کسی زمانے کی وادی ٔ کشمیر خُلدبریں اور جنت بے نظیر مگر موجودہ وقتوں میں وہی وادی——–وادیٔ دل سوز ، کسی زمانے کی وادیٔ دل آراء مگر اب وادیٔ دل آزار ۔تب کی دل آویز مگر اب کی دل اُچاٹ۔کبھی کی دل افروز مگر اب کی دل فگار ۔ماضی کی دل چین مگر اب کی دل خراش۔کسی زمانے کی دل پسند مگر اب کی دل ریش۔اپنے اس عظیم مادر وطن کو دل فریب سے دل کبیدہ کرنے والے ،دلستان سے دل خستہ بنانے والے اور دل پذیر سے دل پژمردہ بنانے والے بیرونی عناصر کم جب کہ اندرونی طور پر ہم خود زیادہ ذمہ دار ہیں ۔اب اسی بات کو لے لیجئے کہ دریاؤںاور نہروں میںکوڑا کرکٹ اور پالی تھن کا کچرہ ڈال کر پانی کے دشمن ہم خود بن رہے ہیں ۔یہ پانی رگِ حیات ہے۔نہ صرف کھیت اور ساگ زار اس سے سیراب ہوتے ہیں بلکہ انسان بھی آسودہ ہوجاتے ہیںاور زندگی کی گاڑی کو آگے ہانکتے ہیں بلکہ یہ جنگلی جانوروں اور چرند و پرند کے لئے بھی اُسی اہمیت کا حامل ہے جس طرح یہ آدم زاد اور باغ و گلستان کے لئے ہے۔پانی کی قدر و قیمت حضور نامدار آقائے ذی وقار پیغمبر بحروبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں سکھائی ہے کہ ایک بار ندی سے برتن میں پانی لے کر وضو فرمایا توکچھ پانی برتن میں بچا رہا ۔ آپ ؐنے اُس بچے ہوئے تھوڑے سے پانی کو بھی واپس ندی میں ڈال دیا ۔اُن کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ بہتے ہوئے دریا سے بھی اگر زیادتی سے کام لیا یعنی ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کیا تو وہ عمل اصراف میں لکھا جاتا ہے۔
غصے کی حالت میں ہم عام طور پر مخاطب پر لعنت کہتے ہیں، حالانکہ فرمان نبویؐ ہے کہ لعنت بے زبان جانور پر بھی نہیں کرنی یا کہنی چاہئے۔عام طور پر اس تادیبی لفظ سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے سایہ ٔ کرم میں تمام نبی نوع انسان ہی کیا تمام کائنات کا ذرہ ذرہ ہے ،اُسی دائرہ عنایت میں رہ کر رب کی عنایات اور مہربانیاں ذرے ذرے کو فراہم ہوتی ہیں ۔وہ ہر طرح کا رزق دینے کے علاوہ دیگر چیزیں اور سہولیات گرمی،ٹھنڈی ،جس میں ہوا اور پانی کی بے حد اہمیت ہے عطا کرتا ہے ۔باقی چند ضروریات کے بنا اگر بنی آدم کچھ وقت تک کے لئے زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی اور ہوا کے بنا اُس کا زندہ رہنا تو قطعی ناممکن ہے۔ یہ ساری پیش رفت یا پیش قدمی (Process)رب کے اُسی دائرے یا سایہ ٔ عاطفت میں رہ کر ہوجاتی ہے ۔اب اگر کسی وجہ سے باری تعالیٰ حد سے زیادہ ناراض ہوجاتا ہے تو بنی آدم خسارے میں پڑ کر اُس دائرے سے باہر آجاتا ہے یا رجم یعنی نکال باہر کیا جاتا ہے ۔اُسی عمل کو لعنت کہتے ہیں یعنی رب کے دائرے سے باہر یا خارج۔سیدھی سی بات ہے کہ جو رب کے احاطے ،رب کے دائرے سے باہر ہوگیا تو پھر اُس کا والی وارث کون ہوگا اور ایسے لوگوں کو خاسرین یعنی خسارے یا نقصان میں پڑے ہوئے لوگ کہتے ہیں۔
اب وہ لعنت کے معنی سمجھ گئے ہوں گے جو اس بات سے ناواقف تھے اور تمہید ڈالنے کا میرا منشا ء و مقصد بھی یہی تھا ۔اس ضمن میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ حضورپُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اس طرح سے ہے کہ تین غلط کاموں سے پرہیز کرو، وگر نہ لعنت کے مستحق بن سکتے ہو۔اول یہ کہ پانی میں پاخانہ ڈالنا ،دوم کھلی سڑک پر پاخانہ کرنا یا ڈالنا اور سوم پھل دار درخت کے نیچے پاخانہ کرنا ۔اب اگر ہم اپنے اندر جھانکیں گے تو ہر ایک کسی نی کسی پیرائے میں اپنے آپ کو اس حدث میں ملوث پائے گا، کوئی بری الذمہ نہیں،ایک —-ایک طریقے سے دوسرا دوسرے ڈھنگ سے۔سکھ سمودائے کی مذہبی کتاب گرو گرنتھؔ صاحب میں سنت کبیر داسؔ کی ایک بانی اس طرح سے ہے ؎
بُرا دیکھن میں چلا بُرا نہ مِلیا کوئے
بیتر اپنے جھانکیامجھ سے بُرا نہ کوئے
اور حقیقت بھی یہی ہے ۔معدودے چند خدا ترس اس گناہ کے شریک کار سب ہیں ۔ اس حدث میں شہر اور گاؤں میں کوئی تخصیص نہیں ہے ۔گاؤں والے اپنے بیت الخلا ٗء نالوں ، دریاؤں یاآب ِ جو(Brooks)کے قریب بناتے ہیں اور شہر والے بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے ۔ جھیل ڈل اور نگین میںکافی سارے ہاوس بوٹ ہیں جب کہ جہلم کے کناروں پر اب بچے کھچے آبی گھر ہی رہ گئے ہیں۔ڈل جھیل کے تین اطراف میں کتنے ہوٹل اور گیسٹ ہاوس ہیں،اندرون ِڈل کتنی بستیاں کتنے لاکھ لوگ رہتے ہیں ،ان تمام ذرائع سے نکلنے والا فضلہ یا پاخانہ، بہ الفاظ دیگر بول براز ڈل کے چہرے پر ہی تھوپ دیا جاتا ہے ۔کیا اس طرح سے اُس کا چہرہ سندر ہوگا ؟چمکے گا یا بے رونق ،بیمار ،مدقوق اور کھترا ہوجائے گا ؟
میں نے آگے ہی کہا ہے کہ اس حدث میں ہم سب ملو ث ہیں کیونکہ سب نہ ہوٹل والے یا ہاوس بوٹ والے ہیں اور نہ اندرون ِڈل بود باش رکھتے ہیں اور نہ ہی جہلم کے کناروں پر بسنے والے ہیںمگر جو اس گناہ ِعظیم میں ملوث نہیں ہیں ،کیا وہ کبھی اس بارے میں احتجاج کرتے ہیں ؟حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہیں ؟لوگوں کو اس طرح سے ہونے والی تباہ کاریوں سے آگاہ کرتے ہیں؟اگر نہیں تو ہمیں اوپر مذکورحدیث ِ پاک کی طر ف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کی رُو سے ہم سب (اللہ محفوظ رکھے)لعنت کے مستوجب ہوجاتے ہیں ۔اس لئے جب ہم سب اللہ کے دائرے سے باہر ہیں تو اغیار کو ہم پر مسلط ہونے کے کھلے مواقع ہیں۔ہمیں بے وقعت اور خوف زدہ زندگی گزارنی ہی ہے ۔ہم کو بیماریوں ،خطرناک امراض ،پریشانیوں اور بد حالیوںمیں گرفتار ہونا ہی ہونا ہے کیونکہ ہم سب اللہ المستعان کے سیف زون سے باہر ہیں۔آپ اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے ہیں ع
دنیا کے بت کدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
دنیا کے گھور اندھیرے ،کفرستان ،شرک و بدعت کے ماحول میں سب سے پہلے مسجد ہی تعمیر ہوئی تھی ۔مسجد کو خدا کا گھر کہتے ہیں بلکہ رب کی طرف سے اُس کے گھرو ں کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ہدایت ہے۔اسی وجہ سے مسلمان اور مسجد دوتوام الفاظ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیںمگر اغیار کہتے ہیں کہ آپ کو مسجد کی کوئی ضرورت نہیں ، اس لئے وہ جب چاہیں جس جگہ چاہیں آپ کی مسجد کو شہید کرسکتے ہیں ۔آپ کے شرعی قواعد میں مداخلت ہوتی ہے ۔آپ بے دست و پا ہیں۔آپ کے عبادات خانے گرائے جاتے ہیں۔ آپ احتجاج کرتے ہیں تو ہزاروں کو تہہ تیغ کیا جاتا اور سینکڑوں عصمتوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔آپ کی ہزاروں کنال زمین غیروں کے قبضے میں ہے ۔آپ اُسے چھڑانے کے متحمل نہیں ہیں۔آپ کے ملک پر سات لاکھ موت کے فرستادے مسلط ہیں،ہر ایک کے اختیار میں آپ کی جان لینے کی کھلی چھوٹ ہے ۔اسی لئے یہاں بچے اور بوڑھے زیادہ ہیں نوجوان کی فصل کٹ رہی ہے ۔
آپ کے ملک کی خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جارہا ہے اور جلد ہی آپ دیکھیں گے کہ ڈل گیٹ سے کرالہ سنگری برین تک آپ کی سرزمین امبانیؔ جیسے کسی اَرب پتی کی ملکیت ہوگی اور آپ پھر اُسی پوزیشن پر آئیں گے جب گلاب سنگھ کے دور حکومت میں شجر وحجر کے ساتھ آپ کی قیمت پچیس پیسے فی کس لگائی گئی تھی ۔ یہ اور ایسا بہت کچھ اس لئے ہونے والا ہے کیونکہ آپ خدائی قانون سے روگردانی کرنے کی وجہ سے راندہ ٔ درگاہ ہوگئے ہیں اور آپ کا والی وارث گرچہ ان حالات میں بھی وہی کریم شفیق اور رحیم رب العالمین ہے مگر وہ ناراض ہے ——–بے حد ناراض ہے ۔سنبھلئے! ہوش کی دوا کریئے!! ابھی بھی وقت ہے کیونکہ صور اسرافیل میں پھونک نہیں گئی ہے، گرچہ حضرت کے گال پھول چکے ہیں۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995