آج سے تقریباً ۱۰؍روز قبل اخبار میںشائع ایک خبرکی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک دوست نے فون کیاکہ یہ راہل گاندھی کو کیا ہو گیا ہے؟وہ ’’مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligenceیعنی A.I.)‘‘کے موضوع پر ہونے والے کانفرنس میں ایک ہفتہ کے لئے امریکہ جا ر ہے ہیں جب کہ اُنہیں یہاں ہندوستان میں رہنا چاہئے کیونکہ جلد ہی گجرات اور ہماچل پردیش میں انتخابات ہونے والے ہیں اور کبھی بھی ان کی تاریخوں کا اعلان ہو سکتا ہے ، اس سے پہلے بھی وہ ناروے تو جاکر آئے ہی تھے!اُن صاحب کے نزدیک راہل کا یہ اقدام غیر ذمہ دارانہ لگ رہا تھا یا اپنی ذمہ داری سے راہِ فراراختیار کے مترادف تھا۔بات در اصل یہ ہے کہ راہل گاندھی کی سیاسی ناکامیوں کے باوجود بھی لوگ اُن سے آس لگائے بیٹھے ہیں اور اُن میں اُس خوبی کی تلاش میں رہتے ہیں جو اُنہیں کامیاب و کامران کردے اور عوام کی دانست میں ملک کو تقسیم اور نفرت کی سیاست کرنے والی پارٹیوں سے نجات دلوائے۔اس چیز کا مشاہدہ لوگوں نے اُس وقت کیاجب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے طلبہ سے راہل مذکورہ کانفرنس میں خطاب کر رہے تھے۔اکثر ناقدین کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم جو لمبی لمبی تقریریں کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں،راہل جیسی تقریر نہیں کر سکتے اور وہ بھی بین الاقوامی سامعین کے سامنے۔ویسے مودی نے ۳؍درجن سے زیادہ غیر ملکی دورے کئے ہیں اور سب جگہ اُنہوں نے لچھے دار تقریریں کی ہیں لیکن اُن کی ہر تقریر کا جو نفس مضمون اور متن تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے ، کم ازکم اُس میں دانشوری تو قطعی نہیں ہوتی۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ راہل گاندھی کوئی دانشور ہیں لیکن اُن کی اُس روز کی تقریر اُنہیں ایک کامیاب اسٹیٹس مین ضرور ثابت کرتی ہے۔خطاب کے بعد جو سوال وجواب کا سیشن تھا،اُس کا بھی راہل نے بحسن و خوبی اور بے خوف و خطر جواب دیاکہ لوگوں کو احساس ہوا کہ واقعی وہ ایک دوسرے راہل سے مل رہے ہیں۔بین الاقوامی فورم سے راہل گاندھی کے بیان اور فرمودات کو ہندوستان کے علاوہ بیشتر ممالک میں سراہا گیا کیونکہ اس سے ایک لبرل لیڈر کے طور پر راہل گاندھی کی شناخت اُبھر کر سامنے آئی۔ بی جے پی نے اُن کے بیان پر واویلا مچائی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی فورم سے ہندوستان کی شبیہ کو یوں تار تار کرنے کی راہل گاندھی کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔اسمرتی ایرانی جنہیں راہل گاندھی کی مذکورہ کانفرنس کے بعد اُٹھنے والے’’ ممکنہ خطرات‘‘ کو ردکرنے کے لئے مامور کیا گیاتھا،نے کہا کہ’’ اُنہیں ملک میں کوئی نہیں پوچھتا، اس لئے وہ ملک سے باہر جاکر بی جے پی حکومت کو بدنام کر رہے ہیں‘‘۔
اس بہانے کتنی سچی اور پتے کی بات راہل نے کہہ دی!بیشتر ٹی وہی چینل،اخبارات و رسائل مودی اور بی جے پی نیز آر ایس ایس کے گن گان میں مست ہیں،بھلا راہل اُنہیں کیوں کر دکھائی دیں گے؟اِن تین چار برسوں میں میڈیا کی جو کایا پلٹ ہوئی ہے اور جس طرح سے میڈیا جانب داری برت رہا ہے،اس کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا اب بے سود ہے۔اس لئے راہل گاندھی اگر بین الاقوامی فورم سے اپنی بات کہتے ہیں تو یہاں کا میڈیا بھی اسے دکھانے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔یہ تو اب میڈیا کو سوچنا چاہئے کہ راہل گاندھی کو سنجیدگی سے لیا جائے یا نہیں۔اُن میں کچھ خوبیاں ہیں یا نہیںیا کہ صرف الیکشن جیت لینا ہی خوبیوں میں شامل ہے اور اس کے بعد باقی باتیں ٹھکانے لگا دی جاتی ہیں۔راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں ہندوستان میں تیزی سے پھیل رہے فاشزم، عدم رواداری،ہجومی تشدد،صحافیوں پر حملے،لبرل اور صاف گو صحافیوں اور دانشوروںکے قتل کے علاوہ مودی حکومت کی غلط (معاشی) پالیسیوںکو موضوع بنایا ہی ،ساتھ میں یہ بھی کہا کہ’ ’ہندوستان میں کس نظام میں وراثت موجود نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو مجھے ہی صرف اِس کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟‘‘انہوں نے چند مثالیں بھی دیں جن میں اکھیلیش یادو ،ایم کے اسٹالن اور ابھیشیک بچن کا نام لیااور کہا کہ ان کے علاوہ بھی بہت سارے نام ہیں ۔اس وراثت والے بیان پر بی جے پی کو مانو موقع ہاتھ آگیا اورا سمرتی ایرانی سے یہ بیان دلوا دیا کہ’ ’راہل گاندھی ایک ناکام وارث ہیں‘‘۔فی الحال تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ راہل گاندھی ایک ’’ناکام وارث‘‘ ہیں لیکن بی جے پی کو راہل کے تعلق سے جو پیش بینی رہی ہے وہ اُن ( بی جے پی اور آرایس والوں) کے لئے کم خوفناک نہیں۔یہ جو ’’گاندھی‘ ‘لفظ یا سر نیم ہے ،وہی اُن کے لئے وبال ِ جان بنا ہوا ہے۔جیسا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی رہی ہے کہ دوسری پارٹیوں کو طمع و لالچ دے کر توڑواور پھر اُن کے لیڈروں کو اپنی جانب کر لو،اس گاندھی کے ساتھ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔اسی گاندھی سے اُنہیں خطرہ ہے کہ وہ ان کی آئیڈیا لوجی کو چیلنج تو کرتا ہی ہے، ان کو گدی سے اُتار بھی سکتا ہے۔اسی لئے اِس چیلنج کو وہ نشانہ بناتے رہتے ہیں جس کے بارے میں راہل نے خود اسی کانفرنس میں کہا کہ’ ’بی جے پی کے پاس ایک آئی ٹی مشین ہے جہاں اُس کے تقریباً ہزار لڑکے بیٹھے ہوئے ہیں اور دن رات مجھے گالیاں دیتے ہیں اور بھلا برا کہتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی سربراہی ہمارے وزیر اعظم کرتے ہیں،یہ اس مشین کی حکمت عملی ہے ۔‘‘اس کانفرنس سے ایک بات تو یہ سامنے آئی کہ جتنا راہل کو ’’پپو‘‘ کے بطور سمجھایا گیا ہے اور ملک کی ایک آبادی اس کو ماننے بھی لگی ہے،اُتنے ’’پپو‘‘ نہیں ہیںبلکہ یہ بھی ظاہر ہوا کہ وہ اکیلے ہی مودی کو چیلنج پیش کر سکتے ہیں کیوں کہ پہلی بار انہوں نے وہیں پریہ کہا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے لئے وہ تیار ہیںا گر پارٹی مناسب سمجھے ۔
یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ راہل گاندھی یا کسی اور پر وراثت کا الزام دھرنے والی پارٹی جاپان کے وزیر اعظم شنجو آبے کو ایک وراثتی سلطنت ہونے کے باوجود نہ صرف گلے لگاتی ہے بلکہ ہر وہ کام کرنے کو تیار ہے جو آبے حکم فرمائیں کیوں کہ بلیٹ ٹرین کی صورت میں وہ ایک کاغذی تحفہ دے رہے ہیں جس کی قیمت تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے ہے۔تحفہ تو شاید نہیں کہا جائے گا کیونکہ ابھی معاہدے کی شقوں کے بارے میںپتہ نہیں ہے کہ کتنے برسوں تک جاپان اِس ریل کے کرائے وصول کرے گا؟شنجو آبے کے پر دادا ’نوبو سیکے کِیشی ‘جاپان کے وزیر اعظم تھے جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہم عصرتھے اور ۱۹۵۷ء میں ہندوستان آئے تھے اورجن کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی تھی۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ انہیں (پردادا کو) چین میں صف اول کا جنگی مجرم قرار دیا گیا ہے جو کہ اب تاریخ کا حصہ ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جاپان اور چین کے رشتوں میں اتنی تلخی کیوں ہے؟ اس کے علاوہ محبوبہ مفتی جو بی جے پی اور خاس طور پر مودی کے نزدیک ایک وراثتی نظام کا حصہ ہیں ،اُن کے ساتھ حکومت میں ساجھے دارہیں۔اُسی طرح چندرا بابو نائیڈو بھی این ٹی راما راؤ کے داماد ہیں اور بی جے پی کا اُن کے ساتھ اتحاد ہے۔آنجہانی جے للیتا بھی وراثتی نظام کی پروردہ تھیں کیونکہ ایم جی راماچندرن کی وراثت کو انہوں نے نہ صرف سنبھالا بلکہ اے آئی ڈی ایم کے، کو ایک نئی بلندی عطا کی اور اب بھی وراثت کے لئے وہاں جنگ جاری ہے۔ان کی پارٹی سے پینگیں بڑھانے میں بی جے پی کو کوئی اعتراض نہیں!اُدھو ٹھاکرے اور بعدہٗ آدتیہ ٹھاکرے جو شیو سینا سپریمو بال ٹھاکرے کے وارثین ہیں،اُن کے ساتھ بھی تو بی جے پی کھڑی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دوسرے ٹھاکرے وارث یعنی راج ٹھاکرے بھی مودی کے اچھے دوستوں میں سے ہیں۔پونم مہاجن (پرمود مہاجن)اور، پنکجا منڈے(گوپی ناتھ منڈے) کو کیوں نہیں یاد کیا جائے؟
یہ فہرست بہت طویل ہے۔سیاست کے علاوہ وکالت میں ،انڈسٹری میں،ڈاکٹری میں،فلم میں یعنی کہ ہر شعبے میں اِس وراثتی نظام کو دیکھا جا سکتا ہے۔اسی لئے راہل گاندھی نے یہ سوال اٹھاکر بہت اچھا کیا ہے اور ایک طرح سے وہ اس کے بوجھ تلے دبے ہوئے محسوس کر رہے تھے۔اب مودی جی شاید شہزادے اور یوراج کہہ کر اُنہیں نہ پکاریں۔ اس لئے امریکہ سے آنے کے بعد راہل اپنا زیادہ تر وقت گجرات میں گزاریں اور اسی پر فوکس کریں۔اگر انہوں نے گجرات جیت لیا تو گویا ۲۰۱۹ء کا عام چناؤ جیتنے سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ حالات بھی موافق ہیں ۔ لوگ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے حد درجہ پریشان ہیںبالخصوصگجرات کے بیوپاری تو بُری طرح متاثر ہیں ۔اسی کو بھُنانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ دہلی یونیورسٹی کے الیکشن میں صدر اور نائب صدر انہیں کا چن کر آیا ہے اور راجستھان اور پنجاب یونیورسیٹیوں کے انتخابات بھی انہیں کے حق میں ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ طلبہ اور نوجوان کانگریس کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔اسی لئے بھاشن کے ساتھ عملی اقدام بھی کرنے کی ضرورت ہے۔راہل نے یہ کر لیا تو سمجھئے ہندوستان سے وہ تمام ڈر و خوف نکل جائیں گے جن کا ذکر انہوں نے اپنے مذکورہ کانفرنس میں کیا ہے اور ہماری حمایت کا یہی جواز بھی ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883