آج کی دنیا میں رشوت کا لفظ زبان زد خاص و عام ہے. ہماری ریاست کے ساتھ ساتھ تقریباً پوری دنیا میں رشوت خوری یا رشوت ستانی (corruption) معاشرہ کی بہت بڑی مصیبت ہے۔لغت میں رشوت کے معنی ناجائز نذرانہ یا ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنا ہےیعنی حق کو ناحق بنادینے یا ناحق کو حق بنا دینے کے لیے جو مال یا کوئی چیز دی جائے وہ رشوت کہلاتی ہے۔رشوت خوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کینسر جیسی لاعلاج بیماری ہے جو قابو ہونے کے بجائے دن بہ دن پھیلتی اور بڑھتی جارہی ہے۔حلال و پاک کمائی پر صبر نہ کرکے انسان جن حرام و ناجائز وسائل کا استعمال کرتا ہے ان میں ایک رشوت کا لین دین ہے۔چونکہ اسلام دین حق اور دین عدل ہے اسلئے اسلام نے رشوت کی تمام صورتوں کو ناجائز اور حرام قرارا دیا ہے۔اسلام کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر غیر اسلامی معاشروں میں بھی رشوت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے لیکن اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں رشوت کے مرتکب شخص اور معاون کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔یہ حدیث شریف تقریباً ہر ذی شعور مسلمان کو معلوم ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں(بروایت ابن عمر / طبرانی) ۔اگر ہر ایک کو معلوم ہے کہ رشوت خوری گناہ کبیرہ ہے تو پھر انسان بلکہ مسلمان بھی اس گناہ کا باربار مرتکب کیوں ہورہا ہے ؟ دراصل اللّہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کے عظیم ترین مرتبہ اور شرف سے نوازنے کے ساتھ ساتھ اسی انسان کو نفس کا عنصر بخش کر اس کی طبیعت کچھ ایسی بنائی کہ وہ مادیت کا دیوانہ ہے۔مال و دولت کے زیادہ سے زیادہ حصول کا جزبہ اس کے دل میں ہر وقت کارفرما رہتا ہے۔انسان کی اس بشری کمزوری کا ذکر قرآن مجید میں متعدد جگہ وارد ہیں: سورہ العادیات آیت 8 میں ارشاد ہوا ہے: ترجمہ: وہ مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے: اور تم میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو.(الفجر 19- 20)۔سورہ التکاثر کے شروعات میں ارشاد ہوا ہے: تمہیں کثرت کی ہوس نے غافل کر رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبرستانوں میں جا پہنچ جاتے ہو ‘‘۔ معلوم ہوا کہ انسان کی طبیعت بہ لحاظ آزمائش کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ انسان نفسا نفسی کی وجہ سے مادیت کا دیوانہ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان کو جو کچھ حلال و جائز طریقے سے ملتا ہے وہ اس پر صبر نہیں کرتا بلکہ مزید حصول کے لئے رشوت خوری جیسے ناجائز و حرام طریقے اختیار کرتا ہے۔ حالانکہ باضمیر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ ربّ العزت نے واضح طور فرمایا ہے کہ حلال ذرائع سے جتنا مال حاصل ہوجائے اگر انسان اس پر صبر کرے تو اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہے۔کاش انسان اللہ تعالی کے دئے ہوئے مال اور بے انتہا نعمتوں و نوازشوں پر شکر کرتا تو اس وقت انسان کی یہ ابتر حالت نہ ہوتی۔متاع دنیا میں غرق انسان یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ایک دن اسے یہ تمام مال دنیا میں ہی چھوڑنا ہے۔چونکہ رشوت خور کو اپنے مال میں فوری طور کافی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے اس لئے اس کا نفس اس ناجائز کمائی کو حاصل کرنے کے لئے ہزار ہا حیلے بہانے تراش لیتا ہے۔بظاہر تو رشوت لینے میں یہ کھلا دنیاوی فائدہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کی آمدنی کسی زائد محنت کے بغیر بڑھتی جاتی ہے لیکن ذرا باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس وقتی فائدے کے لاتعداد اُخروی اور دنیوی نقصانات ہیں۔رشوت ناجائز مال ہے، یہ جس طرح آتا ہے اسی طرح چلا بھی جاتا ہے،مطلب جیسی بری کمائی تھی ویسی ہی بری جگہ خرچ ہوئی…اسی کو فارسی زبان کے محاورے میں "مال حرام بود بجائے حرام رفت " کہتے ہیں۔
جب معاشرے میں رشوت خوری کی لعنت پھیل جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ بدامنی اور بے چینی اور گند اور غلاظت کا شکار ہوجاتا ہے۔جہاں رشوت کا بازار گرم ہو وہاں بہتر سے بہتر ریاستی قانون بھی بالکل مفلوج اور ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔رشوت خوری معاشرہ میں بہت سارے دیگر جرائم کو جنم دیتی ہےجیسے چوری ، اغوا کاری، قتل ، دھوکہ ، فریب وغیرہ ۔ان انسانیت کش جرائم سے آج کے اس دور خرافات میں تقریباً ہر کوئی سہما ہوا ہےلیکن انسان یہ نہیں سوچتا کہ درحقیقت یہ رشوت کی بیماری ہی ہے جو ہر اچھے سے اچھے قانون کو چند نوٹوں کے عوض بیچ کر خاک میں ملا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک سرکاری افسر ٹھیکہ دار سے رشوت لے کر اس کے ناقص تعمیری کام کو منظور کرادیتا ہے تو آنے والے کل کو اس کا یہ جرم قیمتی انسانی جانوں کا سبب زیاں بن سکتا ہے۔اسی طرح دیگر سرکاری و غیر سرکاری کاموں چاہیے وہ کسی بھی محکمے سے وابستہ ہو، میں رشوت کے عام لین دین سے سرکاری خزانے ہی لوٹے جارہے ہیں اور نقصان کسی دوسرے ملک کو نہیں بلکہ اپنے ہی پیارے وطن کو زائد اور بھاری ٹیکسوں کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے ۔اس کی زد میں خود رشوت خور بھی آتے ہیں۔ مزید اس طرح ملک یا ریاست کے ترقیاتی کام رُکتے ہیں اور ملک غریبی کی طرف گامزن ہوتا ہے ، مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے ، بےروزگاری دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔نتیجتاً دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ رشوت خور خود متاثر ہوتا ہے۔سرکاری نوکری کے حصول کے لئے آج تک کتنے لوگ رشوت دے کر بڑے بڑے عہدوں پر برجمان ہوئے ہیں اور یہ حرام کمائی
ان کی پشت در پشت چلتی رہے گی کیونکہ رشوت دے کر کوئی ملازمت کرنا حق ماری اور حرام کمائی نہیں تو اور کیا ہے ؟ الغرض رشوت تمام کے تمام معاشرتی امراض کی جڑ ہے اور معاشرے پر اس کی تباہ کاریاں واضح ہیں۔رشوت کی کتنی ساری زندہ مثالیں ہمارے معاشرہ میں عیاں وبیاں ہیں ، ہمیں آنکھیں کھول کر انہیں عبرت اور اصلاح کی غرض سے دیکھنا چاہیے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں رشوت کو کئی تہذیب یافتہ نام دئے جاچکے ہیں اور ان ناموں کی بدولت حرام مال کو حلال بنانے کی بے وقوفانہ کوششیں کی جارہی ہےہیں۔ چنانچہ رشوت کو چائے پانی ، نذرانہ گفٹ وغیرہ کے ناموں سے پکارا جاتاہے ۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ اس کارستانی میں سیاست دان اور سرکاری کارندے سب شامل ہیں ۔ آپسی بندربانٹ کے ذریعے سرکاری خزانوں کو لوٹنے والے رشوت کوکمیشن، ہدیہ ،منہ دکھائی کہہ کر اسے جائز قرار دینے کے فتوے بھی دیتے ہیں ۔ ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ شراب کو شربت کہنے سے اس کی گناہ گارانہ اصلیت نہیں بدلتی ۔رشوت گناہ کبیرہ ہے چاہے اسے آپ کسی بھی نام سے پکاریں۔یہ رحمت الہٰی سے دوری کا سبب ہے۔ اسی کی بدولت آج کا پورا معاشرہ شر اورآلودگی میں ڈوبا ہوا ہے اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔رشوت کا لین دین پورے معاشرے میں بددیانتی اور ظلم کا سبب ہے جو انسان کو پریشانیوں ، آفتوں اور عمر بھر کی بدنصیبیوں کی گردش میں لاتا ہے۔ایک راشی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باغی ہو کر روپیہ اور دولت تو جمع کرسکتا ہے ، عالی شان بنگلے اور شاندار اسباب، زندگی جمع کرسکتا ہے لیکن ان کے ذریعے راحت و سکون حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔دل کا سکون ، روح کا قرار اور ضمیر کا اطمینان روپے پیسے کے ڈھیر ، عالیشان کوٹھوں اور شاندار گاڑیوں وغیرہ سے خریدا نہیں جاسکتا،یہ صرف اور صرف دیانت وامانت داری کی دین ہوتی ہے۔چنانچہ رشوت خور اس عظیم دولت سے دنیا میں ہی محروم رہ جاتا ہے اور آخرت میں تواسے ذلت ورسوائی نصیب ہوگی۔ رشوت کی وبا پر قابو پانے کے لئے یقینا ًانسانی یا ملکی قوانین نافذ العمل ہیں لیکن ان سے اس لعنت کاقلع قمع نہیں ہوتا تاوقتیکہ انسان کا ضمیر جاگے،وہ انسان دوستی اور خوف خدا سے لرزان وترساں نہ رہے ۔ کوئی پختہ قانون، کوئی نوٹ بندی ، کوئی جیل ،کوئی انکم ٹیکس چھاپے ،کوئی انٹی کورپشن ادارہ اس بدعت سے سماج کو کلی طور چھٹکارا نہیں دلاسکتا جب تک انسان کا ذہن اور ضمیر بیدا رنہ ہو۔
…………………………
رابطہ9797082756
�����