سرینگر// رام منشی باغ سرینگر سے لیکر سمپورہ تک حکومت کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کا اثر خرید وفروخت کیلئے آنے والے لوگوں کی نقل و حمل پر پڑا ۔ سرینگر کے بیشتر بازاروں میں عید الفطر پر ہونے والی خرید وفروخت میں کافی کمی دیکھنے کو ملی اور اتوار کو لالچوک میں ٹریفک کی نقل و حمل بھی کم رہی ۔ سرینگر کے تجارتی مرکز لالچوک میں سڑکیں خالی نظر آرہی تھیں جبکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ رام منشی باغ سے لیکر سمپورہ تک حکومت کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کا اثر جنوبی کشمیر سے آنے والے لوگوں پر پڑا ہے اور اسی وجہ سے بازاروں میں رش بھی کافی کم دکھائی دیا۔ لالچوک کے ایک دکاندار محمد اقبال نے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ ، کولگام اور شوپیاں سے کافی لوگ عرفے کو خریدو فروخت کیلئے سرینگر آتے تھے تاہم دلی پبلک سکول میں جاری جھڑپ اور حکومت کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے لوگ سرینگر خرید و فروخت کرنے کیلئے آسکے جس کا اثر لال چوک میں تجارت پیشہ افراد پر صاف دیکھائے دے رہا ہے۔ محمد اقبال نے بتایا کہ عام طور پر ہر سال عید سے قبل ایک ہفتے پہلے لالچوک اور اسکے گردنواح میں موجود دکانوں میں بھیڑ ہوا کرتی تھی مگر امسال سے عید سے دو دن قبل دلی پبلک سکول میں جھڑپ کی شروعات سے ہی کارو بار پر کافی منفی اثر پڑا اور لوگوں کی بھیڑ پچھلے کئی سال سے کافی کم ہے۔سرینگر کے ریگل چوک میں محمد عاصف نامی ایک دکان دار نے بتایا کہ بھیڑ کافی کم ہے اور اسلئے دکاندار اب جلدی گھر جاننے کی تاک میں ہے۔ محمد عاصف نے بتایا کہ ریگل اور اسکے گردنواح میں جنوبی کشمیر سے آنے والے گاڑیوں کا سومو سٹینڈ قائم ہے اور لوگ اسی سومو سٹینڈ پر گاڑیوں سے نےچے اترتے اور پھر خریدو فروخت میں محروف ہوجاتے تھے مگر پچھلے دو دنوں سے جاری جھڑپ اور پھر رام منشی باغ اور سمپورہ تک لوگوں کی نقل وحمل پر عائد پابندی کی وجہ سے بھیڑ کافی کم ہے جس کا خمیازہ دکانداروں کا اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ بازار اکا حال خالی پڑی سڑکوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔