سبدر شبیر
ترقی اور جدیدیت کے اس دور میں والدین اور اولاد کے درمیان وہ والہانہ محبت، ادب و احترام اور قربت دھیرے دھیرے کمزور پڑ رہی ہے۔ آج کی نسل اپنے مصروف معمولات میں اس قدر اُلجھ چکی ہے کہ والدین کے جذبات اور ان کی ضروریات اکثر پس پشت چلی جاتی ہیں۔بیشتر نوجوان والدین کی خدمت کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ کچھ اولادیں انہیں سمجھ بوجھ کر اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتی ہیں، کچھ انہیں ماضی کی فرسودہ سوچ کا حامل قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا نے بھی والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا ہے۔ ایسے کئی والدین ہیں جو اپنی خوشی اوراپنے ضروریات کو نظر انداز کر کے اپنی اولاد کے لیے دن رات محنت کرتے ہیںاور خون پسینہ ایک کر کے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں،بچوںکے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے خود کو مشین کی طرح چلاتے ہیں۔ مائیں اپنی زیورات اور اپنی چادر تک بیچ کر اولاد کی ضروریات پوراکرتی ہیں ۔لیکن بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے؟ زیادہ تر نظر انداز کئے جانے کا دُکھ، بے رخی کا زخم اور وہ تنہائی، جس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوتاہے۔ یہ وہی والدین ہوتے ہیں جو اولاد کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن جب وہی اولاد بڑی ہو جاتی ہے تو وہ انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر اولاد بےحِس ہو۔ بعض اوقات وہ خود بھی زندگی کے مسائل میں اُلجھ کر والدین کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ اولاد نہیں جو دوستوں کے لیے وقت نکالتی ہے؟ جو تفریحی مقامات پر جانے کے لیے دن رات منصوبے بناتی ہے؟ تو پھر والدین کے لیے وقت نکالنا کیوں مشکل ہو جاتا ہے؟
اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ والدین وہ ہستیاں ہیں جو ہمیں دنیا میں لاتی ہیں، ہمیں سنوارتی ہیں، مگر جب ان کی زندگی کا سورج ڈھلنے لگتا ہے تو ہم انہیں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ غفلت نہیں بلکہ سنگدلی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا سامنا کرنے سے ہم اکثر کتراتے ہیں۔اگر ہم اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالیں تو والدین کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں واضح کرتی ہیں کہ والدین کے حقوق ادا کرنا صرف ایک اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔
والدین کی خوشی میں ہی برکت ہے : جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتے ہیں۔ والدین کی دعائیں انسان کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ جو اولاد اپنے والدین کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے، اس کے دکھوں کو خوشیوں میں بدل دیتا ہے اور اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیتا ہے۔اولاد کا فرض ہے ، والدین کے حقوق ادا کریں۔ضروری ہے کہ ہم والدین کے احسانات کو یاد رکھیں اور ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں۔ہمیں چاہیے کہ والدین کے ساتھ وقت گزاریں، – ان کے پاس بیٹھیں، ان سے بات کریں، ان کے دُکھ سکھ میں شریک ہوں۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں – اگر وہ بیمار ہیں تو ان کی خدمت کریں، اگر وہ کمزور ہیں تو ان کا سہارا بنیں۔ ان کے جذبات کی قدر کریں، – ان کی باتوں کو نظر انداز نہ کریں بلکہ ان کی رائے کو اہمیت دیں۔ ان کے لیے دعا کریں – کیونکہ والدین کی محبت دنیا میں سب سے انمول چیز ہے۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے جو آج اولاد ہے وہ کل والدین بنے گا۔ اگر آج ہم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو کل ہماری اولاد بھی ہمیں وہی محبت دے گی۔لیکن اگر ہم اپنے والدین کو تنہا چھوڑ دیں گے تو کل ہمیں بھی کوئی اپنانے والا نہیں ہوگا۔
رابطہ۔9797008660
[email protected]
????????????