سرینگر//حالیہ ایجی ٹیشن میں شہ سرخیوںمیں رہنے والے رعنا واری کے قندہار چوک کے لوگوںکا الیکشن پر سے یقین اٹھ چکاہے ۔وہ اب ریفرینڈم کا اعلان بائیکاٹ کے ذریعہ کرنے پر یقین رکھتے ہیںاور ووٹ ڈالنے کو غداری سمجھتے ہیں ۔اس چوک میں لوگ جمع تھے اور پولنگ بوتھ خالی پڑے ہوئے تھے ۔چوک میں جمع لوگوں نے بتایاکہ پچھلے سال ایجی ٹیشن کے دوران 500 افراد اس چوک میں زخمی ہوئے اور اب ایسے میں یہاں ووٹ ڈالنا ایک گناہ کے برابر ہے ۔رعنا واری میں قائم وشوا بھارتی کالج کے اندر اگرچہ الیکشن عملہ لوگوں کا انتظار کر رہا تھا وہیں نوجوانوں کی ٹولیاں باہر بیٹھ کر یہ دیکھ رہی تھیں کہ کون کون ووٹ ڈالے گا جبکہ صبح کے وقت اس علاقے میں قائم ویشوبھارتی کالج میں قائم چار پولنگ بوتھوںاورگورنمنٹ بائز ہائر سکنڈری سکول رعنا واری میں قائم چار پولنگ پوتھ خالی بڑے تھے اور ان بوتھوں پر مامور عملہ ووٹران کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ایک پولنگ بوتھ کے باہرمایوس علیٰ محمد زرگرسے کشمیر عظمیٰ کی ٹیم نے جب اُس سے بات کی تو اُس نے آہ بھرتے ہوئے کہا میں کس منہ سے ووٹ ڈالو میرا جوان بیٹا اویس احمد مئی 2008میں فورسز کی گولی کا نشانہ بن کر اس دنیا سے چلا گیا میں اور میرا پورا کنبہ اُس کے غم میں نڈھال ہے ۔اب ہماری اتنی جرأت نہیں کہ میں ووٹ کا استعمال کروں ،یہاں قبرستان بسائے گئے ہیں ایسے میں ووٹ ڈالنا میرے لئے کسی گناہ سے کم نہیں ہے ۔ابھی زرگر بات کر رہے تھے کہ شوکت احمد نامی نوجوان بول پڑا میرے بھائی کو 1995میں فرضی جھڑپ کے دوران رعنا واری میں ہلاک کیا گیا اور ایسے میں اب انتخابات میں شرکت کرنا مناسب نہیں یہاں کے لوگوں کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں ۔شبیر احمد نے بتایا کہ 1998میں میرے تین پھپھرے بھائی اور ایک چاچا بھی پوکھری بل جھڑپ کے دوران فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلی ایجی ٹیشن کے دوران حالات یہاں انتہائی کشیدہ ہوئے اور کافی زیادہ لوگ ایجی ٹیشن میں مارے گے اور زخمی ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ رینہ واری کے کندھار چوک میں پچھلی ایجی ٹیشن کے دوران 500لوگ زخمی ہوئے ہیں۔