زندگی کی بقاء کو دوست رکھنےوالے مصائب کے لئےتیار رہیں
عزم و استقلال
ڈاکٹر فلک فیروز
کمفورٹ زون سے باہر نکلنے کی خاطر خوف کے زون یا علاقہ خوف اور سیکھنے کے میدان یا لرنگ زون میں آنا پڑتا ہے، یہاں آکر ایک نت نئے تجربوں کا خزانہ ملتاہے اور شخص اپنی تمام کمزوریوں کی شناخت کرکے اپنی صلاحیتوں کو پہچان پاتا ہے لیکن اس تک پہنچ جانے کے لئے متعدد تبدیلوں ،پریشانیوں،مصیبتوں ،محنت شاقہ سے گزرنا پڑتا ہے بقول شاعر؎
تجربہ مفت میں نہیں ملتا
پہلے نقصان کرنا پڑتا ہے
گروتھ زون یا ترقی کے منازل تک پہنچ جانے کی خاطر جن چیزوں کو اپنانا پڑتا ہے، ان میں چند اہم نکات قابل ذکر ہیں ۔
(۱) روزانہ بنیادوں پر اپنے کام کو مختلف طریقوں سے سر انجام دینے کی کوشش کریں نیز جدّت طرازی کے ساتھ اپنا تجربہ مزید بڑھائیں۔(۲)اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں نکھار لاکر انھیں توسیع دیںاور نیا سیکھنے کی کوشش شروع کریں۔(۳) اپنے خردو نوش میں تبدیلی لائیں ،اپنی صحت کا خیال خود رکھیں ۔( _۴) جسمانی ورزش کا اہتمام کریں اور ذہنی صحت کی جانب خاص توجہ مبذول کریں۔(۵)اپنے اندر تخلیقی پن پیدا کریں،نیز اپنی موجودہ زندگی میں ہنر آزمائی کیا کریں،نئے کام سیکھنے کی کوشش شروع کریں۔
(۶) بے بنیاد یا فرسودہ اپنائے گئے ایقانِ عقاید، روایات میں تبدیلی لاکر انھیں چلینج کے ساتھ ٹھکرائیں اور اس عمل میں جدت طرازی کی جانب قدم بڑھائے تاکہ آپ نیا کچھ کرنے کی ترغیب پاسکیں۔(۷)اپنے اندر سچائی اور ایمانداری کے جذبے کو فروغ بخشے، ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا پروفائل مضبوط بنانے کی کوشش کریں تاکہ آپ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے منزل مقصود کی جانب قدم بڑھا سکیں۔(۸)اپنے کام کو اپنے جذبہ کے ذریعے اپنا نصب العین بنائیں اور اتنی کوشش شروع کریں کہ آپ اپنے کام سے پہچانے جائیں۔(۹) پُر اثر وپُر عزم طریقے پر اپنی مالی و اقتصادی قوتوں کو مضبوط کرکے اپنے حال کو بہتر بنانے کی سعی کریں۔
ترقی کے زون میں پہنچ کر ایک شخص اپنے ارد گرد کے ماحول کا احاطہ کرتے ہوئے تمام منفی قوتوں کو خیر باد کہہ کر خود کو پُر زور انداز میں سمیٹتے ہوئے مثبت قوتوں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہو اگے بڑھ جاتا ہے، اس زون میں پہنچ کر فرد نفسیاتی ،سماجی، اقتصادی، علمی ،تعلیمی ،طبی و معاشرتی میدانوں میں تبدیلیاں محسوس کرتا ہوا زندگی کے ہر شعبے میں تغیرات لاتا ہے ۔
” After a learning period, a new comfort zone is created, expanding one’s ability to reach even greater heights. This is what it means to be in the growth zone. It’s important to state that like most behavioral change attempts, moving into the growth zone becomes harder without some level of self-awareness.”
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن لوگوں نے کمفورٹ زون کو خیر باد کیا ہے، انھوں نے ترقی پائی ہے۔دنیا کے سامنے بہت ساری مثالیں ایسی موجود ہیں جن کا کام بولتا ہے۔ معروف سیاسی شخصیات میں نیلسن منڈیلا ، جنھوں نے ہزاروں مشکلات و مصایب کا سامنا کرکے اپنے اہداف حاصل کئے۔تھیورٹیکل فیزیکس میں البرٹ آئنسٹائن، سول حقوق رہنما اور سماجی کارکن مارٹن لوتھر کنگ، ماہر حیاتیات چارلس ڈارون ،ماہر طبیعیات اسحاق نیوٹن ، ابراہیم لینکن،فلسفی کارل مارکس ،ماہر کیمیا لویس پاسچر،نامی گرامی ملٹری آفیسرسکندر اعظم۔ایجادات کی دنیا میں تھامس ایلوا ایڈیسن ایسی شخصیت ہے،جس نے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے تجربات انجام دئیے ہیں، تب جاکر دنیا کو روشنی میسر ہوئی ۔اپنے ان تجربات کے تین ایڈسن لکھتے ہیں :
“I have not failed. I’ve just found 10,000 ways that won’t work” while developing the light bulb”.
بدنام زمانہ ورک ہولک سر مارٹن سورل سی ای او آف ایڈورٹائزنگ جینٹ وی وی پی ، بزنس کی دنیا میں مشہور ہستی اندرا نویی پپسی کمپنی کی سی ای او پورے دن کو کام کرتی تھی ۔ اپنی زندگی میں لگاتار ۲۴ سال کی محنت شاقہ کے بعد جعفری امٹ بیونک مینیجر بن گی۔ مشہور شخصیات میں اپل کمپنی کے سی ای او ٹم کک تم کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق ٹم کک اپنے تمام ملازمین کو صبحِ ساڑھے چار بچے سے اپنا اپنا کام سونپ دیتے تھے۔ یاہو کمپنی کے سی ای او مار سیا ماریر اپنی حکمت عملی سے ٹیکنالوجی کی دنیا میں مشہور ہے ،ہانگ کانگ کی اقتصادی دنیا میں لی کا سنگھ کی مجموعی محنت ایک تاریخی باب ہے۔اسی طرح سے دنیا کی تاریخ میں بہت سارے نام ایسے موجود ہیں، جنھوں نے اپنی لگاتار محنت و مشقت سے اپنا نام قائم کیا ہے۔ ہندوستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے جن افراد نے کمفورٹ زون سے نکل کر ترقی کی راہ پر لگایا ہے اور ملک کی معیشت ،سالمیت ، زراعت ،تعمیر و ترقی ،ٹیکنالوجی، تعلیم ،بزنس کے میدانوں میں آگے بڑھایا، ان میں سر سیّد احمد خان، جنھوں نے ہندوستان کی مجموعی معاشرت یہاں کی عوامی زندگی اور فکری دنیا کو تبدیل کرکے جدید تعلیم کے آراستہ کیا۔ راجہ رام موہن رائے نے ہندوستان کے ہندو آبادی کو جدید تعلیم کی جانب آنے کے لیے آمادہ کیا۔ ابوالکلام آزاد نے فکری دنیا کو تبدیل کرنے کا کام سرانجام دیا۔سروجنی نائیڈو،پر یم چند ،فیض وغیرہ نے ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کو اپنی تحریر وں کے اُجاگر کرکے خود زندان میں شب و روز گزارے۔بھگت سنگھ اور باقی آزادی کے متوالوں نے شہادت پائی اور ملک کو آزاد کرالیا۔مہاتما گاندھی جی نے ہزاروں مسائل و مصائب اور چیلنجز کا سامنا کرکے ملک کی آزادی کے لئے لڑ کر اپنی جان بھی قربان کی۔ شری ولبھ بھائی پٹیل (31 اکتوبر 1875ء – 15 دسمبر 1950ء) بھارت کے ایک سیاسی و سماجی رہنما تھے، جنھوں نے تحریک آزادئ ہند اور بعد از تقسیم ہند بھارت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت اور دنیا بھر میں انھیں ‘سردار کے نام سے جانا جاتا تھا ،اس لئے آپ سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی کہلاتے ہیں۔اپنی قوت نیز طاقت کو آزماتے ہوئے انھیں بھارت کا مرد آہن بھی کہا جاتا ہے ۔ جواہر لعل نہرو بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما اور تحریک آزادی ہند کے اہم کردار تھے۔ اپنی زندگی میں وہ پنڈت نہرو یا پنڈت جی کے نام سے بھی جانے جاتے تھے ،انہوں نے زندان میں بہت روز و شب گزارے، قوم کی ترقی فلاح وبہبودی کی خاطر اپنی کوششوں سے کامیابی حاصل کی۔ عوامی خدمات کے اعتراف میں انہیں یاد کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر امببیدکر ، ڈاکٹر من موہن سنگھ ، شری اٹل بہاری واجپائی وغیرہ ۔
ہندوستان کی بزنس دنیا میں مشہور ہستی دیرو بایی امبانی ایک تاریخی نام ہے، جس نے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے اپنا سفر محض پانچ سو روپے کے ساتھ شروع کیااور اپنی لگاتار محنت سے ٹیکنالوجی صنعت و حرفت اور تجارت کی دنیا میں مشہورہوئے ۔ان کا شمار آج دنیا کی بزنس ریکارڈر میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے ۔
Dhirubhai’s journey from arriving in Mumbai with just 500 rupees to becoming one of the world’s richest individuals is a testament to the power of determination and perseverance.
دشرتھ مانجھی ایک بھارتی مزدور تھے جنہیں ’’پہاڑی آدمی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ انہوں نے 22 سال کی طویل محنت سے ایک پہاڑ کو کاٹ کر راستہ بنایا تھا۔ یہ راستہ 360 فٹ لمبا، 30 فٹ چوڑا اور 25 فٹ گہرا تھا۔ اس راستے نے قصبہ گیا کے دو علاقوں اٹری اور وزیر گنج کے درمیان سفر کا فاصلہ 55 کلومیٹر سے کم کر کے 15 کلومیٹر کر دیا۔ دشرتھ مانجھی 1934 میں پیدا ہوئے اور17 اگست 2007 کو ان کا انتقال ہوا۔ وہ بہار کے ایک گاؤں گہلور کے رہنے والے تھے۔انہوں نے یہ کارنامہ تنہا ایک ہتھوڑے اور چھینی کی مدد سے سرانجام دیا۔ ان کی اس کوشش کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور انہیں ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔اسی طرح سے ٹیکنالوجی ، صنعت، و حرفت، کھیل کود، تعلیم، میڈیا، بالی ووڈ،تجارت ، سائنس، سیاست،تجربات،علم طب، علم کیمیا، اقتصادی میدان میں ، سوشل خدمات،ادب،شجاعت کے میدانوں میں بہترین مثالیں موجود ہیں جنھوں نے کمفورٹ زون کو خیر باد کہہ کر ترقی کی ۔
رابطہ۔ 8825001337
[email protected].