہ فرد کی تطہیر ممکن ہے نہ ایک صالح معاشرے کا قیام۔
������
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *