کشمیر میں اسلام اکثریتی مذہب ہے جہاں زمانہ قدیم سے اسلام کے مختلف فرقوں کے درمیان ایک ایسی ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے جو قابل تحسین ہے ۔جہاں یہ ہم آہنگی ایک حقیقت ہے وہی حالیہ برسوں میں یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ مختلف مذہبی مجالس میں کہیں کہیں فرقوں کے مابین تفرقہ اندازی کے انداز اپنائے جا رہے ہیں جن کی عکاسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پہ بھی ہوتی رہتی ہیں ۔اِس رحجان کو گرچہ خطر ناک نہیں کہا جا سکتا ہے چونکہ اِس کا دائرہ محدود ہے لیکن کہیں نہ کہیں اُسے خطرے کی گھنٹی کہا جا سکتا ہے جس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا چاہیے اور سماجی سطح پہ اُس کا سدباب کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز ہونا چاہیے تاکہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی بر قرار رہے جس کیلئے کشمیر مانا اور جانا جاتا ہے۔
مذاہب میں مسالک اور فرقوں کا ہونا ایک ایسی تاریخی روایت ہے جسے دنیا مانتی بھی رہی ہے اور جسے مہذب انداز سے برداشت بھی کیا جا تا ہے۔ نصرانیوں کے مذہب میں جہاں پاپائے روم کا فرقہ ایک قدیمی حثیت رکھتا ہے وہی زمانہ بعدی میں پروٹسٹنٹ فرقہ انگلستان میں وجود میں آیا۔اتفاقاََ انگلستان میں ایک الگ کلیسا کا وجود خالص سیاسی تھا ۔ ایک الگ کلیسا کے وجود کی وجہ شاہ انگلستان ہنری ہشتم (VIII) کی ملکہ این بولین سے شادی تھی جسے پاپائے روم نے رسمیت بخشنے سے انکار کیا۔ ہنری ہشتم (VIII) نے شاہی جلال میں آ کر چرچ آف انگلینڈ قائم کیا جو پاپائے روم کے تابع نہیں رہا۔ یہ تاریخی واقعہ اِس حقیقت کا گواہ ہے کہ مذہبی فرقہ واریت کی وجہ کہیں نہ کہیں سیاسی اختلاف بھی ہے۔بگذشت زماں جہاں چرچ آف روم میں قدامت پرستی پائی جاتی ہے وہی چرچ آف انگلینڈ میں جدید تصورات پنپنے کی زیادہ گنجائش ہے ۔عیسائیت کی مانند یہودیوں میں بھی فرقے پائے جاتے ہیںمثلاََ قدامت پرست،محافظ کار و ریفارم یعنی اصلاحی تحریک! اِن تین یہودی فرقوں میں یہودی قوانین ،مذہبی پیشواؤں کی روایات اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے چناچہ یہاں بھی کہیں نہ کہیں سیاسی اختلافات سے فرقے وجود میں آئے۔اسلام میںدو بڑے فرقوں میں سنی و شیعہ اور اِن دو بڑے فرقوں کی بیچوں بیچ کئی چھوٹے فرقے ہیں۔یہ فرقے کیسے وجود میں آئے اِس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔مذہبی وجوہات جو بھی رہی ہوں تاریخ اسلام میں بھی کئی تاریخی موڑ آئے ۔یہ تاریخی موڑ کیسے وجود میں آئے اُس پہ بحث ایک مختصر مقالے میں نہیں سما سکتی۔
ابراہیمی مذاہب: عیسایت، یہودیت واسلام میں فرقے بننے کی جو بھی وجہ رہی ہو،اِن مذاہب کا ایک ہی ریشہ ہے اور اہل کتاب کے اِن تینوں مذاہب کا ریشہ سیدنا ابراہیم ؑ سے ملتا ہے، لہٰذا اِن تینوں مذہب میں تفاہم وتوافق کی کافی گنجائش ہے اور اِسی مناسبت سے اِن مذاہب میں جو فرقے ہیں اُن میں بھی افہام و تفاہم کی کافی گنجائش ہے۔ دین اسلام میں فرقوں کے مابین افہام و تفاہم مختلف تاریخی ادوار میں بنا رہا البتہ پچھلی کئی دہائیوں سے اختلافات پیدا ہوئے ہیں جن کی وجہ سیاسی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی اختلافات نے فرقہ وارانہ رنگت اختیار کی ہے جو عالم اسلام کو گھیرے ہوئے ہے ۔اِس کے اثرات دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلم سماج پہ پڑنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔اِن حالات کے پس منظر میں کشمیر نے کم و بیش اپنی فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو بنائے رکھا ہے، گر چہ کہیں کہیں ناگوار اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ اِس سے پہلے یہ نا گوار اثرات کشمیر کے مسلم سماج کو گھیر لیں ہمیں ہر وہ انداز اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمیں افہام و تفہیم کی راہرو پہ گامزن رکھے۔ خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں عالم اسلام میں ایسی مثبت کوششوں کا آغاز ہو چکاہے جس سے امت مسلمہ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔اِن میں سب سے درخشاں کوشش کا آغاز عمان،اردن میں ہوا جو رسالہ (ڈکلریشن) کی شکل میں منظر عام پہ آیا۔رسالہ عربی میں خط کو اور اعلانیہ کو بھی کہتے ہیں۔
رسا لۂ عمان کی شروعات ایک اعلانیہ کی تشہیر سے شروع ہوئی جو کہ 9نومبر 2004ء بمطابق 27رمضان1425ھ کے روز شائع ہوا۔اِس کی ابتدا شاہ اردن عبداللہ دوم ابن الحسین کے اِس سوالیہ سے ہوئی جو اُنہوں نے متعدد علمائے اسلام کو ارسال کیاجس کا مدعا ومقصد یہ تھا کہ یہ مشخص ہو جائے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے اور یہ کونسی حرکات کا حامل ہے اور کونسی حرکات کا نہیں اور اِس کاہدف یہ تھا کہ عصر حاضر پہ واضح ہو جائے کہ اسلام کی اصلیت کیا ہے اصلیت میں اسلام کیا ہے۔اپنے اعلانیہ کو دینی زمین فراہم کرنے کیلئے شاہ عبداللہ نے مندرجہ ذیل سوالات 24معتبر علما کو بھیجے جو کہ پوری دنیا میں مختلف مدارس فقہ ہای اسلامی کے مقتدر نمائندے ہیں:
(۱)مسلمان کون ہے؟
(۲) کیا کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے؟
(۳) فتویٰ صادر کرنے کااختیار کس کا بنتا ہے؟
مقتدر علما کی رائے کی بنیاد پہ جن میں تین عظیم علما شیخ الازہر ،آیت اللہ سیستانی و شیخ قاراداوی شامل تھے شاہ عبداللہ دوم نے دنیا کے 50 ممالک کے 200برگذیدہ اسلامی اسکالروں کا اجتماع جولائی 2005ء کو عمان میں منعقد کیا ۔ عمان میں اِن مقتدر علما نے تین بنیادی نکات پہ مبنی رسالہ عمان کا اجرا عمل میں لایا جو بشرح زیر ہیں:
(۱)جو اشخاص بھی اسلامی فقہ کے چار سنی مدارس(مذاہب: حنفی،مالکی،شافی و حنبلی) و اسلامی فقہ کے دو شیعہ مدارس (جعفری و زیدی)و اسلامی فقہ کے عبادی مدرسہ و اسلامی فقہ کے طاہری مدرسہ کی تقلید کرتے ہوں، مسلمان ہیں۔اِن اشخاص کو کافر کہنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ اُس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔بے شک اُس کا خون،اُس کی عزت اور اُس کی جائداد چاہے مرد ہو یا زن قابل رخنہ اندازی نہیں۔شیخ الازہری کے فتوے کے مطابق نہ صرف یہ ناممکن ہے بلکہ اِس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے کہ جو بھی اشعری تقلید کا یااصلی تصوف (صوفیت) پہ عمل پیرا ہو اُس کو کافر نہیں کہا جا سکتا ۔بالکل اِسی طرح سلفی طرز فکر کے افراد کوکافر کہنا نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ اُس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
(۲) فقہ ہائے اسلامی کی تعریف کے بعد تکفیر یعنی بین المسلمین کسی کو کافر قرار دینا ممنوع قرار دیا گیا۔
(۳)مذاہب (مدارس متفرقہ) کی بنیاد پہ فتو یٰ صادر کرنے کیلئے پیشگی اصولی و نظریاتی شرائط کا تعین الزامی ہے تا کہ جہالت و لا علمی کو منظر عام پہ لایا جائے جن کی بنیاد پہ اسلام کے نام پہ فتوے صادر ہوتے ہیں۔
رسا لہ عمان میںایک تین نکاتی اعلانیہ بھی شامل ہے جو بشرح زیرہے:
(۱) کسی بھی ایسے گروہ کو کفر کے زمرے میں لانا نہ ممکن ہے نہ اُس کی اجازت دی جا سکتی ہے جو اللہ تبارک تعالے پہ اُن کے مقرر کردہ پیغمبر ؐ پہ اور اراکین دین پہ جو پانچ ستونوں پہ مشتمل ہے، اعتقاد رکھتے ہوں اور دین کے عیاں اصولوں سے منحرف نہ ہوں۔
(۲)اسلامی فقہ کے مختلف مدارس میں موافقت اختلاف سے کہیں زیادہ ہے۔آٹھ مدارس کے پیرو کار فقہ اسلامی کے بنیادی اصولوں پہ موافق ہیں ۔سب ہی اللہ تبارک تعالیٰ پہ اعتقاد رکھتے ہیں۔قران شریف کو کلامِ خداوندی مانتے ہیں اور اِس پہ بھی اعتقاد قائم ہے کہ ہمارے معلم حضرت محمدؐ منجملہ انسانیت کیلئے پیغمبر و رسول مقرر کئے گئے۔پانچ اراکین اسلام پہ سب ہی موافق ہیں جن سے اعتقاد کی تصدیق ہوتی ہے کلمہ شہادت و صلات اور اضافہ بریں زکواۃ، صیام وحج بیت اللہ اور سب ہی اعتقاد کی بنیادوں پہ یقین رکھتے ہیں جن میں اللہ تعالے پہ،ذات حق کے فرشتوں پہ،مقدس کتابوں پہ، مقرر شدہ پیغمبروں پہ،آخرت پہ، نیکی و بدی کے ضمن میں ذات حق کی فہم و فراست پہ یقین بھی شامل ہے۔فقہ اسلامی کے آٹھ مدارس کے علما میں اختلاف مسائل اصولی پہ نہیں بلکہ مسائل فروی پہ ہے جسے عرصہ دراز سے ایک اچھی روایت مانا گیا ہے۔
(۳) بجزاعتقاد بہ مدارس فقہ ہای اسلامی (مذاہب) جو اسلام کے دائرہ کار میں ہیں اور بجز اُن اشخاص کے کہ جو فتو یٰ صادر کرنے میں بنیادی طریقہ کار پہ یقین رکھتے ہوںکوئی بھی شخص بغیر مطلوبہ سندکے جس کا تعین متعلقہ مدرسہ ہی کرنے کا مجاز ہے اور بنیادی طریقہ کار پہ یقین رکھے بغیر فتویٰ صادر کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔کوئی بھی اجتہاد کامل کے دعوے کا مجاز نہیں نہ ہی کوئی نئے مدرسہ فقہ اسلامی کے تعین کا اور نہ ہی کوئی نا قابل قبول فتویٰ صادر کرنے کا مجاز ہوگا جو کہ امت مسلمہ کو شریعت کے اُن اصولوں و حقائق سے سر گرداں کرنے کا سبب بنے جو کہ مدارس فقہ ہای اسلامی میں مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔
رسالہ عمان کے تین نکات کے رسمی اعلانیہ کے بعد اِس اعلانیہ کی متفقہ تصدیق اسلامی دنیا کے سیاسی و مذہبی رہبران نے بھی کی جو کہ دسمبر 2005ء میں مکہ مکرمہ میں ایک کانفرنس کے دوران موجود تھے اور اُس کے بعد ایک سال کے عرصے کے اندر یعنی جب سے اس کی شروعات جولائی 2005ء میں عمان میں ہوئی جولائی 2006ء تک اُس اعلانیہ کو چھ اور بین الاقوامی اسلامی اسکالروں کے اجتماعات کی تائید حاصل ہوئی جس کا اختتام جدہ کی عالمی اسلامی فقہ اکیڈمی کے اجتماع میں ہوا ،یہ جولائی 2006ء میں 500 مقتدر علمائے عالم اسلام کی موجودگی میں انجام پذیر ہوا۔
درجہ ذیل مقتدر علما نے جن کا تعلق مختلف فرقوں سے ہے رسالۂ عمان کی تائیدمیں فتویٰ صادر کیا:
(۱)محمد سعید طنطناوی ۔۔مصر۔۔امام اعظم جامعہ الازہر۔۔۔(شافی)
(۲) علی گوما ۔۔۔۔۔مصر۔۔مفتی اعظم مصر۔۔۔۔۔۔۔(شافی)
(۳)علی بردا کوگلو۔۔ترکی۔۔صدر کونسل اعلی امور مذہبی۔(حنفی)
(۴) احمد کفتارو۔۔شام۔۔مفتی اعظم شام۔۔۔۔۔۔۔(شافی)
(۵) سیدعبد الحفیظ الحجاوی۔۔مفتی اعظم اردن۔۔۔۔۔(شافی)
(۶) یوسف الکاراداوی۔۔مدیر سنت و سیرت کونسل قطار(حنفی)
(۷)عبداللہ بن بیا۔۔نائب مدیر کونسل بین الملی دانشوراں اسلامی (سعودی۔مالکی)
(۸)محمد تقی عثمانی۔۔نائب صدر اسلامی فقہ اکیڈمی۔۔۔ (پاکستان۔حنفی)
(۹) عبداللہ الہراری۔۔بنیاد گذار الحباش لبنان۔۔۔۔۔(شافی)
(۱۰) علی حسینی خامنہ ای۔۔رہبر اعلیٰ جمہوریہ اسلامی ایران۔(جعفری)
(۱۱) علی حسینی سیستانی۔۔۔آیت العظمی عراقی۔۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۲) محمد سعد الحکیم۔۔۔ آیت العظمی عراقی۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۳) محمد اسحاق الفیاد۔آیت العظمی عراقی۔۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۴)بشیر حسین نجفی۔آیت العظمی عراقی۔۔۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۵)حسن اسماعیل الصدر۔آیت العظمی عراقی۔۔۔۔۔۔(جعفری)
ّ(۱۶)فضل لنکارنی۔آیت العظمی ایرانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۷) محمد علی التسخیری۔آیت العظمی ایرانی۔۔۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۸) محمد حسین فضل اللہ۔آیت العظمی لبنانی۔۔۔۔۔۔۔(جعفری)
(۱۹) محمد بن محمد اسماعیل المنصور۔۔شیخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(زیدی)
(۲۰) حمود بن عباس الموید۔۔۔شیخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(زیدی)
(۲۱)ابراہیم بن محمدالوزیر۔۔جنرل سیکرٹری اتحاد المسلمین۔۔(یمنی۔ زیدی)
(۲۲) احمد بن حمادالخلیل۔۔مفتی اعظم عمان۔۔۔۔۔۔۔(عبادی)
(۲۳)کریم الحسینی۔۔۔۔آغا خان امام اسماعیلی۔۔۔۔(اسماعیلی)
جس اعلانیہ کی ان سارے جید علماء نے تائید وتصدیق کی ہے، اُس کی تشہیر اور عمل درآمد ہم سب پہ فرض بن جاتی ہے۔اللہ تبارک تعالے ہم سب کو اُس پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
……….
Feedback on<[email protected]>