ایم ڈبلیوانصاری
18جون کا دن بھارت کی تاریخ کے اس عظیم باب کو یاد دلاتا ہے، جسے ہم رانی لکشمی بائی کے نام سے جانتے ہیں۔ جھانسی کی رانی، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا، نہ صرف اپنی بہادری کی علامت بن گئیں بلکہ ہند و مسلم اتحاد کی ایک زندہ مثال بھی پیش کی۔18جون 1858کواس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
رانی لکشمی بائی کو یاد کرنا صرف ایک تاریخی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنا نہیں بلکہ ان کے ساتھ چلنے والے ان بے مثال ساتھیوں کو بھی یاد کرنا ہے جنہوں نے مذہب، ذات اور نسل کے فرق کو بالائے طاق رکھ کر صرف ملک کی آزادی کو مقصد بنایا۔ انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگِ آزادی میں رانی کے ساتھ ساتھ مسلم سپاہیوں اور جنرلز نے جو شجاعت دکھائی، وہ گنگاجمنی تہذیب کا روشن نمونہ تھی۔آج دنیا بھول چکی ہے غوث محمد خان کو، جو رانی کے اہم توپچی تھے، جنہیں ان کی بہادری پر سونے کا کڑا اِنعام میں دیا گیا۔ جب انگریزوں نے رانی کی فوج کے کچھ حصے خرید لئے، تب غوث محمد نے کہا، ’’ہم ویسے ہی لڑیں گے جیسے سورما لڑتے ہیں اور واقعی انہوںنے شجاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔آج دنیا بھول چکی خدا بخش بشارت علی کو، جو رانی کی فوج کے سب سے بڑے دستے کے کمانڈر تھے، جن کے ساتھ 1500 پٹھان سپاہی لڑتے رہے اور آخر دم تک محاذ پر جمے رہے۔کیا ہم میں سے کوئی سردار گل محمد خان کو جانتا ہےجو رانی لکشمی بائی کے ذاتی محافظ تھے؟ وہ صرف ایک سپاہی نہیں تھےبلکہ وفاداری، دلیری اور قربانی کی زندہ مثال تھے۔ جب جھانسی کی رانی انگریزوں سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئیں تو یہی گل محمد خان جان ہتھیلی پر رکھ کر انہیں میدان جنگ سے نکال کر بابا گنگا داس کی جھونپڑی تک لے گئے، تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے پُرامن طریقے سے گزار سکیں۔ اسی طرح نواب علی بہادر خان کا تذکرہ بھی تاریخ کی سطور میں محض چند سطروں تک محدود کر دیا گیا۔ باندا کے نواب ہونے کے باوجود وہ انگریزوں کے خلاف رانی کے شانہ بہ شانہ لڑے۔ ان دونوں کا رشتہ محض سیاسی یا عسکری نہیں تھا بلکہ بھائی بہن کا ایک مقدس رشتہ تھا، رانی انہیں اپنا منہ بولا بھائی مانتی تھیں اور نواب نے بھی اس رشتے کی لاج نبھائی۔ علی بہادر خان نے ہی رانی کی آخری رسومات ادا کیں، اس وقت جب بہت سے لوگ انگریزوں کے خوف سے دور ہٹ چکے تھے۔
یہ محض چند نام نہیں بلکہ ان ہزاروں گمنام کرداروں کی علامت ہیں جنہوں نے مذہب، ذات، اور زبان سے اوپر اٹھ کر ایک نظریے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ افسوس کہ آج نصابی کتابوں میں رانی کا نام تو ملتا ہے لیکن ان کے ساتھیوں کا تذکرہ ناپید ہے اور ہماری نئی نسل ان قربانیوں سے ناآشنا ہے۔جھانسی آج بھی اس محبت، اتحاد اور قربانی کی گواہ ہے۔ آج بھی وہاں کئی ہندو بہنیں راکھی کے دن اپنے مسلم بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں۔ یہ رشتہ محض رسم نہیں بلکہ اس تاریخی حقیقت کی یادگار ہے کہ ہماری سرزمین نے ہمیشہ فرقہ واریت کے خلاف مزاحمت کی ہے اور قربانی کے وقت مذہب کی دیواریں گرا دی ہیں۔مگرآج بھی بھارت میں کچھ لوگ تاریخ کو توڑ مروڑ کر نفرت کا بیج بونا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد نے خون کا نذرانہ دے کر یہ ملک آزاد کرایا اور وہ کسی ایک مذہب یا فرقے کے لیے نہیں بلکہ ”وطن عزیز” کے لیے لڑے۔کچھ شر پسند عناصر نفرت کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں۔وہ تاریخ سے سبق لینے کے بجائے اسے مسخ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا پر زہریلے بیان جاری کر تو کبھی عوام کے درمیان غلط فہمیاں پھیلا کر ملک کی فضا کی خراب کرنا چاہتے ہیں۔
رانی لکشمی بائی اور ان کے مسلم سپہ سالار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ دشمن ہمارا وہ ہے جو ملک کی یکجہتی کو نقصان پہنچائے، نہ کہ وہ جو دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر ایک ہندو رانی اور مسلمان سپہ سالار ایک ساتھ مل کر انگریز سامراج سے لڑ سکتے ہیں تو ہم آج بھائی چارے کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟کیوں فرقہ پرست طاقتیں ہمارے اندر پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوتی جارہی ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے تاریخ کو نہیں جانااور نہ آنے والی نسلوں تک اس کی منتقل کیا،الغرض قصور وار ہم سب ہیں۔
۱۸؍جون کا دن رانی لکشمی بائی کی شہادت کا دن ہے یہ دن ہمیں ہر سال یہ سبق دیتا ہے کہ ’’ملک سب سے پہلے ہے‘‘ اور جب ہم ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں گے، نفرت کی جگہ محبت کو چنیںگے، یہی اصل حب الوطنی ہے۔آئیے، اس بار رانی لکشمی بائی کو صرف ایک بہادر رانی کے طور پر نہ یاد کریں بلکہ ان کے ذریعے اتحاد، بھائی چارہ اور امن کا پیغام عام کریں۔نفرت کے ماحول میں محبت کا پیغام عام کریں۔
(مضمون نگار ، آئی پی ایس ۔ریٹائرڈڈی جی ہیں)
[email protected]