سبدر شبیر ، کولگام
رمضان المبارک محض روزہ رکھنے اور افطاری کے معمولات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک جامع تربیتی پروگرام ہے جو ایک مسلمان کی شخصیت اور عملی زندگی کو سنوارنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ رمضان کا سب سے بڑا مقصد تزکیہ نفس ہے، یعنی اپنی ذات کو آلائشوں سے پاک کرنا اور اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنا۔ قرآن مجید میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کے پیچھے جو بنیادی فلسفہ بیان کیا گیا ہے، وہ تقویٰ کا حصول ہے۔تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ یہ سوچ کر زندگی بسر کرے کہ اس کا ہر عمل اللہ کی رضا کے مطابق ہو۔ رمضان کے بعد بھی اگر ہم اپنی زندگی کو اسی جذبے کے تحت گزاریں تو یہ اس مہینے کی اصل روح کی عکاسی ہوگی۔روزہ ہمیں صبر کا درس دیتا ہے۔ بھوک اور پیاس پر قابو رکھ کر ہم ضبط اور استقامت کے اصولوں کو سیکھتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز میں، مشکلات اور آزمائشوں میں اگر ہم صبر اور استقامت کا مظاہرہ کریں تو یہ رمضان کی حقیقی تربیت ہوگی۔رمضان میں ہم قرآن کی تلاوت، نوافل، تراویح اور تہجد کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن عید کے بعد یہ سب کیوں ختم ہو جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ رمضان ہمیں ان عبادات کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنانے کی عملی تربیت فراہم کرتا ہے۔ جو شخص رمضان میں قرآن سے تعلق جوڑ لیتا ہے، اُسے چاہیے کہ وہ اس تعلق کو پورے سال برقرار رکھے۔رمضان ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اصل عزت اور مقام اللہ کے حضور عاجزی میں ہے۔ یہ ہمیں شکرگزاری اور قناعت سکھاتا ہے کہ ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر کریں اور ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں۔رمضان میں زکوٰۃ، صدقات اور فطرانے کی ادائیگی کے ذریعے ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنے مال میں سے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کا حق ادا کریں۔ اس جذبے کو صرف رمضان تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے پورے سال اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
رمضان ہمیں گناہوں سے بچنے کی عملی مشق کراتا ہے۔ ہم اپنی زبان، آنکھ اور دل کی حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن اگر رمضان کے بعد ہم پھر سے گناہوں کی طرف پلٹ جائیں تو یہ اس تربیت کی نفی ہوگی جو ہم نے اس مقدس مہینے میں حاصل کی تھی۔رمضان کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، والدین کی عزت کرنا، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنااور رزقِ حلال کی جستجو،یہ سب وہ خوبیاں ہیں جنہیں ہمیں رمضان کے بعد بھی اپنی زندگی کا لازمی جزو بنانا ہوگا۔
رمضان کی الوداعی گھڑیاں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ یہ مہینہ تو چلا گیا، مگر اس کی روشنی، تعلیمات اور تربیت کو ہمیں اپنی زندگی میں برقرار رکھنا ہے۔ رمضان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت بہت قیمتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ ہماری آخرت کے فیصلے میں اثر رکھتا ہے۔ اگر ہم نے اس مہینے کی تربیت کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا لیا تو سمجھ لیں کہ ہم نے رمضان کا حق ادا کر دیا۔رمضان کا چلا جانا درحقیقت ہمارے لیے ایک آزمائش ہے کہ آیا ہم نے جو کچھ سیکھا، اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا نہیں۔ اللہ ہمیں اس مبارک مہینے کے اثرات کو اپنی زندگی میں برقرار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری عبادات کو قبول فرمائے۔ آمین
[email protected]
��������������������������