رمضان کا مہینہ خاص طور پر دلوں کی صفائی، روح کی ترقی اور نفس کے تزکیے کا مہینہ ہے۔ یوں تو اس مہینہ کی ساری ہی عبادتیں روزہ، صدقہ، تراویح، تلاوت قرآن اور اعتکاف اسی لیے ہیں کہ دل ہر طرح کی کدورت اور گناہوں کے زنگ سے صاف ہوکر آئینے کی طرح شفاف اور مجلّیٰ ہوجائے۔ مگر خاص طور پر قرآن پاک کی تلاوت قلب کی صفائی اور جلا کے لیے موثر ترین اور یقینی ذریعہ ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: یہ انسانی قلوب بھی زنگ آلود ہوجاتے ہیں جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے۔ پوچھا گیا’’ اے اللہ کے رسولﷺ! پھر دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی اور جلا بخشنے والی چیز کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: کثرت سے موت کی یاد اور قرآن پاک کی تلاوت ( مشکوٰۃ، بروایت ابن عمرؓ)
رمضان میں خاص طور پر مسلمان تلاوت قرآن کا اہتمام کرتے ہیں، شب کی تاریکی میں خدا کے حضور کھڑے ہوکر تراویح میں قرآن پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں۔ مسلمانوں کی ہر بستی میں عام طور پر اس کا اہتمام اور انتظام ہوتا ہے۔ تراویح کے علاوہ بھی اس مبارک مہینے میں قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ اور اس میں کسی تذبذب اور شک کی کوئی گنجائش قطعاً نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اپنے قلوب کو ہر طرح کی اخلاقی کدورت اور گناہوں کے زنگ سے صاف کرنے کا یقینی طور پر صحیح طریقہ اپنا رکھا ہے۔حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس روزے کے عمل سے عام مسلمانوں کو انتہائی شغف بھی ہے، نہایت ذوق و شوق سے اس کا اہتمام اور التزام بھی ہے، لیکن دلوں کی صفائی نہیں ہورہی ہے، اُن کا زنگ دور نہیں ہورہا ہے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا اس قدر اہتمام ہے لیکن پھر بھی دلوں میں حرص، لالچ، کینہ، بغض، نفاق اور کدورتیں موجود ہیں۔ خاندانی جھگڑے، ایک دوسرے سے نفرت و عناد، دوسرے کے حقوق سے غفلت، ماں اور باپ کی نافرمانی، اولاد کے حقوق سے لاپرواہی، غرض طرح طرح کی کوتاہیوں اور گناہوں کے زنگ سے دل آلودہ ہیں۔ قلب کی صفائی، خوشگوار تعلقات، تزکیہ نفوس کے آداب اور زنگ بیان کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیںلیکن عملی طور پر قلوب بدستور زنگ آلود رہتے ہیں۔ آخر تلاوت قرآن سے قلوب کی جلا اور صفائی کیوں نہیں ہورہی ہے۔ رسول صادق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یقینا حق ہے، اصل بات یہ ہے کہ تلاوت قرآن کا مفہوم نہیں سمجھا جارہا ہے اور اسی لیے تلاوت قرآن کا حق ادا نہیں ہورہا ہے۔ تلاوت قرآن کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ آپ قرآن کے الفاظ کو جوں کا توں زبان سے ادا کرلیں اور آپ کچھ نہ سمجھیں کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اپنی کن ذمہ داریوں کا احسا س تازہ کررہے ہیں اور ان ذمہ داریوں کا کس حد تک آپ کو پاس و لحاظ ہے۔
تلاوت قرآن کا مفہوم ہے قرآن کو صحیح صحیح پڑھنا، اُس کی تعلیمات پر غور کرنا، اس کے احکام کو سمجھنا، اس کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرنا، ساتھ ہی قرآن کی تلاوت کا یہ بھی مفہوم ہے کہ اس کی اشاعت کی جائے۔ اس کی تعلیمات دوسروں تک پہنچائی جائیں۔ قرآن و سنت پر آپ غور فرمائیں گے تو اس مفہوم پر آپ کو شرح صدر ہوگا۔ قرآن کا ارشاد ہے:ترجمہ آیت: وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ کتاب کی تلاوت کا واقعی حق ادا کرتے ہیں اور یہی لوگ حقیقت میں اس پر ایمان رکھتے ہیں۔اور جواس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والاہے( البقرہ: 121:2)
اس آیت میں دو باتیں قابل غور ہیں: پہلی بات تو خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ’’جن کو ہم نے کتاب دی۔ ‘‘پورے قرآن میں جہاں جہاں اہل کتاب میں دو گروہ ہیں اور ان دونوں گروہوں کا ذکر اللہ تعالیٰ الگ الگ انداز سے کرتا ہے۔ اہل کتاب کے اس گروہ کا جب ذکر فرماتا ہے جو کتاب کے محافظ رہے اور اس پر عمل کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ کتاب دینے کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے اور کہتا ہے ’’ اٰتینھم الکتب ‘‘ ہم نے ان کو کتاب دی۔‘‘ اور جب اس نافرمان گروہ کا ذکر کرتاہے جس نے کتاب ضائع کردیا تو اپنی طرف نسبت نہیں کرتا، بلکہ کہتا ہے ’’ اوتوالکتب‘‘ وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی تھی ( مگر انہوں نے ضائع کردی)۔‘‘ اس تفصیل کو نگاہ میں رکھ کر اوپر کی آیت پر غور کیجئے تو یہ حقیقت واضح ہوگاکہ تلاوت کتاب کا حق وہی ادا کرتے ہیں جو واقعی اس کے حامل اور امین ہیں۔ ان لوگوں کی تلاوت کتاب کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو اس پر کاربند نہیں ہیں اور جن لوگوں نے اُسے ضائع کردیا ہے۔
دوسری بات آیت میں یہ کہی گئی ہے کہ تلاوت کتاب کا حق ادا کرنے والے ہی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی اہم بات ہے اور یہ رُک کر سوچنے کا مقام ہے۔ قرآن کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ کتاب کی حفاظت کرتے ہیں اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں وہی لوگ اس پر ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔ یہی بات خدا کے رسول ؐ نے اس انداز میں بیان فرمائی ہے۔ غور کیجئے آپ ؐکا ارشاد ہے:وہ شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا جس نے اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر رکھا ہے۔
یعنی قرآن پر ایمان کے دعوے میں وہی شخص سچا ہے جو قرآن کے قانون حلال اور حرام کو تسلیم کرتا ہے اور عملی زندگی میں اس پر کاربند رہنے کی مخلصانہ کوشش کرتا ہے۔ اُس شخص کے ایمان بالقرآن کا کیا اعتبار جو قرآن کے حلال و حرام سے بے نیاز ہوکر زندگی گذارے۔ ایسا شخص اگر قرآن پاک کی آیتیں دہرارہا ہے اور رمضان کی مبارک ساعتوں میں اس کے پڑھنے سننے کا اہتمام کررہا ہے تو اس کا یہ عمل وہ عمل نہیں ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔ وہ یقینا تلاوت قرآن کا حق ادا نہیں کررہا ہے۔ اس کی تلاوت وہ تلاوت نہیں ہے جس کا قرآن نے حکم دیا ہے اور جس کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو فرمائی ہے۔ قرآن پاک کی ایک اور آیت پر غور کیجئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخری نبی کی بعثت کے لیے جو دعا کی تھی اس میں رسول خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا جو انہیں تیری آیات پہنچائے۔ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو سنوارے۔
(۱) تلاوت آیات (۲) تعلیم کتاب (۳ ) تعلیم حکمت (۴) تزکیہ۔ (البقرہ: 129:2)اور ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ یہاں تلاوت آیات سے مراد قرآن کی آیات و تبلیغ اور اس کی تعلیمات کو سنانا اور پہنچانا ہے۔ ایک اور موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی گئی ہے۔اور اے رسولﷺ! تمہارے رب کی جو کتاب تم پر نازل کی جارہی ہے اُسے ان لوگوں تک پہنچادو۔ ( الکہف)
قرآن و سنت کی ان تشریحات سے تلاوت قرآن کا جو مفہوم واضح ہوتا ہے اس مفہوم میں تلاوت ہی دراصل تلاوت قرآن ہے اور یہ تلاوت قرآن وہی شخص کرسکتا ہے اور اس کو زیب بھی دیتا ہے جس کی اپنی زندگی قرآنی تعلیمات کا صحیح نمونہ ہو۔ وہ علمی اور فنی لحاظ سے چاہے اس کی باریکیاں اور نکتے نہ بیان کرسکتا ہو لیکن اپنی زندگی میں اخلاص، یکسوئی اور شغف کے ساتھ قرآن کے احکام پر عمل کررہا ہو اور جس کو اس یقین کی دولت حاصل ہو کہ قرآن ہی اس کے لیے دنیا اور آخرت کی فلاح و کامرانی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس یقین سے محروم اور اس عمل سے بے بہرہ انسان اگر قرآن پڑھ رہا ہے یا سن رہا ہے تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تلاوت قرآن کا وہ عظیم فائدہ حاصل کررہا ہے اور اسے تلاوت قرآن کا وہ عظیم فائدہ حاصل ہوسکتا ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت قرآن کا لازمی فائدہ بتایا ہے۔
قرآن پاک کی ان آیات کے ساتھ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثیں بھی سامنے رہیں جن میں تلاوت قرآن کی ہدایت کی گئی ہے تو یہ حقیقت اور زیادہ نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ حضرت عبیدہ ملیکیؓ کا بیان ہے کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے قرآن کے ماننے والو! قرآن کو تکیہ نہ بنالینا، شب و روز کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا، اس کی اشاعت اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دینا، اس کے الفاظ کو صحیح صحیح ادا کرنا اور اس پر غوروفکر کرتے رہنا، تاکہ تم کامیاب ہو اور جلدبازی کرکے اس کے ذریعہ دنیا کا صلہ مت چاہتا، خدا کی خوشنودی کے لیے اس کی تلاوت کرنا کہ آخرت میں اس کا صلہ لازمی ہے۔ ( مشکوٰۃ)
قرآن کو تکیہ بنانے سے مراد ہے اُس سے غفلت برتنا اور اس کی طرف سے لاپرواہ ہوجانا۔ اس کے بعد آپﷺ نے ہدایت فرمائی ’’ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنا اور پھر آگے آپﷺ نے حق تلاوت ادا کرنے کی تشریح میں چار باتیں بیان فرمائیں ہیں:
(۱) قرآن کی اشاعت اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دینا۔
(۲) اس کے الفاظ کو صحیح ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔
(۳) قرآن پر غور و فکر اور تدبر کرنا۔
(۴) اور آخری بات یہ کہ یہ عمل خالص رضائے الٰہی اور اجر آخرت کیلئے کرنا، دنیوی صلے کی طلب سے اپنے دل کو پاک رکھنا۔
ایک بار حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی، یارسول اللہ! مجھے وصیت فرمایئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اللہ کا تقویٰ تمہارے دین و دنیا کے سارے معاملات سدھارنے اور سنوارنے والی چیز ہے۔‘‘ حضرت ابوذر ؓ نے درخواست کی کہ حضور کچھ اور وصیت فرمایئے تو آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تلاوت قرآن اور خدا کا ذکر پابندی سے کرتے رہنا۔ اس کے ذریعہ آسمان والوں میں تمہارا ذکر اور چرچہ ہوگا اور یہ عمل زندگی کی تاریکیوں میں تمہیں روشنی کا کام دے گا۔ ( مشکوٰۃ)
قرآن و سنت کی نظر میں قرآن سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ نہیں ہیں جو بے سوچے سمجھے اس کے الفاظ دہراتے ہیں اور اس کی ہدایات اور تعلیمات سے غافل و بے نیاز ہوکر کوئی ذمہ داری محسوس کئے بغیر قرآن پڑھنے سننے اور ختم کرنے کرانے ہی کو کارنامہ سمجھتے ہیں۔ دین کی نظر میں قرآن والے وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں قرآن پر عمل کرتے ہیں، اس کو اپنی زندگی کا دستور بناتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قیامت کے روز قرآن اور قرآن کے ماننے والے جو دنیا کی زندگی میں اس پر عمل کرتے تھے، خدا کے حضور لائے جائیں گے۔ اس وقت سورۃ البقرہ اور سورہ آل عمران پورے قرآن کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے عمل کرنے والے کے لیے رب سے سفارش کریں گی کہ پروردگار یہ بندہ تیری رحمت و مغفرت کا مستحق ہے۔ ( مسلم)
اس حدیث میں قرآن کو ماننے والے کی تشریح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لفظوں میں فرمائی وہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ فرمایا:
وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں قرآن پر عمل کرتے تھے) یعنی قرآن کو ماننے والے حقیقت میں وہی ہیں جو دنیا کی زندگی میں اس پر عمل کرتے ہیں۔
بے شک مسلمان معاشرے میں آج بھی رمضان کی مبارک راتوں میں قرآن پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کا خاصا رواج ہے اور بعض بستیوں میں تو اس کا بڑا چرچا رہتا ہے، لیکن جب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل خیر کا جو فائدہ بتایا ہے وہ بھی حاصل ہورہا ہے یا نہیں، تو مایوسی ہونے لگتی ہے اور یہ خوش گمانی محض فریب نظر آتی ہے کہ مسلمان معاشرے میں تلاوت قرآن کا اہتمام اور رواج ہے۔ مسلمان قرآن پڑھتے پڑھاتے تو ہیں لیکن اکثر وہ تلاوت قرآن کے اس مفہوم اور مقصور سے نا آشنا ہیں جو قرآن و سنت نے بتایا ہے اور ان کی تلاوت وہ تلاوت قرآن نہیں ہے جب کی تاکید خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ؎
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
Cell:8149295041
ناندیڑ،مہاراشٹر