! ربّ کی محبت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں | قوانین ِ الٰہی کے تحت زندگی گذارنا افضل ہے

Towseef
8 Min Read

فہم وفراست

حمیرا فاروق

نظام کائنات کو قدرت نے بڑے ہی دلکش انداز میں بنا دیااور اس کے اندر بارہاں قسم کے مخلوقات تخلیق کیے۔ ان کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ۔ نہ ایسا ہے کہ دنیا میں ہر انسان یکساں ہے بلکہ ہر قسم کے لوگ یہاں موجود ہیں ۔ مومن ، منافق ، چغل خور ،بدکردار اور کافر غرض قسم وار لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان سب میں اگردیکھا جائے تو مومن کی زندگی بہت آسان ہیں ۔ نہ وہ دولت کا بھوکا ہوتا ہے اور ہی نہ حسن کا شیدائی ، نہ حوس پرست اور نہ لالچ کا سمندر ، نہ دنیا اس کو بہاتی ہے اور نہ ہی آخرت کو بھلا دیتا ہے ۔دنیا کی عارضی رنگا رنگیوں سے اس کا دل وسوسوں میں بہک نہیں جاتا،بلکہ وہ حقیقت سے واقف ہوتا ہے ۔نہ اس کو عزت و ذلت کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کی فرمائش کرتا ہے بلکہ وہ توکل ذات پہ رکھتا ہے ۔جس کے ہاتھ میں عزت و ذلت کا سارا سامان ہے جو قادر مطلق ہیں۔ اس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے اس چیز کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنے فرائض کو انجام دیتا چلا جاتا ہے ،چاہے وہ حقوق اللہ یا حقوق العباد ،ان کی پامالی میں ذرا برابر بھی گنجائش نہیں کرتا ۔نہ ہی وہ عجلت سے کام لیتا ہے اور نہ ہی وہ جہالت کرتا ہے ۔اپنے گناہوں پر شرمندہ اور مستقبل کی بہتری کے لیے سوچتا ہے ۔وہ ہر وقت رب کی فرمانبرداری کو اپنا اولین حق قرار دیتا ہے۔

انسان بلا ہی کتنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا مارا ہوا ہو ،کبھی بھی رب سے نا امید نہیں ہونا چاہیے ۔ عموما ہر کمزور ایمان والے انسان کے ساتھ پیش آتا ہے کہ جب جب اس کو آزمائش آتی ہے تو بہک جاتا ہے کہیں نہ کہیں ۔جب کہ وہ دعا کرتا ہے لیکن بہت دیر تک ان دعاؤں کا جواب نہیں آتا ہے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور اس کو ایسا لگتا ہے جیسے بے سہارا بے فضول اور ہر چیز سے اس کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے ۔وہ غیروں کے در پہ دست سوال دراز کر دیتا ہے قبروں پہ سجدہ اور پیر فقیروں کے پاس جا کر ان سے مدد طلب کرتا ہے جو کہ خود محتاج ہیں۔ یقین کی راہوں میں مانوس بننے کے بجائے مایوسی میں قدم رکھ کر ایک ایسے دلدل میں پھس جاتا ہے جو اس کو راستے میں ہی ہلاک کر کے چھوڑ دیتا ہے۔لیکن مومن کی زیست اس سے بالکل مستثنیٰ ہے ۔ وہ باطل چیزوں کی بالکل تکذیب کرتا ہے ۔کیونکہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات سما چکی ہوتی ہے کہ رب نے تحریرا ہمیں لکھ دیا جو کہ قران مجید میں واضح ہے کہ میں تجھے بھولنے والا نہیں ہوں، میں تجھ کو بھی چھوڑنے والا نہیں ہوں میں تمہاری ہر ہر پکار پہ لبیک کر لیتا ہوں ۔تحریراً لکھنا خاص ہونے کی علامت ہے اور واقعی ہم اُمت خاص ہیں۔ جب ایک انسان بے سہارا ہو جاتا ہے تب بس رب کا سہارا باقی رہتا ہے ۔انسان کے لیے یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اُف تک اس کے خلاف کہہ دیں اور جو انسان یہ کہے کہ رب سے نہیں ڈرتا ہوں،اور یہ سب ایک وہم ہے، قیامت آجائے گی تو دیکھا جائے گا تو اس انسان سے زیادہ بدبخت اور بے وقوف کوئی نہیں ۔ وہ انسان اکثر پھر زندگی کے معاملات میں اُلجھ جاتا ہے جو کہ مایوسی کے مترادف ہے ۔مایوسی ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو لگ جانے کے بعد اس کی دنیا کو اندھیرا اور اس کے خوابوں کو چکنا چور کر دیتا ہے ۔لہٰذا ہمیں مایوسی کی دنیا کو جلا کر ایک خوشی اور پُر یقین ذات کے ساتھ دنیا میں رشتہ جوڑ کر جینا چاہیے کیونکہ اس نے جو حکم دیا اس سے بالکل بھی ہمیں مکرنا نہیں ۔اور رب کی باتوں سے مُکر جانا اس کے ساتھ عداوت ہے اور عداوت سراسر جنگ اور کفر کے مترادف ہے ۔

یہ انسان کا کمال نہیں ہے کہ وہ آزادانہ طور پر جانوروں جیسا رویہ اختیار کر کے زندگی گزارے۔ بلکہ کمال درجے کا انسان وہ ہے جو جانوروں کے ساتھ انسانیت کے طور سے پیش آئے ،جو اپنے حق کو فرض سمجھ کر اس کی ادائیگی اپنے اوپر لازم سمجھے۔ کیونکہ رب کی محبت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔عدل و انصاف سے پُر ، وفا سے لبریز ،محبت سے باندھا ہوا زندگی کو سکون دینے والی ذات، ناممکن کو ممکن بنانے والی ذات صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ۔اکثر لوگ ڈپریشن کے شکار اس وجہ سے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان چیزوں کی فکر میں مبتلا ہے جو ما سوائے اللہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ۔انسان اپنا وقت اپنے ماضی حال اور مستقبل میں خراب کر دیتا ہے جب کہ مقدر لکھنے والے نے لکھ دیا ہوتا ہے چاہے وہ معاملہ کوئی بھی ہو، انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ قوانین الہٰی کے تحت اپنی زندگی کو گزاریں تو مقدر کا ستارہ اس طرح چمک جائے گا کہ مایوسی کا میم بھی مٹ جائے گا ۔

یاد رکھنا چاہیے کہ آسمانوں کے بوجھل تلے ایک سورج چمکتا ہے ۔زمینوں کے نیچے پانی بہہ رہا ہے ۔ہوا میں پرندے اور کیڑے مکوڑے اڑ رہے ہیں کہ ہمارے بس کا کام نہیں اور کبھی انسان کی عقل سوچ کر دھنگ رہ جاتی ہے۔ جس نے دنیا کی تخلیق اس طریقے سے کی کہ کہیں پہ کوئی عدم تناسب باقی نہیں رکھا ،وہ بلا ہی ہماری اس چھوٹی سی زندگی کو کیسے چھوڑ سکتا ۔ اس سے زیادہ محبت کرنے والا انسان کے لیے کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے نا امید نہ ہو جائے کیونکہ نا امیدی کفر ہے اور کفر ہمیں جہنم کی اور لے جا کر ہمیشہ کے لیے زندگی میں رسوا اور تباہ کر دے گا ۔ رب ہم میں امید و یقین کا مادہ بڑھا دے تاکہ ہم حقوق کی پامالی اور رب کی نافرمانی سے بچ جائیں۔ آمین
[email protected]

Share This Article