مشتاق مہدی
مندر کے اندر کی چاردیواری میں بڑی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔چاروں اور رینگتے بھاگتے ہوئے سائے۔۔۔جو دکھائی نہیں دیتے۔صرف اُن کی آہٹیں اور آہیں اُس کے کانوں میں گونجتی جارہی تھیں۔
میں کہاں پر ہوں۔۔۔؟
اچانک ہی وہ خود سے سوال کرتا ہے
بُت مسکرا دیتے ہیں
ہمیں پہچان لو۔۔۔۔۔۔۔
تم۔۔۔تم۔۔۔اُسے یاد پڑتا ہے کہ وہ چلتے چلتے یکایک اِس طرف آلگا تھا۔باہر پجاری نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔
’’ اندر مندر کی مقدس مورتیاں ہیں۔یہ پھول ساتھ لے کر جاو اور اُن کے چرنوں میں رکھ آو۔۔۔۔۔
کہ یہ صرف پتھرکی مورتیاں نہیں۔اپنے وقت کی مقدس کہانیاں ہیں۔پریم ندی بیچ میں بہتی ہوئی
ایک ہے۔۔۔۔۔۔تم دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھ پائو گے !‘‘
’’ کیا ۔۔۔کیا نہیں دیکھ پاوئں گا ؟‘‘
پجاری نے جواب نہیں دیا تھا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اُ س نے پھولوں سے بھری ہوئی ٹوکری اٹھائی اور اندر چلا گیا۔
پھول۔۔۔۔۔۔سرخ ،زرد،سیاہ،گلابی۔۔۔۔۔۔۔۔سفید
اُسے پھولوں کے نام یاد نہ تھے۔لیکن وہ انہیں رنگوں سے پہچانتا تھا۔۔۔اتنے سارے رنگ ، اتنے سارے پھول اپنے ہاتھوں میں دیکھ کر وہ مسَرت سے بھر گیا۔خوشبوئوں کا حسین احساس لئے ایک مورتی کے قریب جاکر اُسے غور سے دیکھنے لگا۔۔۔
بڑی بڑی خوبصورت خوابوں بھری آنکھیں۔۔۔بھرے بھرے ہونٹ۔۔۔گول چہرہ۔۔۔چھوٹے چھوٹے ہاتھ ۔۔۔اور ناک جو کچھ اس طرح اٹھی تھی جیسے چاند کو چھونا چاہتی ہو
’’ اوہ۔۔۔‘‘ وہ چونک سا پڑا
یہ ایک مورتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت چہرا ہے ۔جسے میں دیکھ چکا ہوں ۔جسے میں نے چھوا ہے۔جس کی دھڑکنیں میں نے سنی ہیں۔مگر کہاں۔۔۔۔۔؟کس موڑ پر۔۔۔۔کس گلی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اُسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔
یکایک ہی مورتی کے ہونٹ حرکت میں آگئے
’’تمہارے وہ گیت میرے کانوں میںاب بھی گونج رہے ہیں ‘‘
’’ میرے گیت۔۔۔میں کبھی گاتا بھی تھا ۔۔۔‘‘
وہ حیرت سے بڑبڑایا
مورتی بولی
’’ تم نے میرے مکان کے خالی برتنوں میں پانی بھی ڈالاتھا ‘‘
’’ میں نے ۔۔۔۔۔کب۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ تم نے کہا تھا ہم ایک ہی بدن کے ٹکڑے ہیں۔دھڑکن دھڑکن ایک ہیں ‘‘
’’ میں نے کہا تھا۔۔۔‘‘وہ اپنے ذہن پر زور دینے لگا۔جیسے کوئی غوطہ خور اپنا کھویا ہوا موتی تلاش کر رہا ہو۔اُس کے ہاتھ حرکت میں آکر مورتی کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی جانب بڑھے۔پھر وہ انہیں سہلانے لگا ۔
یک بارگی اُسے ایک جھٹکا سا لگا۔اس کی آنکھوں میںتیز چمک پیدا ہوئی۔ دوسرے ہی لمحے اُس کے ہونٹ ہلے
’’ ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔وہ ایک سپنا تھا ۔ایک خواب۔۔۔۔۔مجھے ٹھیک یاد آگیا ۔لیکن‘‘
’’لیکن کیا۔۔۔۔۔سپنے ہماری زندگی کی اپنی حقیقتیں ہیں ۔ہم جب اداس ہو جاتے ہیں تو انہی حقیقتوں کو سامنے لاکر خوش ہو جاتے ہیں۔خود کو تسلی دیتے ہیں ۔بہلاتے ہیں کہ یہ بھی ہم ہی ہیں ہماری ہی زندگی کے فسانے ہیں۔تم سڑک کے ایک طرف سے آکر مجھے مخالف سمت میں کھڑاپاکے مسکراہٹوں کے پھول دیتے تھے اور میں شرماجاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں یاد نہیں ہے کیا۔۔۔؟‘‘
’’ میں خواب کو دہرانا نہیں چاہتا ۔۔۔‘‘
مورتی نے سوالیہ نظروں سے گھور کر پوچھا۔
’’ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ کیونکہ ہمارے راستے تب بھی جدا تھے۔آج بھی جدا ہیں۔ہم ندی کے دو الگ کنارے ہیں۔سفر یہی ہے بھول جاو تم بھی ‘‘
’’ میںنہیں بھول سکتی وہ دن ۔۔۔۔۔‘‘
اُس کے دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہواوئں میں پھیل گئے ۔جیسے وہ اُسے اپنے بازووئں میں بھرنا چاہتی ہو۔جیسے وہ زندگی کی تلخیوں سے اُسے آج آزاد کرنا چاہتی ہو۔ اُس کی ساری پیاس پی لینا چاہتی ہولیکن
وہ تو پرے ہٹ چکا تھا ۔دور جاکے اُسے کِن انکھیوں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب ناراض دکھائی دی ۔اُس کی آنکھیں بجھ چکی تھیں۔اُس کے ہاتھ پیراپنی جگہ پر آکے ساکت ہو چکے تھے۔اور اُس کی ادھ کُھلی آنکھیں آہستہ آہستہ بندہونے لگی تھیں۔پھرجب وہ ایک بے جان مورتی میںڈھل گئی تو کچھ سوچتے ہوئے دو قدم اٹھا کروہ اُس کے قریب گیا اور سارے پھول اُس کے قدموں میں ڈال کر واپسی کے لئے مڑ گیا ۔چند قدم چلنے کے بعد ہی اُسکے کانوں میں ایک سرگوشی سنائی دی۔پھر ایک دھیما سا شور اٹھا ۔پھر جیسے ساری مورتیاں ایک ساتھ چلا پڑیں۔۔۔۔۔۔۔
’ ہو۔۔۔ہے۔۔۔ہا۔۔۔
ہانگلہِ ہو۔۔۔
کہاں جا رہے ہوتم۔۔۔؟
وہاں بھی ہم ہی ہیں۔۔۔۔
ہم وقت کی اپنی کہانیاں ہیں۔۔۔
ہو۔۔۔ہے ۔۔۔ہا ۔۔۔مارو۔۔۔
مارو اِسے۔۔۔۔
یہ جھوٹا ہے ۔۔۔
دغا باز ہے۔۔۔بے وفا ہے۔۔۔
فریبی اور مکار ہے۔۔۔۔۔‘
’ نہیں۔۔۔۔۔یہ جھوٹ ہے ۔۔۔میں فریبی نہیں ہوں۔۔۔میں دغا باز نہیں ہوں ‘
اُس نے حلق پھاڑنے والی آواز میں چلانا چاہا ۔مگر آواز اُس کے اندر ہی دب کر رہ گئی ۔
اُس نے اپنی نظریں اِدھر ادھر دوڑائیں۔باہر نکلنے کے سارے راستے بند ہوچکے تھے ۔۔۔کہ مورتیاں رقص کرتی ہوئیں اس کے قریب آرہی تھیں۔۔۔۔۔اور قریب تر آکراُس کے کپڑوں کے چھیتڑے اڑانے لگیں۔۔۔۔اُسے پیٹنے لگیں ۔
وہ اکیلا کس کس کو روکتا۔۔۔۔
ایک ہاتھ رکتا۔۔۔۔
تو دوسر ا ہاتھ اٹھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسرا ۔۔۔۔اُس کی جانب بڑھتا۔۔۔۔۔۔پھر اچانک ہی وہ پیچھے مڑکر بھاگ گیا
گرمیوں کے طویل دن کا تھکا ماندہ سورج پہاڑوں کے پیچھے جا چھپنے ہی والا تھا۔اور شام باہیں پسارے آہستہ سے بے آواز قدم بڑھا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک اُسی پل پجاری چونک پڑا ۔اُسے خیال آیا اُس شخص کا جو دھوپ میںپھول لے کر اندر گیا تھا ۔وہ ابھی تک کیوں نہ لوٹا ۔اُس کے ذہن میں ایک سوال ابھرا۔ساتھ ہی وہ مندر کا مین دروازہ چھوڑ کر اندر چلا گیا۔
مندر کے اندر سب کچھ معمول کے مطابق تھا لیکن وہ نوجوان آس پاس کہیں نظر نہ آیا۔ادھر اُدھر نظریں گھماکر آواز دی۔
’’ اے اجنبی۔۔۔نوجوان تم کہاں ہو ۔۔۔؟ ‘‘
اُسے کوئی جواب نہ ملا۔لمحہ بھر کے لئے حیران سا رہ گیا ۔پھر کچھ سوچتا ہوا آگے بڑھا۔مندر کے پچھوازے کے ایک اور کمرے کی طرف لپکا۔یہاں پر بھی ایک مندرتھا چھوٹا سا۔۔۔۔۔۔کچھ مورتیاں بھی تھیں۔وہیں پر ایک بڑی سی مورتی کے سامنے نیند میں ڈوبا ہوا ملا۔
’’ نوجوان۔۔۔۔اے نوجوان ‘‘
اُس نے جلدہی آنکھیں کھولیں۔ہڑبڑاکر بیٹھ گیا ۔پاس کھڑے بوڑھے پجاری کو ُٹک ُٹک دیکھنے لگا۔۔۔۔۔پجاری نے پوچھا
’’ تم سو گئے تھے کیا ؟ ‘‘
’’ جہِ۔۔۔جی ہاں ۔عجیب سی نیند کا مجھ پر غلبہ ہوا۔۔۔۔پہلے ایسا کبھی ہوا نہیں ہے۔ میں حیران ہوں‘‘
کہتے ہوئے اُس نے ماتھے پر آئے ہوئے لمبے بال ہٹا دئے ۔تو پجاری کی نظر ماتھے کے اوپری حصے پر لگے خون کے دھبے پر پڑی۔چہرے کی حالت بھی کچھ اچھی نظر نہ آئی ۔چونکتی ہوئی آواز میں پوچھا
’’ تمہارے ماتھے پر خون کا دھبہ ہے ۔اور چہرے پر خراش بھی ۔۔۔۔۔کسی سے تمہارا یہاں جھگڑاہوا ہے‘‘
’’ جی۔۔۔۔۔ ‘‘کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا ۔’’جی ہاں ‘‘
’’ کس سے ؟‘‘
نوجوان اٹھ کر کھڑا ہوا ۔وہ اب کسی قدر سنبھل چکا تھا۔پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
’’ اپنے آپ سے۔۔۔‘‘
’’ کیا۔۔۔۔۔‘‘ پجاری چکرا سا گیا ’’اور یہ قمیض ؟‘‘
’’ میں نے خود پھاڑ دی ‘‘
’’ کیا مطلب ۔۔۔۔‘‘ پجاری نے حیرانگی کے ساتھ کہا ’’نو جوان ۔میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ اب کیا سمجھاوئں پجاری جی آپ کو ۔‘‘ قدم اٹھاکر بولا ’’بس اب۔۔۔چلنا ہے مجھے ! ‘‘
٭
ملہ باغ۔سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9419072053