بلا شبہ دورِ حاضر میں ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدّت سے ہم نے مادیت کی دُنیا میں بہت کچھ پا تو لیا ہے لیکن بدقسمتی سے پُرخلوص محبتیں دم توڑ چکی ہیں۔ جو وقت پہلے نوجوان رشتہ داروں کے پاس بیٹھ کر اور ان کی خدمت کرنے میں گزارتے تھے، وہ وقت اب نوجوان موبائل اور لیپ ٹاپ میں سرفکر رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا بےتحاشہ اور غیر ضروری استعمال کر کے وہ سوشل میڈیا کے ایک متحرک ممبر تو بن جاتے ہیں لیکن رشتوں کے معاملے میں بعض اوقات والدین سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ بھی ایک وقت تھا جب کسی رشتہ دار کے ہاں جانے اور کسی رشتہ دار کا اپنے ہاں رہنے کی سب سے زیادہ خوشی گھر میں موجود نوجوان نسل کو ہوتی تھی، وہ مہمانوں کا پرجوش طریقے سے استقبال بھی کرتے، ان کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتے، مہمانوں کو اپنے گھروں میں اصرار سے روکتے، اُن کی مقدور بھر خدمت کرتے، ان کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنے میں فخر اور خوشی محسوس کرتے، بزرگ رشتے داروں کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے، ان کے ماضی کے قصے سُنتے، ان کی ہدایات و نصیحتوں کو پلے سے باندھ لیتے، ان کی روک ٹوک میں اپنے لیے بہتری تلاش کرتے تھے۔ نتیجتاً بزرگ اُن سے خوش ہوتے، اُنہیں ڈھیروں دعائیں دیتے۔ یہ دعائیں اور نصیحتیں ہی زندگی کے کئی نشیب و فراز میں ان کے لئےبُری بلاؤں سے ڈھال بن جاتیں۔ظاہر ہے کہ کہ رشتے کی بنیاد دِل میں ہوا کرتی تھی،جس کی وجہ سے رشتہ دار کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا ،اُن خیر و خبر کا اضطراب رہتا تھااور اُن کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا تھا۔لیکن بالکل اس کے برعکس ہورہا ہے اور سب سے زیادہ حسد رشتہ داروں سے کیا جاتا ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی خبر تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن رشتہ داروں یا ہمسائیوں کی خبر سے بے خبر رہتے ہیں،اور اُن کے ساتھ وقت گزارنے میں جو حقیقی سکون اور خوشی ہوتی ہے، اُس سے بھی بے فیض رہتے ہیں۔
لوگ رشتوں سے دور ہو کر جس سوشل میڈیا میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، اس بارے میں امریکی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ’’ ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی وجہ سے زیادہ تعداد میں لوگ تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔‘‘ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ایک فرد میں معاشرے سے الگ تھلگ ہونے کے امکانات دوگنے ہوجاتے ہیں۔ایک فرد جتنا زیادہ وقت آن لائن صرف کرتا ہے اتنا ہی کم وقت وہ حقیقی رشتوں کے ساتھ صرف کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب ہمارے نوجوان، رشتوں سے دور ہوکر سماجی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں تو اُن میں مختلف امراض جنم لے لیتے ہیں۔ نفسیاتی پریشانی پیدا ہو کر عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ ذہنی دباؤ کی کیفیت میںنوجوان اپنی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ اپنی کم زوریوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنے حالات سے نکلنے کےلئے کسی مسیحا کی تلاش کرتا ہے، بے یقینی، بے چینی اور ہیجان کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ یہ مدافعتی، قلبی اور ہارمونز نظام پر بھی منفی اثر ڈالتی ہےاور نفسیاتی و ذہنی عوارض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ایسے متاثرہ نوجوانوں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ گھُلنے ملنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں،اُن کے ساتھ بات چیت ہمیشہ برقرار رکھیں،انہیں مصروف رکھیں اور انہیں دوسرے لوگوں کی مدد کرنے اور اُن سے معیاری تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دیں۔ہماری نوجوان نسل کے لئےا س حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دُنیا ہے، موبائل کے استعمال میں اعتدال رکھیںاور ضرورت کے وقت ہی استعمال کریں، رشتوں کو سمجھیں،رشتہ داروں کی قدر کریں کیونکہ ہمارے پیارے نبی ؐ کا فرمان ہے کہ رشتہ داروں کا سہ چند حصّہ حق ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ حقیقی رشتوں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں جو آپ کے حالات اور کام یابی کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے وجود اور شخصیت کی بنا پر آپ کی عزت کرتے اور آپ کو قبول کرتے ہیں جو آپ کے مالی، سماجی، مذہبی، ذہنی، نجی اور پروفیشنل مرتبے کی بنیاد پر آپ کے انسانی وقار کی قدر کرتے ہیں۔