Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

رشتوں کاردّوقبول

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 4, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
     خاندانی نظام زندگی میں نکاح کو سب سے اہم مقام حاصل ہے ۔ نکاح ہی سے خاندان وجود میں آتا ہے ۔ گھر اور خاندان کا استحکام اور  بقاء نکاح پر منحصر ہوتا ہے۔ نکاح ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو خاندان کو آگے بڑھاتا ہے اور نسل کی تسلسل کو برقرار رکھتا ہے ۔ ہر قوم و مذہب میں اس کی اہمیت مسلم ہے اور کوئی فرد یا سماج اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکا ر نہیں کرسکتا ۔ اسلام نے نکاح کو جتنا تقدس عطا کیا دوسرے نظام ہائے اور مذاہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔اسلام نے رشتہ ازدواج کے لئے کچھ طریقے سکھائیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا میں شان و شولت ، امن و امان اور سکون و اطمینان قلب کے ساتھ کامیاب زندگی گزار سکتا ہے ۔اسلام نے رشتہ کے انتخاب کے مرحلے کو سب سے اہم قرار دیا ہے ۔ رشتہ کے انتخاب کے لیے ایمان اور دین داری، حسن اخلاق اور پاکیزگی کو ترجیح دینے کے لئے کافی اہمیت دی گئی ہے ۔یہی ایک ایسا معیار ہے جس پر دنیا و آخرت کی کامیابی سے انسان ہم کنار ہوسکتا ہے ۔اور یہی خوش حال زندگی گزارنے کا ضامن ہے ۔ اس تعلق سے قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے :اور (مومنو) مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں (اُن سے) نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت خواہ تمہیں کیسی ہی بھلی لگے اُس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عورتوں کو اُن کی زوجیت میں نہ دینا کیونکہ مشرک (مرد) خواہ وہ تمہیں کیسا ہی بھلا لگے (اُس سے) مومن غلام بہتر ہے یہ (مشرک، لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں ۔(البقرۃ: ۲۲۱)
  رشتے کے انتخاب کے سلسلے میںقرآن مجید نے ایک اور اہم اصول بتلایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ۔پاکیزہ عورتیںپاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ۔ (سورہ نور : ۲۴ )
  اسلام میں ذات پات اور حسب ونسب کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور کسی کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے۔ اسلام کی نگا میں تمام لوگ برابر ہیں ۔ہاں اگر کسی چیز کو فضیلت اور فوقیت حاصل ہے تو صرف تقویٰ ، حسن اخلاق اور دین و ایمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا  اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم مین سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ ( حجرات ۱۳)
اس اس آیت مبارکہ میں تمام انسانوں سے بلالحاظ مذ ہب و ملت خطاب کیا گیاہے کہ اختلافات،تنوع اور زما ن ومکاںکی دوری اور مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے کے باوجود نوع انسان کی اصل حقیقت ایک ہے ۔ لو گ اس حقیقت کو اچھی طر ح سے اپنے دل و دماغ میں جاگزیں کر لیںکہ وہ روئے زمین پربسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اوررنگ ، نسل ،علاقہ اور رسم و رواج کوئی معنی نہیں رکھتا۔یہ ذات پات اور برادریاں انسانوں نے خود بنایا اور شدت سے ان پر عمل پیرا ہے جس کی اسلام کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ مذکورہ بالاآیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ذات پات اورحسب و نسب کی کوئی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ جو جتنا تقویٰ شعار اور اللہ سے قریب ہے وہی اللہ اور اس کے رسول ﷺکے نذدیک سب سے مکرم اور عزت والا ہے ۔ رشتوں کے انتخاب کے معاملے میں اسی دین داری اور تقویٰ شعاری کو معیار بنایا جائے ۔اس آیت میں تعارف کا لفظ وارد ہے ۔تعارف کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کا باہمی احترام کیا جائے۔
   اللہ کے رسول ﷺ نے اسی معیار کو قابل تقلید اور اتباع قرار دیا ہے ۔ آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا  :چار چیزوں کی وجہ سے کسی عورت سے نکاح کیا جاتا ہے : (۱)اس کے مال کی وجہ سے (۲) اس کے حسب و نسب کی وجہ سے (۳)اس کے حسن و جمال کی بنیاد پر  (۴)اور اس کی دین کی وجہ سے،تم دیندار کو اختیار کرو اگر ایسا نہ کرے تو تیرے دونوںہاتھ خاک آلود ہوں(یعنی تو نادم و پشیمان ہو) ۔(بخاری ،کتاب النکاح )
   امام نوی نے  تربت یداککی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب سے صحیح اور درست مفہوم اس کا یہ ہے جس پر محققین بھی متفق ہیںکہ تربت کی اصل (افتقرت : غریب و مفلس اور محتاج ہونا ) ہے ۔ 
یہ حدیث مبارکہ ہمیں رشتہ کے انتخاب میں مطلوبہ صفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے تاکہ نکاح کا اصلی مقصد حاصل ہوسکے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا  :جب تمہارے پاس وہ آدمی نکاح کا پیغام لے کر آئیے۔ اس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے اپنی لڑکی کا نکاح کردو ۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ اور فساد پیدا ہوگا ۔ (ترمذی ،کتاب النکاح)
 فساد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اگر دین و اخلاق کو ترجیح نہیں دی جائے اور ان چیزوں کو پس پشت ڈالا جائے تو معاشر ہ متعدد بیماریوں اور برائیوں کا آماجگاہ بن جائے گا ۔ دین و اخلاق کے برعکس اچھی ملازمت ،اچھاکیرئر اور اپنے سے برابر یا کیسی اونچی ذات میں رشتہ کو فوقیت دینا بھی فساد ہے ۔ نکاح کے تین بنیادی مقاصد ہیں :نکاح کا سب سے پہلا مقصد عفت و عصمت کی حفاظت کرنا ہے اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو ، اسے شادی کر لینی چائیے ،اس سے نگاہ قابو میں آجاتی ہے اور آدمی پاک دامن ہوجاتا ہے ۔(بخاری، کتاب النکاح) نکاح ہی ایک اسی فطری عمل ہے جس سے انسان اپنی عفت و عصمت کو محفوط رکھ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے ۔ جنسی خواہشات کا تکمیل اور شرم گاہ کی حفاظت بھی نکاح ہی سے ممکن ہوسکتا ہے ۔ نکاح کا دوسرا اہم مقصد نسل انسانی کی افزائش اور اس کی حفاظت کرنا ہے ۔ انسانی نسل کی حفاظت کرنا شریعت کے پانچ بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے ۔تیسرا مقصد ہم نشینی کے ذریعہ نفس اور دل کو راحت وسکون پہچانا ہے ۔ اور مرد اور عورت کا ایک دوسرے لطف اندوز ہونا اور سکون حاصل کرنا نکاح کے عمل ہی سے ممکن ہوسکتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ نے تم ہی سے تمہارے جوڑے اس لیے بنائے کہ تم اس سے سکون حاصل کرو۔ا( روم : ۱۲ )
   امام غزالیؒ نے ’’احیائے علوم دین‘‘ میں نکاح کے پانچ مقاصد بیان کئے ہیں : ’’بچہ ، شہوت کو توڑنا ، گھر کا نظم و انتظام ، خاندان میں  اضافہ  اور بیویوں کے حقوق و معاملات کو انجام دینے میں نفس کا مجاہدہ ‘‘۔ ان امور کو انجام دینے میں دین سے بڑھ کر کوئی رہنمائی نہیں کرسکتا ۔ اختلافات اور معاملات کے بگڑنے پر انسان کو نہ ہی مرد یا عورت کی خوبصورتی  اور نہ ہی مال وحشمت اور نہ ہی حسب و نسب کام آتی ہے ۔ صرف دین ہی انسان کی فکر، اس کے جزبات و احساسات اور اس کے معاملات کو توازن میں رکھ سکتا ہے ۔ بسا اوقات انسان یہ سوچتا ہے کہ جاہ وحشمت اور حسب و نسب  ہی معاشرے میں عزت و تکریم کا ذریعہ ہے اسی لیے وہ دین ایمان اور حسن اخلاق کو خاطر میں بھی نہیں لاتا ہے ۔  
     نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طور پر سماج میں لڑکی یا لڑکے رشتہ کے انتخاب میں دین داری کو بہت کم وزن دیا جاتا ہے ۔ بسا اوقات دین داری ہی کی بدولت لڑکی یا لڑکے کو رد کیا جاتا ہے اور اس کی زد میں عام دین دار ہی نہیں بلکہ نوجوان علماء و دعاۃ  بھی آجاتے ہیں ۔ ایسی بھی بہت سی مثالیں  ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہیں کہ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز یا سماج میں اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ اس دین داری کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔وہ اصل میں مال و دولت اور جاہ وحشمت کے پجاری ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ ہر چیز کو مادیت ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اخلاق و اقدار نام کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ وہ دین اور دین سے متعلق ہر چیز کو فرسودہ سمجھتے ہیں۔ذات پات کا  نظام ایک ایسا بے ہودہ نظریہ ہے جس نے اسلام کے تصور مساوات کی تھیوری کا گھلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔ نام نہاد شریف ذات کے خاندانوںنے دینی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے ۔خود ساختہ اور نام نہاد اونچی ذات کہلانے والوں نے سماج میں دوسری ذاتوں اور خاندانوں سے ایسا فاصلہ قائم کر رکھا ہے کہ وہ ان کے ساتھ تعلقات رکھنا تک بھی گوارا نہیں کرتے ہیں ۔ خیر یہ تو خودغرض ،مفاد پرست اور اونچی ذات کہلانے والے لوگوں کاحال ہے جن سے ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے ۔ ان ہی کی دیکھا دیکھی میں دوسری عام ذاتوں کے لوگوں نے اسی طرز عمل کو اختیار کر لیا ہے وہ بھی بناکسی دلیل کے اپنی ہی ذات کی برادری میں رشہ لینے اور دینے کوترجیح دیتے ہیں۔یہ جاہلانہ سوچ ان کی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے اور ان کے مردوں میں بھی ۔البتہ یہ اونچی ذات کے لوگ ذات کے معاملے میں اس وقت اپنے خود ساختہ اصولوں سے مصالحیت کرلیتے ہیں جب ان کے ہاں کوئی دولت مند یا کسی بڑے عہدے پر فائز  لڑکے کا رشتہ آتا ہے۔ بڑے عہدے اور پیسوں کی خاطر یہ نام نہاد ااونچی ذات والے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔اس کی ہزاروں مثالیںہمارے معاشرے میـں پائی جاتی ہیں ،مثلا چند مہینہ پہلے ایک نچلی ذات کے لڑکا کو اہم سرکاری ملازمت مل گئی تو اس سے شادی کے لیے سید زادے قطار میں نظر آنے لگے۔اسی طرح ایک انصاری لڑکا آئی ۔ اے۔ ایس جیسے مقابلہ جاتی امتحان پاس کر کے ایک بڑاعہدہ حاصل کر لیا تو اس سے رشتہ جوڑنے کے لئے اونچی ذاتوں کے لوگوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ ایک اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے شخص نے اپنی بیٹی(جس کی عمر۲۶ سال کی تھی) کا رشتہ دوسری ذات کے۴۵ سال کے شخص سے محض اس کی دولت و ثروت کو دیکھ کر کیا ۔تصویر کا ایک اور رُخ ہے جو اس سے بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ دین دار طبقہ بھی اس فعل مذموم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیے رہا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ دینی تحریکوں اور ، تنظیموں اور اور اداروں سے وابستہ افراد میں ہی نہیں بلکہ ان کے ذمہ داران کی حالت بھی مفاد پرست،خود غرض اور جاہ و حشمت کے بھوکے لوگوں جیساہے۔ جب ان کی بیٹی یا بیٹے کے رشتہ کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے تو دین کے یہ علمبرداربھی اس فعل مذموم کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح انہیں بھی رشتوں کے انتخاب کے سلسلے میں دین دار ہونے کے باوجود دین داری راس نہیں آتی۔ ان کے نزدیک بھی ذات پات ، ما ل و دولت اور سرکاری ملازمتیں  بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ان ہی چیزوں کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے ۔ دینی تنظیم سے وابستہ ایک دین کے علمبردار نے تو حد ہی کردی کہ جب ان کے ہاںایک دین دار لڑکے کی طرف سے رشتہ آیا تو اس نے لڑکے کی تعلیمی قابلیت جاننے کے بعد اس کی تعلیمی اسناد((Certficatesپیش کرنے کے لئے کہا ۔ دینی تنظیم کے ہی ایک ذمہ دار کی بیٹی کے لئے جب کسی دوسری ذات سے رشتہ کا پیغام آیا تھا تو اس صاحب نے انتہائی ناشائستہ طریقے سے اس رشتہ کو دُھتکارا ۔ دینی ادارے ہی سے وابستہ ایک کارکن جورات دن اپنے ساتھیوں کومساوات کا درس دیتے ہیں جب ان کی بیٹی کے لئے اس سے مختلف ذات سے تعلق رکھنے والے ایک دین دار نوجوان کے لئے ایک مولوی صاحب رشتہ کا پیغام لے کر آئے تو اس دینی کارکن نے مولوی صاحب کو جو جواب دیا وہ کسی بھی  المیہ سے کم نہیں ہے ۔ اس نے کہا کہ’’ مولوی صاحب میرے گھر میں دوبارہ کسی دوسری ذات کا رشتہ نہ لے کر آئیے۔ آپ میری ناک کٹوائیں گے کیا ؟‘‘اسلامی تنظیم سے ہی وابستہ ایک نام نہاد ’’سیدذات‘‘ عالم دین کی عجیب سی حرکت دیکھنے کے لائق ہے اور اس کی سوچ و فکر کو داد دیجئے ۔انھوں نے برجستہ کہا کہ’’ دوسری ذاتوں میں رشتہ کرنے سے نسل برباد ہوجاتی ہے‘‘۔دینی تحریک سے ہی وابستہ ایک سید زادہ رکن(جو بیس سال سے خطابت کا فریضہ بھی انجام دے رہا ہے ) کے پاس جب اس کی بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام آیاتو اس کا بے ہودہ جواب یہ تھا کہ میںخاندانی روایات کو نہیں توڑ سکتا اور نہ ہی میرے بھائی بہن اس رشتہ پر راضی ہوں گے اور یہی صاحب معاشرے میں اقامت دین کا کام کر رہا ہے ۔ ان معدودے چند نارساء فکر و خیال کے ـحاملین کی وجہ سے دینی ادارے ، تنظیمیں اور تحریکیں بد نام ہوجاتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جیسے دوہرے معیار والے عناصر کو دینی تنظیموں اور اصلاحی تحریکوں سے دور ہی رکھا جائے اور اگر یہ دینی تنظیمیں ان کو اپنی صفوں سے نکال نہیں سکتے ہیں تو ان کی مربوط فکری و عملی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں ۔ ذات پات کے نظام کی پختگی کے لیے اس کو مذہبی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی اور کفو کے دائرے میں ذات پات کو بھی شامل کر دیا گیاحالانکہ یہ بالکل بھی اختیاری نہیں ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کی تائید و تصویب میں حدیثیں گھڑلی گئیں اور یہاں تک کہہ دیا گیا : عقل الحیاکۃفی الدبر ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذات پات کی تفریق نہایت جاہلانہ طرز عمل ہے جس کی شناعت و قباحت کو کھول کھول کر بیان کرنانہایت ضروری ہے ۔رشتہ کے انتخاب کے وقت دین و ایمان ہی کو معیار بنانا چائیے تاکہ گھر کا نظم و نسق اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوجائے ۔ نکاح کا مقصد صرف افزائش نسل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے نسل نو کی فکری اور اخلاقی تعلیم وتربیت کرنا بھی مطلوب ہے ۔ 
 (9045105059 رابطہ )
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تعطیلات میں توسیع کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں، موسمی صورتحال پر گہری نظر ، حتمی فیصلہ کل ہوگا: حکام
تازہ ترین
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سری نگر میں عاشورہ جلوس میں شرکت
تازہ ترین
پونچھ میں19سالہ نوجوان کی پراسرار حالات میں نعش برآمد
پیر پنچال
راجوری میں حادثاتی فائرنگ سے فوجی اہلکار جاں بحق
پیر پنچال

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?