صبی جان ،ریسرچ اسکالر
سر زمین ِ لداخ کو جہاں قدرت نے جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے نہایت ہی منفرد اور ممتاز بنا یا ہے۔ وہیںاُ س کی کوکھ سے جنم لینے والے انسان بھی کسی نہ کسی طرح اپنی انفرادیت کو قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جب ہم اُردو زبان و ادب کے حوالے سے اس خطۂ لداخ کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے جو نام شہابِ ثاقب کی طرح ابھر کرسامنے آئے ہیں اُن میں عبدالغنی شیخ لداخی، خیال لداخی ،کا چو اسفند یار کے ساتھ ساتھ رشید راہگیر کے اسماے ٔ گرامی قابلِ قدر ہیں۔
رشید راہگیر ؔ گذشتہ کئی دہائیوں سے قلم و قرطاس کا سہارا لے کر اپنے تخلیقی و جدان کا اظہار افسانے اور ناول لکھ کے کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ـ’’ اندھیرا سویرا ‘‘ اور ایک ناول ’’ احساس ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔اس سفرکو آگے بڑھاتے ہوئے موصوف نے حال ہی میں ’’ٹوٹتی جڑتی زندگی ‘‘کے عنوان سے اُردو ادب کو افسانوںکی ایک اور سوغات عطاکی ہے جو ۱۳ افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس افسانوی مجموعے کے آغاز میں نور شاہ نے ’’کہی انکہی‘‘ کے نام سے ان کی افسانوں کی فنی ادبی اور ثقافتی پہلوئوں پر گفتگو کی ہیں۔نور شاہ لکھتے ہیں:’’ میں نے محسوس کیا ہے کہ رشید راہگیر اپنے افسانے لکھتے وقت لداخ کے سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی پسِ منظر اور ماحول کو اپنی سوچوں میں چھپائے رکھتے ہیں اور پھر یہ سوچیں قلم کا سہارا لیتی ہیں۔اس افسانوی مجموعے میں جتنے بھی افسانے شامل کئے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو ضرور نظر آتا ہے ۔‘‘ (ص ۔۱۰، ٹوٹتی جڑتی زندگی)۔نہ صرف نور شاہ بلکہ عبدالغنی شیخ نے بھی اس افسانوی مجموعے کے متعلق ’’حرفِ چند‘‘ میں اپنے تاثرات پیش کئےہیں۔ان افسانوں کی تکنیک اور ہیئت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ رشید راہگیرکی کہانیاں بیانیہ اور مکالماتی دونوں انداز میں سفر طے کرتی ہیں،جو مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ان میں کوئی یکسانیت نہیں ہوتی۔جیسے کہ ادبی، رومانی، اساطیری اور سسپینس بھری کہانیاں۔‘‘ (ص۔ ۱۳ ، ٹوٹتی جڑتی زندگی)۔ان افسانوں میں جہاں لداخ کی تہذیب و ثقافت نظر آتی ہے وہیں ہمیں رشید احمدمعاشرے کی صورتحال سے بھی آگاہ کراتے ہیں۔ افسانہ’’ سَر پھرا ‘‘سے یہ اقتباس پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا:’’ یا پھر لمبے چوغے میں ملبوس لداخی مر د یا عورت گاہ بہ گاہ اپنے مویشی ۔۔۔ جیسے کہ ُسرا گا ئے،زو مو یا گدھے کو ہانکتے دکھائی دیتا ہے یا دیتی ہے تو زندگی کے آثار کی جھلک گھڑی بھر کے لئے تن من میں سکون بھر دیتی ہے۔‘‘( ص۔ 66 ،ٹوٹتی جڑتی زندگی)
افسانوں کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان میں یک رنگی نہیں بلکہ ہر افسانہ اپنے اندر ایک الگ رنگ لیے نظر آتا ہے۔ رشید احمد نے ان افسانوں میں جہاں محبت کے جذبات کی عکاسی کی ، وہیں غیر فطری جنسی تعلقات سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی قاری کے سامنے پیش کیا۔ افسانہ ’’ ٹوٹتا ستارہ ‘‘ میںرشید راہگیر نے نئی نسل کی نفسیاتی کشمکش کو موضوع ِبحث بنایا ۔افسانوں و کہانیوں پر مبنی یہ کتاب ا۴۴صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت ۳۵۰؍ روپے ہے۔شاہین بُک سیلر ،جامع مسجد کرگل (لداخ) پر دستیاب ہے۔
[email protected]