سرینگر // جموں میں دریا ئے راوی پر تعمیر رنجیت ساگر ڈیم کی تعمیر کے دوران غیر قانونی طور پر استعمال میں لائی گئی 238 کنال وقف اراضی کے معاملے پر گورنر انتظامیہ نے انکوائری شروع کردی۔ معاوضہ حاصل کرنے میں کٹھوعہ انتظامیہ اور وقف بورڈکی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 23برس بعد بھی معاضے کی ادائیگی کیلئے پنجاب حکومت سے کوئی رابطہ قائم نہیں کیا گیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دریائے راوی ،جوکہ جموں وکشمیر اور پنجاب ریاستوں کی سرحدکو الگ کرتاہے، پر رنجیت ساگر ڈیم کی تعمیر کے دوران جموں کے کٹھوعہ، بسوہلی اور دیگر علاقوں میں وقف بورڈ کی 238کنال 7مرلہ اراضی کو استعمال میں لانے کا انکشاف ہوا ہے جس میں کئی ایک قبرستان ، عیدگاہ اور جنا زہ گاہ شامل تھے ۔وقف اراضی کے معاوضے کی عدم ادائیگی کے متعلق کشمیر عظمیٰ نے ایک مکمل رپورٹ15اکتوبر 2018کے شمارے میں شائع کی تھی اور اس حوالے سے گورنر کے مشیر خورشید احمد گنائی سے بھی رابطہ قائم کیا گیا تھا جنہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس معاملے میں مکمل جانکاری حاصل کریں گے۔ معلوم ہوا ہے کہ خورشید احمد گنائی کی ہدایت پر وقف بورڈ کے ایک سپیشل افسر نے بسوہلی کا دورہ کیا اور وہاں لوگوں سے بات کی جس دوران لوگوں نے الزام عائد کیا کہ قبرستان اور نہ ہی عید گاہ کیلئے کوئی متبادل اراضی فراہم کی گئی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ وقف اراضی کو معاوضے کی ادائیگی میں رکاوٹ کے متعلق انکوائری شروع کر دی گئی ہے اور سپیشل افسر وقف کو اس حوالے سے پوری چھان بین کرنے کیلئے کہا گیا ہے کہ کتنی اراضی ڈیم کی زد میں آئی اور کتنی اراضی کا معاوضہ فراہم کیا گیا ہے۔ اس دوران بسوہلی کی مسلم آبادی کا کہنا ہے کہ اگر 23برس قبل یعنی 1995میں اس ڈیم کی تعمیر شروع کی گئی توضلع انتظامیہ کٹھوعہ اور وقف انتظامیہ، وقف اراضی کا معاوضہ لینے میں کیوں ناکام ہوئی ہے اور اُس وقت معاوضہ کیلئے کیوں رجوع نہیں کیا گیا ۔وقف بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ اس سلسلے میں مکمل چھان بین کر رہے ہیں اور بہت جلد معاوضے کے حوالے سے رپورٹ پنجاب سرکار کو پیش کی جائے گی۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بسوہلی سنجے گپتا نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہ سچ ہے کہ اوقاف کی ایک ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا ہے، وہ اس حوالے سے مکمل جانکاری حاصل کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت سے معاضے کے متعلق تب بات کی جا سکتی ہے جب وقف کی جانب سے انہیں انکوائری رپورٹ ملے گی۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ اراضی ریکارڈ میں موجود نہیں ہے اور انکوائری افسر یہ پتہ لگا رہے ہیں کہ اُن کے ریکارڈ میں جو اراضی درج ہے، اُس کا کتنا معاوضہ ملا ہے اور باقی کتنا رہ گیا ہے۔کٹھوعہ انتظامیہ کی جانب سے پنجاب حکومت سے معاوضہ لینے کے متعلق غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی سی کٹھوعہ روہت کھجوریہ کو اس بارے میں کوئی جانکاری ہی نہیں ہے ۔کشمیر عظمیٰ نے جب ڈی سی سے بات کی تو انہوں نے بتایا انہیں اس بارے میں جانکاری ہی نہیں ہے اور وہ کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے ۔