غورطلب
سید مصطفیٰ احمد
جب اُداسی کے بادل کسی انسان کی زندگی کو گھیر لیتے ہیں تو صرف رجائیت (Optimism) ہی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے پر آمادہ کرتی ہے، یہ امید دلاتی ہے کہ مستقبل مختلف ہوگا۔ آخر رجائیت ہے کیا؟ رجائیت کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کے تاریک پہلوؤں کے بجائے روشن پہلو پر نگاہ رکھی جائے، چاہے زیادہ تر حالات ناامیدی سے بھرے ہوں۔ رجائیت دراصل ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کا ہتھیار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ایک مضبوط مقصد اور واضح منزل ہوتی ہے۔ وہ اس منزل کے حصول کے لیے پُرعزم ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کو جیسا ہے، ویسا ہی قبول کر لیتے ہیں۔ مشکل صورت حال میں بھی وہ گھبراتے نہیں بلکہ استقامت کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ زندگی نشیب و فراز سے بھری ہوئی ایک عارضی زندگی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کوئی انسان کیسے رجائیت کو اختیار کر سکتا ہے؟ اگر کوئی انسان ہر حالت میں رجائیت پسند بننا چاہتا ہے، تو اس کے لیے کیا طریقے ہیں؟
سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ زندگی کی تخلیق کے مقصد کو سمجھا جائے۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ مختلف طرح کے لوگ کیوں پائے جاتے ہیں؟ دکھ اور خوشیاں کیوں ہیں؟ زندگی اور موت کے اس چکر کی حقیقت کیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات رجائیت کو اپنانے میں بڑی مدد دیتے ہیں۔ اکثر لوگ اس وقت ناامیدی میں گِر پڑتے ہیں ،جب ان کی دنیاوی خواہشیںپوری نہیں ہوتیں۔ ان کی زندگیوں میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے وہ پُر نہیں کر پاتے۔ لیکن جب زندگی کے اصل مقصد کو جان لیا جائے تو انسان کو حقیقت حال کا ادراک ہو جاتا ہے۔ پھر وہ نہ دکھ سے ڈرتا ہے، نہ موت سے، نہ حادثات سے اور نہ دنیاوی نقصانات سے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی تخلیقی اسکیم کا حصہ ہے، میرے ذاتی ارتقاء اور شخصیت کی تعمیر کے لیے ہے۔ یہ چیزیں مجھے توڑنے کے لیے نہیں بلکہ بنانے کے لیے ہیں۔ اس ذہنیت کا حامل شخص ہی حقیقی رجائیت پسند کہلاتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو رجائیت حاصل کر کے کامیاب ہوتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تمام کائنات ایک دن اختتام پذیر ہوگی۔ یہ ایک خاص مقصد کے لیے بنائی گئی۔ جب وہ مقصد مکمل ہو جائے گا تو نئی کائناتیں وجود میں آئیں گی، جہاں موجودہ حالات نہیں ہوں گے۔ جب انسان کے ذہن میں یہ حقیقت آجائے کہ دنیاوی چیزیں ہمیشہ باقی نہیں رہنے والی ہیں، تو پھر وہ کبھی افسردہ نہیں ہوتا۔ ہم پر جو کچھ عطا ہوا ہے، یہ سب خدا کی امانت ہے۔ ایک دن ہمیں یہ سب واپس کرنا ہے۔ کائنات اور اس کی ہر شئے خدا کی ملکیت ہے۔ ہم یہاں محض چند دنوں کے مسافر ہیں اور جب یہ دن پورے ہو جائیں گے تو ہمیں واپس بلایا جائے گا۔ پھر ہمارے مال و اسباب یہیں رہ جائیں گے یا فنا ہوجائیں گے یا دوسروں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ جب یہ حقیقت سامنے ہو تو انسان کو اس میں افسردگی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اگر خدا یا دنیاوی لوگ کچھ ہم سے چھین کر لے جاتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ انسان کی خواہشات کم ہوں۔ سقراط نے کہا تھا کہ قناعت سب سے بڑی دولت ہے۔ اگر انسان کی خواہشات کم ہوں اور قناعت زیادہ تو وہ رجائیت کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ وہ اپنی حالت پر مطمئن رہتا ہے۔ اگر اس کے پاس موجود چیزیں چھن بھی جائیں تو وہ رنجیدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ سوچتا ہے کہ یہ چیزیں ہمارے پاس بطور امانت تھیں۔ جب وقت آتا ہے تو مالک اپنی امانت واپس لے لیتا ہےاور ہماری ذمہ
داری صرف اتنی ہے کہ ہم دیانت دار رہیں۔ یہ سوچ بھی رجائیت کے راستے کو ہموار کرتی ہے۔ جب کوئی خواہشات سے آزاد ہو اور جو کچھ میسر ہے اس پر قناعت کرے، تو وہ لازماً رجائیت پسند انسان بن جاتا ہے۔ اس کے نزدیک محلات، حسین چہرے، رنگین لباس اور دیگر دنیاوی اشیاء محض ضرورت کی چیزیں ہیں، اہمیت کی حامل نہیں۔ اگر نہ بھی ملیں تو بھی وہ ان کی کمی محسوس نہیں کرتا۔
چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی ہے۔ اس دنیا کا نقصان دراصل آخرت کا نفع ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والا انسان دنیاوی نقصان کو دل سے قبول کرتا ہے۔ کچھ چھن جانے پر اس کے چہرے پر ناگواری کی جھلک تک نظر نہیں آتی۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ آخرت کی زندگی اس دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ دنیاوی غم و اندوہ ختم ہو جائیں گے اور حقیقی خوشیاں وہاں ملیں گی۔ یہ یقین ایک انسان کو وہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہر تاریکی کے آخر میں روشنی دیکھ سکے۔
مختصر یہ کہ رجائیت دراصل ایک خدا مرکز زندگی گزارنے والوں کا وصف ہے۔ یہ لوگ خدا کی تخلیق کے منصوبے سے واقف ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو منفی سرگرمیوں میں ضائع نہیں کرتے۔ ہر منفی صورتِ حال میں مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں۔ وہ اپنی عقل، دل اور روح کو یکجا کر کے سوچتے ہیں۔ وہ حقیقتوں پر غور اور خود احتسابی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو زندگی کے میدان میں فاتح قرار پاتے ہیں۔
[email protected]>