سرحد ِادراک
حمیرا فاروق
یہ کارخانۂ جہاں ازل سے نظم و ضبط کا پابند رہا، جہاں کسی چیز میں بدنظمی کی گنجائش نہیں۔ دیکھا جائے تو قوانین رب اور شریعت الٰہی کا ہر کام مصلحت، سکون اور راحت سے پر ہوتا ہے، چنانچہ بنی نوع انسان کو وجود میں لانے کے بعد آدم علیہ السلام جنت میں وقوع پزیر رہے پھر حوا علیہ السلام کو بھی اس لئے آفرینش ہوئی، تاکہ وہ دونوں سکون کی زیست گزار سکیں۔ اسی سے آج تک دنیا کی نسلیں چلتی آرہی ہیں اور نسلِ انسانیت کو فروغ دینے کے لیے شریعت نے ایک ہی واحد طریقہ رکھا، وہ ہے نکاح۔
عصر حاضر میں نکاح کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ جہاں ہر ایک بُرائی میں ملوث ہو کر حلال راستے کو چھوڑ رہا ہے۔
نکاح چونکہ سنت رسول اللہؐ ہے، لیکن لوگوں نے اس میں ایسی رسومات داخل کر دی ہیں کہ نکاح ایک ایسا وبال بن گیا، جہاں ہر غریب باپ ظلم کے اندھیرے کا شکار اور ہر نوجوان بیٹی اپنے رنگین ہاتھوں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہے۔ سماج ایسے رسم و رواج میں قید ہو کررہ گیا ہے کہ نکاح کا نام سن کر ایک غریب لرز جاتا ہے۔ اتنے اخراجات سماج نے اس پر عائد کئے ہیں کہ جس کو ہر ایک فرض کی طرح ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ زندگی کے دیگر معاملات اسی ایک چیز سے بگڑ جاتے ہیں۔ رشتوں کی پامالی، محبت اور خلوص کے بجائے سوداگری اور خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ لڑکا کتنا کما رہا ہے اور لڑکی کتنا دہیج لے کر آئے، پھر چاہے وہ شرابی، بدکردار، بد اخلاق ہی کیوں نہ ہو، باپ اسی کو اپنی بیٹی حوالے کر دیتا ہے۔ شریعت کے ہر احکام کو پامال اور پسِ پشت رکھا گیا، جس کے نتائج آئے دن رشتوں میں ہمارے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ ہم خطِ مستقیم سے ہٹ کر بے ہودگی اور افترا پردازی کے شکار ہیں۔ ہم رشتوں کے جوڑے کے بجائے اولین اہمیت مادیت کو دیتے رہے، جہاں رشتے صرف اور صرف پیسے اور مطالبوں کے نام پر کئے جا رہے ہیں۔ حسبِ استطاعت زندگی کا کوئی کام ہم کرتے نہیں، لیکن ہر جگہ فضولیات اور رسم و رواج کا چلن اس قدر بڑھایا گیا کہ با شعور کی عقل بھی ہار جاتی ہے۔
ایسے ایسے بدعات و رسم رواج میں باندھا جا رہا ہے، پھر یہی چیز کسی کے لیے خودکشی کا سبب اور کوئی باپ عمر بھر کا مقروض ہو جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کا ذمہ دار ہمارا موجودہ سماج ہے جو ایسے بدعات اور رسومات ایجاد کرکے غریب کے لیے مصیبت پیدا کر رہا ہے۔ اگرچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مال و زر سے نوازا ہے لیکن اس نے اس کا طریقہ کار بھی بتایا ہے کہ کہاں پہ کیسے خرچ کرنا ہے۔ اگر فضولیات میں لگے تو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا اور اگر بخل کیا تو تب بھی اس پر ممانعت ہے، لہٰذا ہمیں ہر جگہ اعتدال سے کام لے کر چلنا ہوگا۔ وہاں کسی شخص سے ایسا مطالبہ کیا جائے جس کا وہ حق رکھتا ہو اور جو اس کی استطاعت ہو۔
نکاح جس کا مطلب عقد ہے اور یہ اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ نسلِ انسانیت کو فروغ ملے اور انسانیت بدکاری کا شکار نہ ہو۔ بہرحال نکاح سے دو انجان خاندان کا آپسی رشتہ قائم ہو جاتا ہے جو انسانیت کی بقاء کے لیے اہم ہے۔
انسان جب بلوغت کو پہنچے تو نکاح اس کےنفس کے تقاضوں کو پوار کرنے کے لیے رکھا گیا تاکہ وہ غلط کاری کرنے پر مجبور نہ ہو جائے کیونکہ انسان کا نفس بلوغت کے بعد ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتا ہے جس کے لیے ایک حلال راستے میں جانے کی ضرورت ہوتی ہیں، ورنہ اگر وقت پہ یہ کام نہ کیا جائے تو معاشرہ بدبودار اور نسلوں کا ذائقہ بدمزہ اور بدترین ہو جائے گا۔
عصر حاضر میں اگر دیکھا جائے تو دنیا میں حلال راستہ اختیار کرنے کے بجائے لوگ حرام راہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نسلوں کی پامالی،بے حیائی ،بداخلاقی اور بدکرداری کو ایسا رواج دے رہے ہیں جیسے قدرت کا قانون یہی تھا۔ اگر کسی کو غلط کام پر ٹوکا جائے تو وہ دقیانوس کہلاتا ہے۔ یہاں ہر ایک نفس کا مارا ایک ایسے لبادے میں ملبوس ہے کہ نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں خود کو کامیاب اور خوشحال سمجھتا ہے۔
کہیں پہ ہم حالات کو کوس رہے ہوتے ہیں تو کہیں پہ ماحول کو خراب کہہ کر پکارتے ہیں جو ہماری سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ ماحول کو اللہ نے ہمیشہ پاک و صاف رکھا ہے جو خرابی ہے وہ انسان کی ہے، اگر کہیں پہ معاشرہ بگڑ رہا ہے تو وہ وہاں کے باشندوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی اصلیت اور تربیت کا رنگ ہوتا ہے۔ کہیں پہ ہم رسومات کو ادا کرنے کے بعد یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہر ایک کرتا ہے تو اب ہم اگر نہ کریں تو طعنہ مار دیں گے۔ اصل میں یہی دقیانوسی سوچ ہے۔ اگر ہم معاشرے کے اس خرافات کو اس غلط پن کو جڑ سے اکھاڑ لیتے تو تب ہم جذباتی اور زندہ دل قوم کہلاتے۔ جو انسان جتنا رسومات میں ملوث ہوتا ہے اور رسومات کا پابند ہوتا ہے وہ اتنا جاہل کہلاتا ہے کیونکہ جاہل کو ہی صحیح اور غلط میں تمیز نہیں ہوتی۔ ایک عقلمند اور ذہین انسان دوسروں کی خیر خواہی کے لئے زمین پر رہتا ہے اور وہ دوسروں کے لئے پریشانیوں کا سبب نہیں بنتا۔ یہاں امیر ایک غریب کے لئے دکھ اور پریشانیوں کا سبب ہے۔ ہمارا معاشرہ رسم کی قید میں اس طریقے سے مقید ہے کہ شادی کی عمر بھی چلی جاتی ہے۔
دھوم دھام سے شادی کرنے والے لوگ سوشل میڈیا پہ اس کی تشہیر ایسے کرتے ہیں جیسے انہوں نے فتحِ مبین پائی ہوتی ہے اور یہ شاید بھول جاتے ہیں کہ کتنی آنکھوں میں آنسوؤں کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے۔ کتنے والدین کا دم گھٹ جاتا ہے اُس وقت جب جہالت کا سما ان کی آنکھوں میں رقص کر رہا ہوتا ہے۔ جہاں ایک باپ پر بیٹی کا ہونا بوجھ ہوتا تھا۔ ہم خود کو سکون دینے کے لیے، سماج میں نام کمانے کے لئے اور رسومات کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں تب اس وقت یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم سب سے بڑے جاہل ہیں۔ جاہل صرف لڑائی کرنے والے فرد تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ انسان جاہل ہے جو لوگوں کے لیے مصیبت کھڑا کرے۔ ایک باوقار اور دانشمند انسان ہمیشہ ندامت اور انکساری کی زیست گزار رہا ہوتا ہے اور ہمارے دین کا پیغام بھی یہی ہے کہ نکاح کم خرچے پر ہو۔ جو لوگ اسلام کے طریقے کار پر اپنے معاملات چلاتے ہیں وہ پُرسکون اور خوشحال ہوتے ہیں۔ جہاں پریشانیاں اور امن سے بھرا معاشرہ ان کو مل جاتا۔ وہ اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر ایک پر رحم کرکے سماج کی ان بدعات اور رسومات کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں تاکہ غریب و امیر سب نکاح کے قابل ہو جائیں اور بنا فضولیات کے نکاح کو عام کیا جائے تو اللہ ہماری ساری مشکلات تمام کر دے گا۔ کیونکہ نکاح میں بگاڑ آنے سے نسلیں اور قومیں برباد ہوجاتی ہیں اور پھر آخرت میں ہمارا کیا حال ہوگا وہ ہم خود جانتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ زندگی کو آسان بنا دیا جائے، پھر دوسروں کے دعا ہمارے حق میں ہونگے ورنہ اگر سماج ایسے ہی بوجھ غریب انسان عائد کر دے تو نہ جانے کتنے بددعا منتظر رہتی ہیں۔ لہٰذا دردمندی کا احساس انسان ہونے کے ناطے رکھیں تاکہ نسل انسانیت مسرت کی زندگی گزار سکیں۔