فکرو ادراک
افشانہ فرید
روئے زمین پر سب سے مقدس رشتہ والدین اوراولاد کا ہوتاہے۔رب العالمین نے جہاں بیٹے کو نعمت بنایا ہے وہیں بیٹی کو رحمت بنا کر بھیجا ہے۔مگرافسوس! آج بھی وادیٔ کشمیر کے کئی علاقوں میں مسلم معاشرے میں کچھ روایتی اور دقیانوسی رواج برقرار ہیں،جن کی و جہ سے ہماری بیٹیاں بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔ظاہر ہے کہ بیٹوںکو ہمیشہ والدین کی سرپرستی حاصل رہتی ہے جبکہ دستور دنیا کے لئے بیٹیوںکے مقدر میں اپنے والدین سے جدائی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ہر بیٹی کو بالآخراپنے والدین کے گھرسے رخصت ہونا پڑتا ہےاور ایک نیا گھر بسانا ہوتاہے۔اس لئے ہر والدین پر یہ ذمہ داری لازم ہوتی ہے کہ مقررہ وقت پر سنت ِ نبویؐ کے مطابق اپنی بیٹیوں کا نکاح کروائیں۔چنانچہ ہر والدین کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی جلد از جلد کروائے لیکن اس نیک اور مقدس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ دقیانوسی روایت ’’جہیز ‘‘ بن جاتی ہے،جس کے نتیجہ میں بیشتربیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں اور اُن کے ہاتھ پیلے نہیں ہوپاتے۔ اس طرح بہت سی بیٹیاںشادی سے قبل اور بہت سی بیٹیاں شادی کے بعد رسم رواج اور جہیز کلچر کی سولی پر لٹک جاتی ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جہاں شادی نہ ہونے کے غم میں لڑکیاں اتنا دل برداشتہ ہوتی ہیں کہ خودکشی جیسا اقدام بھی کر بیٹھتی ہیںتو وہیں شادی ہوجانے کے بعد سسرال والوں کے مظالم سے تنگ آکر یہ سخت قدم اٹھاتی ہیں۔ہم سامنے کئی المناک واقعات بھی آئے ہیں،جنہوں نے ہم سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہےاورہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ہم بھی اپنے اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں انسانیت ،انسانی اقدار اور انسانی وجود سے زیادہ مال و دولت کی اہمیت رہ گئی ہے۔ظاہر ہے کہ اسلام میں نکاح کو خوب پسند کیا گیا ہے اور سنت نبوی ؐ کے بتائے ہوئے طریقے سے نکاح کرناسب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے ۔سنت کے مطابق سادگی کے ساتھ ہونے والی شادی اللہ اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ اور کامیاب نکاح ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراد نے نئے نئے رسم و رواج کو جنم دے کر اس مقدس سنت یعنی’’ نکاح‘‘ کو بہت ہی دشوار بنا ڈالا ہے،جس کا سب سے بڑا بُرا عمل جہیز کا ہے۔ ’’جہیز‘‘ ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے، اس لعنت نےبے شماربہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے ،ان کی معصوم آنکھوںمیں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں،ان کی آرزوؤں ، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے ،انہیں ناامیدی ،مایوسی اور اندھیروں کی اُن گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسی قبیح رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور محض اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کی لخت جگر کو قبول کرے۔لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے ہیں ان سے چھٹکارا پانا اب ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ بیشتر والدین ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کے جہیز کی خاطر اپنے گھروں تک کو بھی گروی رکھنے پر مجبور ہورہے ہیںاور پھر قرضہ اُتارنے میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔
شادی ہر لڑکی کا ایک پاکیزہ خواب ہوتا ہے اور جب لڑکی شادی ہوتی ہے تو اُس کے دل میں اَن گنت ارمان،بے شمار خواب اور خواہشات ہوتی ہیں۔ ہر لڑکی اپنے ان خوابوں ،خواہشوں اوراُمیدوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے اور اپنی گھر گرستی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرکے کسی کی بیوی بن جاتی ہے ۔لیکن اُس کے تمام ارمانوں اور اُمیدوں کا خون ہونا اُس وقت شروع ہوجاتا ہے ، جب اسے بہت سارا جہیز نہ لانے کی وجہ سے ستانا جاتا ہے ،اس کے ہر عمل کے بدلے میں اُسے طعنے دئے جاتے ہیں ،ہر کام پر اُسےکوسا جاتا ہے ،ہراساں و پریشان کیا جاتا ہے ،گالیاں دی جاتی ہیں ،طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں،یہاں تک کی اُس کی مار پیٹ بھی کی جاتی ہے تو اُس کے وہ تمام خواب چکنا چور ہوجاتے ہیںجو اُس نے شادی ہونے سے قبل دیکھے ہوتے ہیں۔چنانچہ عورت ہونے کے ناطے وہ ہر ظلم سہتی رہتی ہے اور ہر ستم برداشت کرتی رہتی ہے اور جب اُس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اوراس کی قوت ٹوٹ جاتی ہے تو وہ جذباتی ہونے کے باوصف ان مظالم کا تذکرہ اپنے والدین اور رشتہ داروں سے کرنا تک مناسب نہیں سمجھتی ہے تاکہ اُن کی پریشانیوں میں اضافہ نہ ہوجائےکیونکہ بیٹیاں ازل سے ہی بہت جذباتی ہوتی ہے اور وہ اپنے دکھ کا سامنا خود کرنا چاہتی ہے لیکن جب مظالم کی انتہا ہوجاتی ہے تو اس کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ اپنے آپ یعنی اپنے وجود کو ہی مٹانے میں خیر سمجھتی ہےاور خود کشی کر بیٹھتی ہے۔
جہیز کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جاسکتے۔حکومت کو چاہئے کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے جس میں جہیز لینے اوردینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے گا، اسے جیل و بھاری جرمانے کی سزا ٖیں دی جائیں تاکہ اس لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے اور اس میں دینی تنظیموں کا عمل دخل لازمی قرار دیا جائے۔
لہٰذا ہمارے معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ سب یک جُٹ ہوکر جہیز جیسی لعنت کے خلاف قدم اٹھائیں ۔اگر ہم سب یہ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ہمیںچاہئے کہ یہاں کے دانشور اور قلم کار ہی اپنے قلم سے اس جہیز کے خلاف لکھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں ۔ہماری اس کوشش سے ہوسکتا ہے کہ شاید اس معاشرے میں تھوڑا سا بدلائو آجائے کیونکہ ہم اگر اپنی تاریخ پڑھتے ہیں تو بخوبی دیکھ سکتے ہیںکہ سرسید احمد خان اورڈاکٹر اقبال سمیت کئی دانشوروں نے اپنی قلم نوک سے قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کام کیا ہے اور قلم کے استعمال سے ہی ان میں بُرے اور بھلے کی پہچان کروائی اور اس طرح انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی و کامرانی حاصل کرلی ہے۔ اس لئے میں چاہتی ہوں کہ معاشرے کے قلم کار اپنے قلم کے سہارے جہیز کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں تاکہ ہم اپنی ستم زدہ بہنوں اور بیٹیوں کی کچھ نہ کچھ مدد کرسکیں اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم سے اُنہیں نجات دلانے میں اپنا فرض نبھائیں۔اپنی ان بیٹیوں اور بہنوں کی بھی مدد کریںسکیں جو جہیز نہ ہونےکے سبب تکالیف اور مظالم برداشت کررہی ہیں۔
ایک اور بات کہ معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے میں والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا چاہئے ،انہیں عہد کرنا چاہئے کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے ۔لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیر اسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں،جن کی وجہ سے معاشرے میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ غریبوں کے لئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور بیشتر لڑکیاں بدعات کے ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔جہیز کی لین دین غیر اسلامی ہے ، اس گھناؤنی غیر اسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دیں اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کریں۔