محمد امین میر
جیسے ہی دنیا موسم بہار کی ابتدائی گرم جوشی کا خیرمقدم کرتی ہے، یہ سوچنا موزوں ہوگا کہ ’’رمضان‘‘کا عربی لفظ رمض زمین کے جھلسنے والی شدید گرمی کو ظاہر کرتا ہے۔ رمضان یا جیسا کہ عام طور پر رمضان المبارک کہا جاتا ہے، اس سال مارچ میں شروع ہوا۔ اس رمضان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے ایک ہی دن روزے کا آغاز کیا، جو مسلم وحدت کی علامت ہے۔اسلامی قمری تقویم کا نواں مہینہ’ رمضان‘ صرف روزے رکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ روحانی تجدید اور اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسانی زندگی قدرت کے ساتھ کتنی گہری جڑی ہوئی ہے۔
ہجری تقویم اور رمضان کا وقت :
دنیا بھر کے مسلمان ہجری تقویم کی پیروی کرتے ہیں، جو 622 عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے مکہ سے یثرب (موجودہ مدینہ) ہجرت کی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پہلی مسلم امت (کمیونٹی) کی بنیاد رکھی گئی۔ ہجری سال 12 مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کی کل مدت 354 یا 355 دن ہوتی ہے، جو گریگورین (شمسی) تقویم کے 365 دنوں سے کم ہے۔ اس فرق کے باعث رمضان ہر سال تقریباً 11 دن پہلے آتا ہے۔ روزے کو ہجرت کے دوسرے سال فرض کیا گیا تھا۔دیگر مذہبی عبادات کے برعکس، جو شمسی تاریخوں کے مطابق منائی جاتی ہیں، رمضان کا تعین قمری چکر پر ہوتا ہے۔ ہلال (نئے چاند) کا مشاہدہ اس مقدس مہینے کے آغاز اور اختتام کا تعین کرتا ہے جو عام طور پر 29 یا 30 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
رمضان کی گہری معنویت :
اگرچہ رمضان عام طور پر روزے کے مہینے کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن اس کی اصل اہمیت محض کھانے پینے سے پرہیز کرنے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ قرآن میں روزے کے متعلق آیات (سورۃ البقرہ 183-188) نہ صرف اسے ایک مذہبی فریضہ قرار دیتی ہیں بلکہ اس کے گہرے علامتی معانی بھی بیان کرتی ہیں۔
لفظ رمضان، رمض سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’شدید گرمی‘‘، جبکہ صوم (روزہ) کا مطلب ہے ’’رُک جانا‘‘ یا ’’ضبط نفس‘‘۔ قرآن میں روزے کا حکم محض جسمانی قربانی کے لیے نہیں بلکہ یہ خود احتسابی اور اخلاقی نظم و ضبط کا درس بھی دیتا ہے، جو مسلمانوں کو اپنے کردار اور طرزِ عمل پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
رمضان۔ سماجی اور اخلاقی اصلاح کا پیغام :
قبل از اسلام عرب معاشرہ قبائلی تنازعات، خونریزی اور شدید ناانصافیوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا ظالمانہ عمل بھی شامل تھا۔ ان مظالم کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و تحمل سے قرآن کا پیغامِ امن و عدل عام کیا اور کسی بھی قسم کے جسمانی انتقام سے گریز کیا۔
یہی عدم تشدد، رواداری اور استقامت کا جذبہ تھا، جس نے اسلام کو عرب کے لوگوں کے دلوں میں محبوب بنا دیا۔ آج اگر مسلمان حقیقی روحانی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو تقویٰ (خود پر قابو اور خدا کا شعور) پر مبنی ہو، تو اُنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانا ہوگا۔ رسمی عبادات سے آگے بڑھ کر انہیں چاہیے کہ وہ ایک ایسے صوم کو اپنائیں جو سماجی اصلاح کی طرف لے جائے۔فضول خرچی، دکھاوے اور غیر ضروری مذہبی رسومات سے اجتناب کریں، تاکہ اپنی قوم کو زوال اور پسماندگی سے نکالا جا سکے۔بالآخر، رمضان کا مقصد مسلمانوں کو ان کی اصل ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرانا ہے۔نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی۔
[email protected]