ماسٹر طارق ابراہیم
ذی الحجہ کی عشرہ اول کی مبارک ساعتیں سرعت کے ساتھ گذر رہی ہیں، زندگی کی مسافت برق رفتاری سے طے ہو رہی ہے، کرہ عرض کے یمین و یسار اور نشیب و فراز میں جبرو استداد، ظلم و ستم، اور من مانی کے آتشیں شعلے انسانیت کی قباء کو جھلس رہے ہیں، کہیں ابن آدم نا حق ، قدموں تلے روندا جا رہا ہے تو کہیں آدم کی بیٹی کی عصمت کا دامن تار تار کیا جا رہا ہے۔انا و لا غیری کا روز افزوں مرض خود رو گھاس کی طرح اپنی جڑوں کا جال بن رہا اور بدرو کے پانی کی طرح عفونت کا طوفان بپا کر رہا ہے۔ عقل سے عاری ،محض شکل سے باقی، انسانوں کی تعداد میں ،شب و روز ، قریہ قریہ ،گھر گھر بلکہ قدم قدم، بے پناہ ا ضافہ، ایک لمحہ فکریہ ہے۔طوفان بد تمیزی کے اس عفریت نے نسل آدم کی اکثریت کی سوچ کو مفلوج کر دیا ہے۔انسانی تاریخ میں گاہے گاہے ظلم و طغیاں اور سرکشی و بغاوت نے غیرت الٰہی کو جب جب بھی للکارا تو غضب الٰہی سے بستیوں کی بستیاں صضحہ ہستی سے مٹ گئیں۔کہیں طوفان نوح تو کہیں لشکر ابابیل اور کہیں دریائے نیل، بغاوت کے پرچم کو بلند کرنے والوں کو بے نام و نشاں کر گئے۔کبھی زر کے پجاریوں کو زمین نگل گئی اور حساب تو ابھی باقی ہے۔
جب حالات اسقدر سنگین ہو جایا کرتے ہیں اور باطل کی للکار اتنی مضبوط ہو جایا کرتی ہے تو اسکا مقابلہ تن آسانی، عیاشی اور مفروضوں کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبہ ایثار کی تلواروں سے کیا جاتا ہے۔ظلمت کی ان گھٹا ٹوپ تاریکیوں کو سربکف ہو کر دامے، درمے قدمے سخنے ہر طرح کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور رب کائنات نے ہر دور میں اپنے پیغمبروں کو اسی ذمہ داری کے ساتھ بھیجا۔قربانی کے اس آہنی ارادے نے ان پیغمبروں کو مال و زر کی تمناؤں سے بے نیاز کردیا اور دنیائے دوں کی بے ثباتی اور آخرت کی ابدی زندگی کے تصور نے انہیں نفس امارہ کو کچلنے اور لشکر طاغوت کو مسلنے کا جذبہ عطا کیا اور یہی مردان حر،ہر دور کے طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، رضائے الٰہی کے نگہت آمیز گلستانوں کے وارث ہوئے اور حیات انسانی کا یہی عظیم ترین مقصد بھی ہے۔
ذی الحجہ کے متبرک ایام اور یوم النحر کی سنت ابراہیمی ہمیں غفلت کے تاریخ تہ خانوں سے باہر نکل کر ایک عظیم کردار نبھانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ موجودہ عالمگیر بے راہ روی کے سیلاب کو روکنا ممکن نہیں تا وقتیکہ ہم سنگین ابتلاؤں کے اس دور میں ایک عملی مومن کا کردار نبھائیں اور اس عملی کردار کا نمونہ ہمیں ابراہیم خلیل الرحمان کی سیرت میں ملتا ہے۔عظمت الٰہی کے چراغوں کو اپنی رگ جان کے لہو سے روشن کرنے والے عظیم پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کی حیات طیبہ عہد طفولیت سے لیکر کبر سنی بلکہ زندگی کے آخری ساعتوں تک سنگین آزمائشوں میں گذری۔صنم تراش و صنم فروش آذر کے اس فرزند نے جلاوطنی کی صعوبت، آتش نمرود کی حدت و شدت،اور پھر حضرت ہاجرہ ؑکے بطن سے ، ضعیف العمری میں پیدا ہونے والے صادق الوعد ، عزیز ترین املاک اور سلیم الفطرت لخت جگرکی قربانی پیش کرکے رہتی دنیا تک کے لئے عملی زندگی کا ایک نمونہ چھوڑا۔یہ کمال تھا انکی حکم الٰہی کی بجا آوری کا کہ الله تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کی اطاعت شعاری اور وفاداری کو پسند فرما کر قربانی میں فی الواقع ذبح ہونے کے لئے خلد بریں سے ایک دنبہ بھیجا اور رہتی دنیا تک الله کے وفادار، قربانی میں ایک جانور ذبح کرتے رہیں گے مگر کیا جانور کو ذبح کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے نفس امارہ کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہیں؟
انسانی فطرت کا تنزل تو یہی تاثر دے رہا ہے کہ ہم میں سے لوگوں کی اکثریت کے نزدیک رسم قربانی باقی ہے روح قربانی رخصت ہو چکی ہے۔اس صورتحال کی دل برداشتگی نے علامہ اقبال کو یہ شعر کہنے کے لئے آمادہ کر دیا ؎
یا مسلماں را مدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چناں کن یا چنیں !!
یعنی، اے الله ! یا تو مسلمانوں کو سرفروشی کا حکم مت دےلیکن اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر انکے فرسودہ قالب میں نئ روح پھونک دے۔
قارئین، آج ہمارے پاس کھلے دعاوی اور ریاکاری کے ہتھکنڈوں کے سوا کچھ نہیں۔ہم اپنے معاشرے اور اپنے ضمیر خمیر کے خود شاہد ہیں۔ہمارے قول و فعل میں تضاد اور ہماری رگ رگ میں مادی برتری کے تفوق کا زہر ورود کر چکا ہے۔جذب باہمی اور حقوق کی پاسداری کہاں بلکہ رہبر ہی رہزنوں کے سرغنے بن بیٹھے ہیں۔کسی کو کیا، معاشرے میں ذرا سی حیثیت مل گئ تو آنکھوں میں چاند اتر آتا ہے۔فرعون اور نمرود کی طرح دماغ میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور’’ انا ربکم الاعلی‘‘ کازعم باطل اسکو مردم کشی پے آمادہ کرتا ہے۔حصول سیم وزر، شراب، شباب، رباب اور کباب کی سر مستی اور خرمستی اسکی زندگی کا آئین بن جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قربانی کی اس سنت کی اصل روح کو سمجھا جائے اور قرآن مقدس کو اپنی زندگی کا دستور بنایا جائے کیونکہ یوم جزاء آنے ہی والا ہے۔
رابطہ۔8493990216.