رحمٰن کا راستہ

Kashmir Uzma News Desk
8 Min Read
 بنی نوع انسان نے تاریخ عالم کے مطالعے ،عقلی مشاہدے ،عملی تجربے اور لیل و نہار کی آمد و رفت سے یہ بات اچھی طرح سے جان لی ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی صحیح رہبری اور سچی رہنمائی دین سے ہی ہوتی رہی ہے ۔دین ______ ______راستہ ،رہبری ،رہنمائی ،لائحہ ،اصول اور طریق زندگی کو کہتے ہیں ۔ہم ہر ایک دنیاوی کام ایک طریقے ،ایک لگے بندھے ضابطے کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور اُس کے لئے ایک آئین یا ایک اصول عمل داری مرتب کرتے ہیں اور اُسی کے مطابق عمل کرنے سے ہمارے مختلف کام پایہ تکمیل تک پہنچ پاتے ہیں اور وہی مطلوبہ کارہائے زندگی اگر بے ڈھنگے پن اور بے ربط طریقے سے کئے جائیں تو ظاہر ہے کہ کامیابی کی توقع رکھنا خیال عبث ہے ۔اسی طرح اگر حیات انسانی ایک دینی مذہبی قانون اور ضابطے کے تحت رواں دواں نہ رہے تو وہ پھر انسانی برادری یا انسانی سماج نہیں رہے گا بلکہ وہ بے راہ روغیر متمدن انسانوں کا ایک سماج بنے گا،  جہاں ہر ایک کا اپنا طریقہ اور زندگی گزارنے کا ایک اپنا اصول ہوگا۔ایسے سماج میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصول چلتا ہے اور ایسا ہی بے اصول سماج حیوانوں جیسی بستی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہاں جنگل کا قانون نافذ ہوجاتا ہے ۔
اب اگر یہ اصل اصول ضابطہ یا آئین انسان بناتا ہے تو اس کی اپنی فطری کمزوریوں اور بشریت کی طرح اس میں بھی سُقم اور کمزوریاں ہونا ایک لازمی بات ہے ،اس کے برعکس اگر گروہی ضابطہ یا دین اللہ کی جانب سے ہوگا تو بلا شبہ پائیدار ،کامیاب ،مکمل اور بے عیب ہوگا۔انسانی آنکھ نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جو دین اور دھرم ،دیوی اور دیوتا ،مذاہب اور ادیان انسانوں نے خود تخلیق کئے تھے اُن کا حشر وقت وقت پر کیا ہوا۔اور آگے بھی اگر ایسی کوئی حرکت روبہ عمل لانے کی جسارت کی جائے گی تو وہ بھی اسی انجام کا سامنا کرے گی اور اُن لوگوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو جھوٹے مدعیان اور خود ساختہ ادیان کا ہوچکا ہے ۔ گذشتہ ازمنہ کی تاریخ انسانی کے کچھ صفحات پلٹ کر دیکھنے سے ہمیں کہیں یونانی دیومالائی قصے (عقل سے بعید)نظر آتے ہیں تو کہیں ہندو مت کی محیرالعقول داستانیں ملتی ہیں ۔یونانی دیو مالا میں ایک طرف زیوسؔ دیوتا، جو دیوتائوں کا باپ کہلاتا تھا ،سامنے آتا ہے تو دوسری طرف آرٹیمسؔ دیوی کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ ایک طرف ہیلیس ؔہے تو دوسری طرف مردوکؔ ہے دیگر دیومالائوں میں دانا سُرؔ ہیں جو دیوتائوں کے ہی دشمن ہیں اور تمام مظاہر قدرت الگ الگ دیوتائوں کے چارج میں ہیں ۔نیکی اور بدی کے توام خدا یزدجرؔ اور آہرمنؔ اپنے آسن الگ جمائے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں ۔کبھی انسان خدا کو خود تراشتا ہے اور کبھی خود خدا بن بیٹھتا ہے ۔انسان کا بنایا ہوا خدا کبھی ہمیں جٹا دھاری سادھو کے روپ میںتو کبھی ہاتھی کی شکل میں نظر آتا ہے ،کبھی جواں مرد کے روپ میں تو کبھی خوش شکل عورت کی وضع و قطع میں۔شمال میں خدا اگر خوش پوش و خوش شکل ہے مگر وہی خدا (نعوذ باللہ اول و آخر)جنوب میں کالا بھجنگ ہو جاتا ہے ۔اس تفریق کی وجہ کوئی سمجھے نہ سمجھے مگر راقم الحمداللہ یہ راز بخوبی جانتا ہے مگر کہہ نہیں پائوں گا کیونکہ    ؎  
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں   
اکبر الہ آبادی
ایک طرف آذرؔ بُت تراشتا ہے تو دوسری طرف نمرودؔ خدائی کا دعویٰ ٹھونک دیتا ہے ۔ایک دور میں فرعونؔ خود کو پُجواتا ہے تو دوسرے دور میں سکندرؔ بھی اپنے آپ کو دیوتا نامزد کرتا ہے ۔ایک پتھروں ،تھانوں ،مورتیوںسے اپنی حاجت روائی چاہتا ہے اور دوسرا چاند ،سورج اور ستاروں سے ایسا ہی مطالبہ کرتا ہے ۔ایک چند بنی نوع انسانوں کی لکھی ہوئی کتاب کو مجسم روح و حیات قرار دے کر اسے صاحب پکار کر اس کے سامنے عبادت کی غرض سے سر بسجود ہوتا ہے اور دوسرا اس سائنس و ٹیکنالوجی کے حیران کن دور میں ،خود تجربات کرکے عقلی دلائل کا بذات خود مشاہدہ کرکے بھی انسانوں کے ہی مرقدوں کے دروازوں،کھڑکیوں اور کتبوں پر منت کے دھاگے باندھ باندھ کر خدائی سٹیلایٹ سے تار جوڑنے کی ایک مضحکانہ سعیٔ لاحاصل کرتا ہے ۔معلوم ہونا چاہئے کہ حضور صلعم کی بعثت کے زمانے میں جبکہ لگ بھگ تمام دنیا بالعموم اور دنیا ئے عرب بالخصوص جہالت اور فاسد اعتقادات کے بحر ظلمات میں ڈوب چکا تھا ،اُس وقت بلاد عرب کی بھی یہی حالت تھی کہ جیسے بقول حضرت مولانا حالی علیہ الرحمہ   ؎
قبیلے قبیلے کا بُت اک جُدا تھا 
کسی کاہُبل تھا کسی کا صفا تھا 
یہ عزیٰؔ پہ  وہ نائلہؔ پہ  فدا تھا 
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا 
غرض یہ کہ جھوٹے دعوئوں اور فاسد اعتقادات میں بقاء نہیں ہوتی ۔اگر ثبات و پائیداری ہے تو وہ صرف اللہ کی ہے ۔اللہ کے رستے کی ہے ،اللہ کے لائحہ یا بہ الفاظ دیگر اسلامی طور طریقے کی ہے جو سادہ اور دل نشین ہے ۔آسانی سے سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ایک معمولی سوجھ بوجھ کا شخص بھی انہیں تسلیم کرنے پر آسانی سے تیار ہوجاتا ہے ۔اسلام کی تعلیمات اور طور طریقوں میں نہ فلسفی گتھیاں ہیں ،نہ عقلی اور قیاسی دوڑ دھوپ ہے ،نہ الف لیلوی قصے کہانیاں ہیں اور نہ یونانی یا ہندئوی دیو مالائی محیر العقول باتیں ہیں ۔ان تعلیمات میں نہ فرضی داستانیں ہیں اور نہ حیران کن پرستانوں کے قصے ہیں ۔چند نہایت صاف اور سیدھے اصول ہیں جنہیں عقل ِانسانی بخوشی قبول کرتی ہے ۔
اسلامی عقائد کی خوبی یہ بھی ہے کہ ہر چیز نہایت قطعی اور ہر بات صاف ہے ۔ نہ کوئی مفروضات یا قیاسات ہیں اور نہ کوئی شک و شبہ یا اُلجھن ہے ۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک اُسی دین میں بقاء ،ثبات ،فلاح و بہبود اور دوسری دنیا کی کامیابی و سر خ روئی ہے ،جو صاف و شفاف اور اکمل ہے اور خود رب ِ کائنات کا مقررکردہ ہے ۔چنانچہ خود ہی اعلان فرمایا ہے :
ورضیت لکم الاسلام دینا ۔
 اور میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین پسند کیا۔
……………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
 موبائل نمبر:-9419475995 

 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *