سرینگر // پنجاب حکومت کی جانب سے 16برس قبل مکمل ہوئے رنجیت ساگر ڈیم کی تعمیر کے دوران غیر قانونی طور پر استعمال میں لائی گئی 238کنال 7مرلہ وقف اراضی کے معاوضے کی ادائیگی پر جموں وکشمیر اور پنجاب حکومت کے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔جہاں پنجاب سرکار کا دعویٰ ہے کہ معاوضے کی ادائیگی کر دی گئی ہے وہیں ریاستی وقف حکام معاوضہ لینے سے انکار کر رہے ہیں ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ دریائے راوی ،جوکہ جموں وکشمیر اور پنجاب ریاستوں کی سرحد کو الگ کرتاہے، پر تعمیر تھین ڈیم، جس کو آج رنجیت ساگر ڈیم کے نام سے جانا جاتا ہے کی تعمیر کے دوران جموں کے کٹھوعہ اور دیگر علاقوں میں محکمہ وقف کی 238 کنال07 مرلہ اراضی استعمال میں لائی گئی۔ وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ پنجاب سرکار نے ابھی تک وقف کو اس کیلئے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وقف اراضی پر قبرستان ، جنازہ گاہ اور عید گاہ کی زمین اسکے زد میں آئی تھی اور ریاستی سرکار نے مقامی لوگوں کو کوئی متبادل جگہ بھی فراہم نہیں کی ہے ۔وقف بورڈ میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ رنجیت ساگر ڈیم کی تعمیر میںجس وقف کی اراضی کا استعمال کیا گیا اُس میں کٹھوعہ کے تحصیل بسوہلی کے پونڈا علاقے میںخسرہ نمبر کے تحت 30 کنال9 مرلہ، تھانہ میں خسرہ نمبر 801 کے تحت 28 کنال 8 مرلہ۔ تھیم ڈیم علاقہ میں خسرہ نمبر 298 کے تحت33کنال2مرلہ، منڈلے میں خسرہ نمبرات 838/413 کے تحت18 کنال 2 مرلے، منڈلے علاقہ میں ہی خسرہ نمبرات 906۔ 837 ۔413کے تحت ایک کنال، پلا ئی میں خسرہ نمبرات32اور825کے تحت 7کنال1مرلہ،بسوہلی میں خسرہ نمبر 197کے تحت1کنال11مرلے ،پونڈا میں خسر ہ نمبرات1393,۔ 1935.1320اور1392کے تحت 76کنال16مرلے، کوٹھی میں خسرہ نمبرات1519کے تحت 9 کنال15مرلے، خسرہ نمبرات 1665۔422کے تحت 6کنال3مرلے، اور8کنال19مرلے، خسرہ نمبر1515کے تحت1کنال3مرلے، عیدگاہ پیر خانہ تحصیل بسوہلی میں خسرہ نمبر1320کے تحت19کنال03مرلے،کوٹھی قبرستان تحصیل بسوہلی میں خسرہ نمبر1668۔422 کے تحت08کنال19مر لے جناہ گاہ تحصیل بسوہلی میں خسرہ نمبر1392کے تحت01کنال05مرلے، کوٹھی قبرستان تحصیل بسوہلی میں خسرہ نمبر422 کے تحت6کنال13مرلے اراضی شامل ہیں ۔ وقف بورڈ محکمہ کے ایک اعلیٰ افسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس ساری اراضی کا معاوضہ ادا نہیں ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقف نے اس حوالے سے مکمل رپورٹ تیار کی ہے اور اب اُس کو پنجاب سرکار کو معاوضے کیلئے دوبا ر ہ بھیج دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک ٹیم دوبارہ پٹھان کوٹ انتظامیہ سے اس حوالے سے رجو ع کریگی تاکہ اس کا معاوضہ ادا کیا جا سکے ۔انہوں نے اعتراف کیا کہ رنجیت ساگر ڈیم کی تعمیر کے دوران وقف اراضی کے علاوہ قبرستان اور عیدگاہ بھی اس کی زد میں آئی ہے ،تاہم کٹھوعہ کے تحصیل بسوہلی میں جن قبرستانوں اور جنازہ گاہوں کو اس کی زد میں لایا گیا تھا وہاں کے لوگوں کا الزام ہے کہ اس کیلئے پیسہ آیا ہے لیکن اُن تک یہ پیسہ نہیں پہنچا ہے ۔بسوہلی کے محمد انور نامی ایک شہری نے بتایا کہ ڈیم کی تعمیر کے دوران اُن کی تحصیل میں 20کے قریب قبرستان اس کی زد میں آئے جس میں کچھ ایک کا پیسہ معاوضے کے طور پر نکالا گیاجو عوا م تک نہیں پہنچا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ قبرستانوں کیلئے جگہ فراہم کرے تاکہ لوگوں کو آئندہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔بسوہلی کے ایک سابق رینج افسر مشتاق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جو قبرستان یا پھر جنازہ گاہ اس ڈیم کی تعمیر کی زد میں آئے تھے اُس کی جگہ کوئی بھی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی اور وہ آج بھی باپ دادا کی جانب سے قبرستان کیلئے خریدی گئی زمین کو استعمال کر رہے ہیں اور اب حالت ایسی ہے کہ جگہ بھی کم پڑ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ اس کیلئے پیسہ آیا ہے لیکن یہ پیسہ اُن تک نہیں پہنچا ہے، جبکہ علاقے کے ایک پٹواری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ قبرستانوں اور جناہ گاہو ں کیلئے پیسہ دیا گیا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ پیسہ لوگوں تک نہیں پہنچا۔کشمیر عظمیٰ نے جب معاوضے کے متعلق پٹھان کوٹ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کلونت سنگھ سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا ’’ ہم نے تو معاوضہ ادا کر دیا ہے اور اگر کسی جگہ معاوضہ کی ادائیگی رہ گئی ہے تو ریاستی سرکار اس سلسلے میںتحریری طور پر پٹھان کوٹ انتظامیہ کو آگاہ کرے تاکہ وہ معاوضہ بھی ادا کیا جا سکے ،انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ معاوضہ کتنا ادا کیا جانا ہے‘‘ ۔کشمیر عظمیٰ نے اس حوالے سے گورنر کے مشیر خورشیداحمد گنائی سے بھی بات کی ۔ انکا کہنا تھا’’ یہ معاملہ میری نوٹس میں نہیں ہے، البتہ میں اس بارے میں پوری جانکاری حاصل کر کے کارروائی کروں گا‘‘ ۔
رنجیت ساگر ڈیم کیا ہے ؟
پنجاب اور ریاستی حکومت کے درمیان یہ ڈیم بنانے کا معاہدہ ہوا تھا۔ 1953میں اس پروجیکٹ کو تعمیر کرنے کیلئے سروے شروع ہوئی جو 1980تک جاری رہی ۔1981میں اس کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور مارچ 2001میں یہ پروجیکٹ مکمل ہوا ۔ہاڈو الیکٹرک سیٹی نامی ایک پروجیکٹ کی تعمیرکا کام پنجاب حکومت نے راوی دریا پرکیا جس میں 60فیصد ڈیم کا حصہ جموں وکشمیر میں آتا ہے ۔جموں وکشمیر میں اس ڈیم میں پٹھان کوٹ اور کٹھوعہ کے بسو ہلی علاقے کے کچھ حصے آتے ہیں ۔اس پروجیکٹ کی تعمیر کا مقصد 600میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تھا اوراس ڈیم کے پانی کو اریگیشن کیلئے استعمال میں لانا تھا ۔اس پروجیکٹ پر کئی بار ریاستی اور پنجاب حکومتوں کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے ۔ یکم مئی 2017کو ریاستی سرکار نے یہ معاملہ ناردن زون کونسل چندی گڑھ میں منسٹری آف ہوم افئیرس میں اٹھایا جس کے بعد مرکزی سرکار نے یہ فیصلہ لیا کہ اس پروجیکٹ کی تعمیر کا فائدہ دونوں ریاستوں کو برابر ملے اور اس کے پانی کا فائدہ سانبہ اور کٹھوعہ علاقے کو ملے گا اور ساتھ ہی لوگوں کو بجلی بھی فراہم کی جائے گی ۔