محمد ہاشم القاسمی
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں، جہنم سے خلاصی اور اللہ تعالیٰ کے اعزاز و انعام کے ساتھ مومنین پر جلوہ فگن ہوا اور نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ہمارے درمیان سے رخصت بھی ہو گیا۔ بلا شبہ یہ مہینہ مسلمانوں کو ایمانی اور عملی عروج اور بلندی عطا کرتا ہے ۔اس مہینہ میں وہ یقین، ایمان اور صفات پیدا ہو جاتے ہیں جو کسی بھی بندہ کے لئے عظیم سرمایہ ہے اور یہی اسلام میں مطلوب اور مقصود ہے اور عملی طور پر بھی انسان میں وہ رفتار پیدا ہو جاتی ہے کہ رمضان کے بعد بھی اگر اسی رفتار سے زندگی کا سفر جاری رکھا جائے تو آخرت کی منزل آسان ہو جائے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہم جو عمل کرتے ہیں، اس کی رفتار رمضان کے بعد سست پڑ جاتی ہے، حالانکہ جس طرح رمضان کے روزے فرض تھے ہم نے پورے کئے، پانچ وقت کی نمازیں باجماعت پڑھی، قرآن کریم کی تلاوت کی، والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، برادران وطن کے ساتھ حتی الامکان حسن اخلاق سے پیش آئے، پڑوسی اور اہل محلہ کے ساتھ اچھے برتاؤ کئے، برابر سچ بولا اور جھوٹ سے بچے، گالی گلوچ سے پرہیز کیا، کاروباری لوگ ناپ تول میں کوئی کمی زیادتی نہیں کی وغیرہ یہ ساری باتیں اور عادتیں صرف رمضان کے مہینے کے لئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ صفات تو ایک مومن بندہ کے لئے سال کے ہر دن اور پوری زندگی کے معمولات میں شامل ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری عید کی نماز کے بعد مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں، چٹائیاں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں، قرآن پاک جزدان میں ڈال کر الماری میں کی زینت بنا دی جاتی ہے، بھائی چارہ، محبت، حسن سلوک، ادب و احترام، رواداری وغیرہ سبھی کچھ ہماری زندگی سے غائب ہو جاتی ہیں؟ حالانکہ رمضان اس لئے دیا گیا تھا تاکہ اس میں مسلمانوں کی ایمانی وعملی لو تیز ہو سکے اور مسلمان رمضان کے بعد چلتا پھرتا ایسا انسان نظر آئے جن کی زندگی قرآنی تعلیمات کے سانچے میں اس طرح ڈھل جائے کہ ان کو دیکھ کر لوگ شریعتِ اسلامی کو سمجھ سکیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ کے ساتھ متصف ہونا بیان کیا ہے، یعنی انسان کا دل، دماغ، سوچ سمجھ، نظر، اور اخلاق وکردار سب کچھ اس طرح بدل جائے کہ رمضان کے بعد ایک نئی اور صالح زندگی کا حامل بن جائے اور زندگی میں ایک طرح کا انقلاب برپا ہوجائے، مثلاً اگر وہ رمضان سے قبل سودی کاروبار کرتا تھا تو اب وہ توبہ کرلے اور اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ خدا نخواستہ اگر وہ شراب نوشی میں مبتلا تھا تو اب اس سے نفرت پیدا ہو جائے۔ دھوکہ دہی، کذب بیانی، ظلم و زیادتی، حسد، کینہ غیبت اور دوسرے تمام منکرات سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے آپ کو پاک و صاف کرلے اور دوبارہ ایسی معصیت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے، فرائض و نوافل کا ایسا عادی بن جائے کہ ان کے بغیر رات میں نیند نہ آئے اور دن کا چین و سکون چھن جائے !
اگر یہ کیفیات دل میں پیدا ہو گئیں اور زندگی میں ایسا تغیر رونما ہو گیا تو سمجھنا چاہئے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو پالیا ورنہ بظاہر رمضان کا مہینہ ہم نے پایا اور کچھ اس سے حاصل کئے بغیر وہ ہم سے رخصت ہوگیا جو اہل ایمان کے لئے سب سے بڑی مایوسی کا ذریعہ اور محرومی کا سبب ہے۔
بہرحال ہر شخص کو اپنے ایمان کی تکمیل ‘تجدید اور تقویت کی ضرورت ہے۔رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے والے کاموں میں شریعت کی پابندی اور فرائض و احکام کی بجا آوری ہے جس کی خصوصی مشق رمضان میں کرائی جاتی ہے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب رمضان میں حلال و طیب چیزیں ایک خاص وقت کے اندر ممنوع قرار دی گئیں اور ان پر بندش عائد ہوگئی تووہ چیزیں جو سدا سے حرام اور قیامت تک حرام رہیں گی وہ غیر رمضان میں کیسے جائز ہو سکتی ہیں۔؟
واقعہ یہ ہے کہ مومن کے دو روزے ہیں، ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی روزہ رمضان میں ہوتا ہے، صبح صادق کے طلوع سے غروب آفتاب تک۔ اس میں کھانا پینا اور ممنوعات صوم سب ناجائز ہوتے ہیں۔ دائمی روزہ بلوغ سے موت تک ہے۔ اس میں خلاف شریعت کام اور ممنوعات شرعیہ سب ناجائز ہوتے ہیں۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر ۱۵:۹۹) ’’اپنے رب کی بندگی اور تابعداری کرو جب تک موت نہ آجائے‘‘ کیسی تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی کی جائے اور دائمی روزے کو کھیل بنالیا جائے، جس کا ایک جز اور ایک حصہ یہ عارضی روزہ ہے۔ اگر وہ روزہ نہ ہوتا تو یہ روزہ بھی نہ ہوتا۔ وہ روزہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے، یہ روزہ کلمہ پڑھ لینے اور اسلام کی حالت میں زمانۂ بلوغ کے آجانے سے شروع ہوتا ہے۔ وہ روزہ آفتاب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے، یہ روزہ بھی جب تک زندگی کا آفتاب رہتا ہے، باقی رہتا ہے۔ جہاں زندگی کا آفتاب غروب ہوا اور طائر روح نے اپنے قفس کو چھوڑا وہ روزہ بھی ختم ہوا۔
رمضان تو سال بھر کے لیے رخصت ہوا۔ مگر اپنا پیام، اپنا تحفہ اور اپنی سوغات چھوڑتا گیا۔ ضرورت ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد اس تحفے سے اس کی یاد تازہ کی جائے، اس کی برکات حاصل کی جائیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تحفہ قاصد سے بڑھ کر ہے۔ شاہِ وقت اپنے کسی منتخب غلام کو کسی قاصد کے ہاتھ تحفہ بھیجے تو یہ تحفہ اس کی خاص سوغات ہے۔ یہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفات کا مظہر ہے۔ اس وقت پورے عالم انسانی میں اور اس زمین کی سطح کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات سے قرب رکھنے والا اور اس کی صفات و کمالات کا پرتو قرآن مجید ہی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کو ایک زندہ کتاب کی طرح ہمیشہ پڑھا جائے اور یقین پیدا کیا جائے کہ ہم اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں اور اُس ذاتِ عالی سے مخاطب اور ہم کلام ہیں۔ پڑھتے وقت ہمارا سینہ اس یقین سے معمور، ہمارا دل اس احساس سے مسرور اور ہماری روح اس کیفیت سے مخمور ہو۔ ہمیں اس پر ناز ہونا چاہیے کہ ہمارا رب ہم سے مخاطب ہے اور ہم میں سے ہر شخص فرداً فرداً اس کا مخاطب اور شرف خطاب و التفات سے مشرف ہے۔
حضرت بشرحافی ؒسےکسی نے دریافت کیا کہ حضرت بہت سے مسلمان ایسے دیکھے گئے جو صرف رمضان المبارک میں خوب عبادت اور مجاہدہ کرتے ہیں اور بقیہ سال بھر پھر کچھ نہیں،تو آپ نے فرمایا: ایسا اس لئے کہ انہوں نے اللہ کو کماحقہ نہیں پہچانا اور عارضی صرف رمضان المبارک کی حد تک کی عبادت کس کام کی؟ اصل عبادت اور حقیقی صلاح و تقویٰ تو یہ ہے کہ مسلمان سال بھر عبادت وریاضت ،مجاہدہ و محاسبہ میں لگارہے۔
حضرت علی کرم ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے ہائے کاش! مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک میں عبادتیں قبول ہو، تو میں انہیں مبارک باد دیتا اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے جس کی عبادتیں قبول نہ ہوں اور وہ محروم رہا تو ہم اس کی تعزیت کرتے۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا، رجب افضل یا شعبان؟ تو آپ ؒ نے فرمایا کہ بندہ خدا شعبانی اور رجبی بن کر کیا فائدہ ربانی بن جا۔ یعنی صرف رجب و شعبان کی فضیلت معلوم کرکے اسی میں عبادت مت کر بلکہ ربانی بن جا۔ یعنی سرتاپا از شعور تا موت اللہ کا ہو کر اسی کا بن جا۔ تاکہ کامیاب و بامراد ہوجائے۔
اللہ پاک تمام مسلمانوں کو سال کے پورے دن اور دن کے ہر ہر لمحہ اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(رابطہ۔9933598528 )
[email protected]>