رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم پر ایسے حالات میں سایہ فگن ہورہا ہے جب پوری دنیا کورونا وائرس کی وبائی بیماری سے لتھڑی ہوئی ہے اور عملی طور تقریباً ساری دنیا لاک ڈائون میں ہے ۔اس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر میں بازاروں کی چہل پہل میں اضافہ ہوتا تھا لیکن اب کی بار سارے بازار بند پڑے ہوئے ہیں۔مساجد،خانقاہیں اور زیارت گاہیں اللہ کے بندوںکی منتظر ہیں لیکن حالات ایسے ہیں کہ وہ ہمیں اجتماعی عبادات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔یہ لمحات یقینی طور پر آزمائش کے ہیں اور ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے ۔
ماہ مبارک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ اس مہینہ میں دنیا بھر کے مسلمان اپنے صدقات ،عطیات اور زکواۃ ضرورتمندوں میں تقسیم کرتے ہیں تاہم اس بار اس طرح کے حالات رمضان سے پہلے ہی پیدا ہوئے اور ہمیں اپنے ضرورتمند بھائیوں کی مدد کیلئے آگے آنا پڑا تاہم ابھی یہ کام ختم نہیں ہوا ہے اور اس وقت بھی ہمارے گرد و پیش میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ہماری مدد کے مستحق ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ پیش آمدہ واقعا ت کی وجہ سے معیشت نڈھال ہوچکی ہے اور امداد و اعانت کی کاروائیوں میں بڑی تعداد میں دینے والے ہاتھ خود لینے کے مستحق بن چکے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں گزشتہ برس کے6ماہ کے لاک ڈائون نے جہاں آسودہ حال لوگوں کوشدید مالی خسارے سے دوچار کیاتھا وہیں اس سال بھی جہاں انہیں کچھ کمائی کی امید تھی تو سال کے آغاز میں ہی کورونا کی وباء نے سب کچھ تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہےاور انکی وہ امیدیں بھر نہ آسکیں۔اب حالت یہ ہے کہ کاروبار ٹھپ ہے اور کم وبیش ساری معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔جب معیشت کا پہیہ جام ہوجائے تو آمدن کے ذرائع محدود ہوجاتے ہیں اور ایسے لوگوںکی ایک فوج تیار ہوجاتی ہے جو وقتی امداد کے مستحق بن جاتے ہیں۔بے شک ہمارے سماج کے صاحب ثروت لوگ اس وقت خود پریشانیوںسے دوچار ہیں تاہم یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں بلکہ اللہ کی ذات کاملہ پر توکل کرنے کا ہے ۔جس خدا نے اس مشکل میں ڈال دیا ہے وہی اس سے نکالے گا بھی تاہم ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اس مشکل وقت میں اپنے نقصانات پرماتم کرنے کی بجائے اپنے ضرورتمند بھائیوں کا خیال رکھیں۔نفع و نقصان کافیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔آج اس مشکل ترین صورتحال میں ہمیں اپنے ان لوگوںکو نہیں بھولنا چاہئے جو حالات کی وجہ سے ہماری امداد اور دلجوئی کے مستحق بن چکے ہیں۔
زندہ قوموںکی علامت یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہیں۔کشمیری قوم نے ماشاء اللہ ہر مشکل دور میں اپنی زندہ دلی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور اس وقت بھی اس کربناک دور میں یہ عمل کررہی ہے ۔اس وقت بھی یہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر بڑے پیمانے پر فلاحی سرگرمیاں جاری ہیں تاہم اس سلسلہ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ منظم بنانے کی ضرورت ہے ۔یہ کٹھن سفر ابھی ختم نہیںہو اہے بلکہ اگر یوںکہا جائے کہ ہم ابھی بیچ سفر میں ہی ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہمت کا کمر باندھے رکھیں اور کسی بھی لمحہ اپنے اوپر مایوسی اور ناامیدی کو حاوی نہ ہونے دیں۔موجودہ حالات میں زکواۃ و صدقات کے اس سے بہتر مصارف کچھ نہیں ہیں کہ ہم اپنے آس پاس ضرورتمندوں اور محتاجوں کی مدد کریں اور ا سبات کو یقینی بنائیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ سحر و افطاری میں شامل ہوجائیں۔
کورونا وباء کو دیکھتے ہوئے حکومت اور علماء کی جانب سے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں،اُن پر سختی سے عمل پیرا رہنا ہے او ر جتنا ہوسکے ،بھیڑ بھاڑ سے پرہیز کرنا ہے تاہم سماجی دوری بنانے کے اس عمل میں ہم ایک دوسرے سے اتنے دور بھی نہ ہوجائیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی خبر تک نہ رہے ۔بے شک اجتماعی عبادات سے فی الوقت گریز کرنا ہی دانشمندی ہے اور ہمیں اس ضمن میں عالمانہ مشوروں پر عمل پیرا ہونا چاہئے تاہم یہ بھی لازم ہے کہ جہاں ہم جسمانی دوریاں بنائے رکھیں وہیں ہمارے قلب و دماغ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں اور ہم یک جان دو قالب بن کررہیں کیونکہ جب ہمارے دلوں کے درمیان فاصلے نہیں ہونگے تو ہم ایک دوسرے کی دھڑکنوںکو آرام سے محسوس کرسکتے ہیں اور یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ان مشکل ترین حالات میں ہمارا کون سا بھائی کس حال میں ہے اور کس کو ہماری امداد کی ضرورت ہے ۔لہٰذا دلوں کو جوڑے رکھیں بے شک جسمانی دوریاں برقرار رہیں اور دل کھول کر زکواۃ ،صدقات و خیرات کریں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ کے صدقات صحیح اور مستحق لوگوں تک پہنچ جائیں کیونکہ یہاں خیراتی اداروںکے نام پر منافع بخش دکانوںکی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔