پرویز مانوس
ایک جانب رات کی تاریکی میں پورا جہان نیند کی گہری وادیوں میں کھویا ہوا تھا، جبکہ دوسری طرف صالحہ کا دل بے سکونی اور بے کسی کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے نصیب کو کوس رہی تھی۔ عمر کے پینتیسویں سال میں قدم رکھنے کے باوجود وہ ابھی تک اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی ایک ایسے “حلال رشتے” کے انتظار میں تھی جو شاید کبھی نہ آنے والا تھا –
صالحہ کی پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی تھی جہاں آج بھی خاندان سے باہر شادی کو نیچ حرکت تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے والدین اکثر بڑے فخر سے کہتے، ’’ہم نے سات پشتوں سے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا، اب کیا اپنی عزت کا جنازہ نکالیں ‘‘ یہ وہ الفاظ تھے جو صالحہ کی زندگی کے ہر خوشی کے دروازے پر تالے لگانے کے مترادف تھے۔
صالحہ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوئی تھی، اس لئے اُسے سب کا پیار ملا اور وہ سب کی چہیتی تھی –
کالج کے دنوں میں صالحہ کو ایک لڑکا شیزان پسند بھی کرتا تھا۔ وہ پڑھائی میں اچھا اور اپنے اخلاق میں لاجواب تھا، لیکن صالحہ کے والدین نے کہا، “وہ ہماری ذات کا نہیں ہے۔ خبردار جو اس لڑکے سے کوئی واسطہ رکھا ،غیر مردوں سے میل جول رکھنا اور بات کرنا حرام ہے ” اس ایک جملے نے صالحہ کے خوابوں کے محل کو چکنا چور کر دیاگیا- وہ اپنے دل کی خواہش کو دفن کر کے والدین کی مرضی کے آگے سر جھکا کر رہ گئی، اُس نے شیزان سے نہایت ہی انکساری سے معذرت طلب کرتے ہوئے کہا۔
شیزان ۔۔۔۔! لگتا ہے تقدیر کو ہم دونوں کا ہمسفر بننا منظور نہیں ہے، ہمارے خاندان میں پشتوں سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ہم اپنی ذات اور برادری سے باہر شادی نہیں کرتے، اس لئے آج کے بعد ہم کبھی نہیں ملیں گے-
لیکن صالحہ ….! میں نے زندگی میں پہلی بار کسی سے محبت کی ہے، کسی کو اپنا شریکِ سفر بنانے کا خواب دیکھا ہے، شیزان نے صالحہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تو صالحہ نے نظریں چراتے ہوئے فقط اتنا کہا سمجھو ہمارا ساتھ یہیں تک تھا-
’’صالحہ اس طرح ہماری محبت کو روایتوں کی قبر میں دفن مت کرو، میں تمہیں کبھی بھلا نہیں پاؤں گا‘‘، شیزان نے آبدیدہ آنکھوں سے کہا تو صالحہ نے منہ دوسری طرف پھیر کرکہا “شیزان مجھے معاف کردو، میں اپنے گھر والوں سے بغاوت نہیں کرسکتی _۔
صالحہ تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو، میں تمہیں ایسا کرنے کے لئے کہوں گا بھی نہیں لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ میں زندگی کی آخری سانس تک تمہارا انتظار کروں گا –
سوری شیزان، میں حیا کے ہاتھوں مجبور ہوں ‘‘کہہ کر صالحہ آگے بڑھ گئی-
صالحہ نے یہ فیصلہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر کیا تھا لیکن اس کے دل کے کسی کونے میں ہمیشہ ایک چبھن باقی رہی۔
اس دوران صالحہ کے لئے کئی غیر خاندانوں سے اچھے اور امیر رشتے آئے، لیکن صالحہ کے والدین اور بھائیوں نے ان سب کو ٹھکرا دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ خاندان کی روایت کو نبھانے کے لیے برادری کے اندر ہی رشتہ کیا جائے گا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ خاندان میں کوئی بھی ایسا لڑکا موجود نہیں تھا جو صالحہ کے لئے مناسب ہو۔
راتوں میں جب سب گھر والے سکون سے سوتے تھے، صالحہ کے جذبات کا لاوا اُبل پڑتا تھا۔ رفتہ رفتہ اُس کے حسن کا آفتاب سوا نیزے پر آرہا تھا وہ تنہائی میں اپنے کمرے میں لگے قد آور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سراپا کا جائزہ لیتی اور خود سے مخاطب ہوتی،
’’یا اللہ، اگر مجھے گھر میں ہی بٹھانا تھا تو مجھے اتنا حُسن کیوں دیا؟ میرا قصور کیا ہے؟ کیا میں انسان نہیں؟ کیا میرے جذبات کی کوئی قیمت نہیں؟میرے والدین کب میرے کنوارے پن کو سمجھیں گے، کب انہیں میرے جذبات کے کرب کا احساس ہوگا؟ ‘‘
ایک رات دل مضبوط کرکے وہ اپنے والدین کے کمرے کے باہر کھڑی ہوئی۔ دل چاہا کہ دروازہ کھول کر چیخ چیخ کر کہے ۔۔۔۔ اب میں اور برداشت نہیں کر سکتی، میرا سینہ پھٹنے کو آیا ہے، میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے -میرا نکاح کرا دیں، چاہے کسی بھی معمولی انسان سے! لیکن پھر حیاء نے اسے روک دیااور وہ دل مسوس کر واپس اپنے کمرے میں آگئی اور لحاف میں منہ چھپا کر دیر تک اپنی قسمت پر اشک بہاتی رہی۔
ہر شادی یا تقریب صالحہ کے لئے ایک اور زخم بن جاتی۔ اپنی ہم عمر لڑکیوں کو ان کے شوہروں اور ننھے منے بچوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ کر اس کا دل درد سے بھر جاتا اور آنکھیں چھلک جاتیں ،وہ سوچتی، ’’یا اللہ، ایسا نصیب مجھے کیوں نہیں دیا؟‘‘
مجھے ایسے خاندان میں پیدا ہی کیوں کیا جہاں اتنے تنگ نظر اور تنگ خیال لوگ رہتے ہیں، جو روایتوں کے جال میں اس قدر اُلجھ چکے ہیں کہ اُنہیں کسی کے جذبات کا کرب نظر ہی نہیں آتا-
ایک دن صالحہ نے ہمت کرکے اپنی ماں سے بات کی۔
’’امّاں، تم بھی ایک عورت ہو اور ایک عورت کے جذبات تم اچھی طرح سمجھتی ہو، میرے لئے کچھ کرو۔ میری زندگی برباد ہو رہی ہے۔ میری جوانی ڈھلتی جارہی ہے ،خاندان کی رسموں کے پیچھے کیوں میری خوشیوں کو قربان کیا جا رہا ہے؟‘‘
لیکن اماں کا جواب وہی تھا، ’’یہ ہمارے خاندانی اصول ہیں، اور ہم ان اصولوں کو نہیں توڑ سکتے۔‘‘
یہ سُن کر صالحہ کی بے بسی حد سے بڑھ گئی تھی۔ کبھی اس کا دل چاہتا کہ گھر سے بھاگ جائے اور کسی غیر خاندان والے سے شادی کر لے۔ لیکن فوراً ہی خیال آتا،’’اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا؟‘‘
صالصہ کے دل کی فریاد مسجد کے مولوی صاحب تک بھی نہ پہنچی تھی۔ وہ سوچتی، ’’مولوی صاحب بھی صرف انہی مسائل پر بات کرتے ہیں جو مردوں سے متعلق ہوں۔ عورتوں کے مسائل کی کسی کو فکر ہی نہیں۔‘‘
صالحہ نے ایک دن اخبار میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے کی ایک کہانی پڑھی۔ ایک عورت نے ہجر و فراق میں ڈوبی ہوئی درد بھری نظم سنائی تو خلیفہ نے فوراً حکم دیا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے۔ صالحہ نے سوچا، ’’کاش، ایسا کوئی حاکمِ وقت آج بھی ہوتا جو میری فریاد سنتا۔‘‘
صالحہ کے والدین کے نزدیک وہ ابھی بھی صرف ایک ’’بچی‘‘ تھی، لیکن حقیقت میں وہ جذباتی اور جسمانی طور پر ایک مکمل عورت تھی جس کی زندگی کا ایک اہم حصہ ضائع ہو چکا تھا۔
ایک دن صالحہ نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے والدین سے صاف کہہ دیا، ’’ ابّا حضور اور اماں جی….! اگر آپ نے میرے لئے مناسب رشتہ تلاش نہیں کیا، تو میں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے پر مجبور ہو جاؤں گی۔ مجھے آپ کی عزت اور خاندانی رسموں کا پاس ہے، لیکن میری اپنی زندگی بھی کوئی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
آج پہلی بارصالحہ نے اتنی جسارت کی تھی کہ وہ اپنے والدین کو اپنے جذبات سے آگاہ کرسکی – صالحہ کی باتوں نے اس کے والدین کو ہلا کر رکھ دیا۔ پہلی بار ان کی آنکھوں میں اپنی بیٹی کے درد کی جھلک نظر آئی۔
رحمت علی اور اُن کی بیگم تمام رات یہی سوچتے ہوئے کروٹیں بدلتے رہے کہ سچ میں اگر بیٹی نے کوئی غلط قدم اُٹھا لیا تو خاندان کی عزت مٹی میں مل جائے گی، واقعی انہوں نے بیٹی کے جذبات کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی، وہ صرف روایتوں کا دامن تھامے رہے یہاں تک کہ وہ دامن وقت کی آنچ سے اب بوسیدہ ہونے لگا۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنی ضد کے خول سے باہر نکلے اور ایک مناسب رشتہ کی تلاش میں نکل پڑے-
دن بھر صالحہ اسی وسوسے میں رہی کہ والدین کے منہ لگ کر اُس نے بہت بڑی بھول کی، اسی لئےابّا صبح سویرے اُس سے کوئی بات نہ کرکے ہی گھر سے نکل پڑے، شاید میری باتوں سے اُن کا دل ٹوٹ گیا ہے، اُس نے ماں سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی نظریں ملانے سے کترا رہی تھی، صالحہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، وہ سوچنے لگی، کوئی انہونی نہ ہوجائے، دونوں بھا ئی شہر سے باہر تھے اس لئے اُن سے بھی بات نہیں ہو سکتی، فون کرتی لیکن بھاوج کے ڈر سے نہیں کیا –
مسجد میں مغرب کی اذان ہوئی تو اسی کے ساتھ شام کے ملگجی سایوں نے کائنات کو اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کردیا –
تھوڑی دیر بعد گلی میں ایک ٹیکسی رُکنے کی آواز آئی تو صالحہ نے گلی میں کھلنے والی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو رحمت علی اور اُس کے دونوں بھائی ٹیکسی سے نکلے، اُن کے ساتھ اور بھی کوئی اجنبی نوجوان تھا، اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ اُسے پہچان نہ سکی، اُس کا دل انجانے خوف سے زور زور سے دھڑکنے لگا ،اُس نے دفعتاً ٹیبل پر رکھی ہوئی پانی کی بوتل اُٹھا کر غٹ غٹ پی ڈالی اور دُبک کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد اُس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو وہ جلدی سے اُٹھ بیٹھی، سامنے اُس کی ماں کھڑی تھی” تمہارے ابّا تمہیں ڈرائنگ روم میں بُلا رہے ہیں، آؤ چلو……!
یہ بات سُن کر اُس پہ کپکپاہٹ طاری ہوگئی، تو ماں نے کہا ’’ گھبراؤ نہیں، جو سوالات تم نے کل ہم سے کئے وہ اُن کا جواب ڈھونڈھ کر لائے ہیں چل آجا….! ‘‘
صالحہ ماں کے پیچھے پیچھے بوجھل قدموں چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں پہنچی تو رحمت علی نے نہایت ہی شفقت سے کہا’’ آ میری بچی یہاں بیٹھ،‘‘ صالحہ خاموشی سے سہمی ہوئی اُن کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی تو رحمت علی نے کہا” میری بچی تیرے مناسب سوالات نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا اور میں نے سنجیدگی سے سوچا کہ ہم تو اپنی عمر گزار چکے اور اب تیری زندگی کو روایتوں کی قبر میں دفن کیوں کریں، جب میں نے تمہارے بھائیوں ساجد اور واجد سے بات کی تو انہوں نے نیک مشورہ دیا اور ہم نے اپنی خاندانی روایتوں کو گہری قبر میں دفن کرکے تمہارا نکاح کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اُس کے لئے ہمیں ایک نیک اور صوم و صلات کے پابند مرد کی ضرورت تھی جو ہمیں دوسرے شہر سے ملا اور یہ وہی نوجوان ہے جس کو ہم نے تمہارے لئے منتخب کیا ہے، رحمت علی نے دوسری جانب خاموش بیٹھے ہوئے نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ صالحہ نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو سامنے داڑھی والا ایک خوبرو نوجوان تھا جس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ رقص کررہی تھی ، وہ اُسےغور سے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرنےلگی، پھر اچانک اُس کے منہ سے نکلا” شیزان…….؟؟؟؟؟
ہاں بیٹی! شیزان جسے تم ایک وقت پسند کرتی تھی اور ہم نے اس رشتے سے انکار کردیا تھا لیکن اس سے بہتر رشتہ ہمیں نہیں مل سکا –
ابّا حضور…..! صالحہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی اور وہ اپنے باپ سےلپٹ کر سسکیاں ینے لگی ، رحمت علی دیر تک اپنی شفقت سے اُس کی پیٹھ سہلاتا رہا -،،
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر،کشمیر
موبائل نمبر؛ 9622937142