Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

رام رام اللہ اللہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 14, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
31 Min Read
SHARE
 سلیم حسب معمول صبح جاگا۔ نہادھو کر سکول کےلئے تیار ہو ا اور دوڑ کر چھت پر جا پہنچا۔ آج چھت پر پہنچنے میں اُس نے پہل کی تھی آج وہ جیت گیا تھا ۔وہ چھت کےا ُسی مخصوص کونے میں کھڑا ہو کر گوپال کو آوازیں لگانے لگا جہاں سے وہ دن میں کم ا کم آٹھ دس دفعہ اُسے پکارتا تھا ۔ جبکہ اسی طور دوسری جانب سے اپنی چھتیںکے کونے سے گوپال اُسے پکارتا تھا۔ دراصل ان دونوں میں اس بات کا مقابلہ رہتا تھا کہ کون صبح پہلےتیار ہو کر چھت پر آتا ہے اور دوسرے کو پُکارتا ہے۔
وہ دونوں پڑوسی تھے۔ اُنکے گھر وں کی چھتیں آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ بیچ میں ہلکی سی تین فٹ اونچی دیوار تھی، جسے یہ دونوں پھاند کر ایک دوسرے کےگھر بلا روک ٹوک آتے جاتے اور غل غپاڑہ مچائے رکھتے تھے۔
سلیم نے گوپال کو پھولی ہوئی سانس میں فٹا فٹ دو تین آوازیں لگا ئیں۔ دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔’’ گوپال غسل خانے میں ہوگا۔۔۔ یا وردی پہن رہا ہوگا۔۔ ۔ یا کتابیں بستے میں۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔!‘‘ وہ سوچتے سوچتے بھاگ کر پھر نیچے آیا۔ سیدھا رسوئی گھر میں گیا۔ وہاں کھڑے کھڑے اپنی امی کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کیا اور دوبارہ بھاگ کر چھت پر جا پہنچا۔۔۔۔ ’’ گوپال‘‘۔۔۔ گوپال۔۔۔ گوپال۔۔۔۔ تیار ہوا کہ نہیں۔۔۔۔ جلد ی کر۔۔۔۔ آج پکادیر ہو جائے گی۔۔۔ ڈانٹ پڑے گی سکول میں۔۔۔۔ دیکھ آج میں جیت گیا۔۔۔۔ آج میں نے پہلے آواز لگائی ہے تمہیں ۔۔ جلد ی جلدی تیار ہو جا۔۔۔۔۔!!!
لیکن اب بھی کوئی جواب نہیں ملا۔’’ گوپال تو پہلی آواز پر بول پڑتا ہے۔ آج کیا ہوگیا اسے۔ یہ جواب ہی نہیں دے رہا۔‘‘ سلم فکر مند ہو اُٹھا۔ اُس نے آئو دیکھا نہ تائو دیوار پھاندی اور گوپال کی چھت سے نیچے جاتی ہوئی سیڑھیوں کو پھلانگتا ہوا اس کے برامدے میں جا پہنچا۔ مگر وہ وہاں کا سناٹا دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہاں تو دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ دروازے کے دائیں بائیں کی کھڑکیوں کے تمام پٹ بند تھے ،جو عموماً کھلے رہتے تھے۔ لگتا تھا گھر میں ایک بھی فرد موجودنہیں ہے۔ ہر سو ویرانی و اُداسی چھائی ہوئی تھی۔ ۔۔ ’’گوپال۔۔۔ گوپال۔۔۔! ‘‘وہ تالا چڑھے دروازے کو اپنے ننھے ہاتھوں سے پیٹ پیٹ کر پُکار نے لگا مگر اسکی معصوم صدا لوٹ لوٹ کو اُسی کے کانوں میں آنے لگی۔ وہ روہانسہ ہوگیا۔ اُسکی ڈبڈ بائی آنکھیں برامد ے اور صحن میں ادھر اُدھر بھٹکنے لگیں۔ ایک انجان خدشے سے اُسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔’’کہیں گوپال بیمار۔۔۔!‘‘ اُسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہوگا۔ وہ کہاں گیا ہوگا۔ ابھی کل شام ہر شام کی طرح وہ دونوں اسی آنگن میں جی بھر کے کھیلے تھے۔ لیکن اس ایک رات میں کیا ہوا کہ گوپال اُسے بغیر کچھ بتائے کہیں چلا گیا۔ اب اس گھر کا سناٹا اُسے بچھو کی مانند ڈنک مارنے لگا۔ کھڑے کھڑے اُسکی نازک ٹانگیں کپکپانے لگیں۔ وہ وہیں دروازے کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا ۔ چپ چاپ گم سُم ، مگر چند ساعتوں بعد اُسکی سسکیاں کشادہ برامد ے کو اپنی گرفت میں جکڑنے لگیں۔ 
اسکے کنبہ کے تمام افراد اپنی چھت پر کھڑے پریشان حال اس طرف جھانک جھانک کر اُسے پکار رہے تھے۔ گھر آنے کے لئے منت سماجت کر رہے تھے۔ مگر وہ پتھر کی مورت بنا گوپال۔۔۔ گوپال کی رٹ لگائے ہوئے تھا۔
سلیم اور گوپال پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ہم جماعتی و پڑوسی تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک دوسرے کی جان تھے۔ اُنکا جنم بھی ایک دن ایک ہی مہینے وسال میں ہوا تھا۔ وہ آج دن تک پل بھر کےلئے بھی ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ پہلا واقعہ تھا جو ایسا ہوا تھا۔
سلیم آج تڑکے روز مرہ کی طرح سکول کےلئے تیار ہوا تھا لیکن ا ُسے علم ہی نہیںتھا کہ آ ج کی صبح اُس کے لئے ایک سانحہ بن کر آئے گی۔سلیم کے گھر کے افراد کو سب کچھ معلوم تھا کہ کیا اور کیوں ہوا ہے مگر کسی میں اتنی ہمت نہیںتھی کہ وہ سلیم کو اس بابت کچھ بتاتا۔
وہ سب کی آنکھ کا تارا تھا۔ وہ اُن کی روشنی تھا،۔۔۔۔۔ بالخصوص مولانا ریاض احمد کی تو اس میں جان اٹکی ہوئی تھی۔ اُس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش و خوشی کے آگے سر خم کرنا تو جیسے سب کا فریضہ مقصدس تھا۔ دنیا ادھر کی اُدھر ہوسکتی تھی،وقت اپنی رفتار چھوڑ سکتا تھا، چاند سورج اپنی راہیں بدل سکتے تھےمگر سلیم کی زبان سے نکلاہوا لفظ یا آنکھ وہاتھ کا اشارہ پتھر پر لکیرہوتاتھا۔ کیوں کہ ان لوگوں نے بڑی مدتوں، منتوں و دُعائوں کے بعد سلیم کو پایا تھا۔ وہ کیسے نہ اس پر اپنی جان چھڑکتے۔
یہی حال دوسری جانب پنڈت برج نارائین وا ُنکے اہل خانہ تھا۔ اُن کے لئے بھی انکی تمام تر کائنات گوپال میں سمٹی ہوئی تھی۔ کاتب تقدر نے دونوں ہمسایوں کی تقدیر ایک ہی قلم سے لکھی ہوئی تھی۔ جو مقام سلیم کا اپنےگھر میں تھا وہی درجہ اکلوتے پوتے گوپال کا اپنے دادا پنڈت برج نارائین کے گھر میں تھا۔ یہاں گوپال انہیں اپنی انگلیوں پر نچاتا تھا۔ غرض یہ کہ یہاں کے جنات کی جان اس طوطے میں تھی۔
لیکن آج سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ مولانا و اُنکا بھرا پُر ا کنبہ چا ہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ سلیم کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ تک نہیں لا پا رہا تھا۔ کس قدر لاچا ر و بے بس محسوس کر رہے تھے وہ خود کو اس وقت۔ اُنہیں رہ رہ کر غصہ تو بہت آرہا تھا مگر وہ طے نہیں کر پا رہے تھے کہ غصہ کر یں تو آخر کس پر کریں۔ سلیم پر، گوپال پر، پنڈت برج نارائین پر یا پھر خود پر۔
دراصل آج شہر بھر میں سکول کالج ہی نہیں بازار اور سرکاری وغیر سرکاری ادارے تک بند تھے۔ کل شام ہی اس بابت سڑک سڑک گلی گلی سرکاری منادی کروادی گئی تھی۔ مگر سلیم اور گوپال اپنی دنیا میں اس قدر مگن رہے کہ اُن کے کانوں میں مناد ی کا ایک بھی لفظ نہیں پڑا۔ حالانکہ چھٹی کی خبر پر تو یہ دونوں ویسے ہی اُچھل جایا کرتے تھے۔ اُدھر دونوں گھروں کے افراد نے بھی بچوں کو اس بابت کچھ نہیں بتایا۔ سبھی نے اپنے لبوں پر درد بھری چپ اختیار کرلی۔
گزشتہ چند دنوں سے اس وسیع و تاریخی شہر کے حالات انتہائی نازک چلے آرہے  تھے۔ وجہ وہی پرانی تھی۔ یعنی دو فرقوں کے درمیان مذہب کے نام پر کشیدگی ۔ مندر مسجدکے نام پر بیر۔ ایک نے خدا کا گھر توڑڈالا۔ دوسرے نے بھگوان کا آشیانہ مسمار کر دیا۔ خدا اور بھگوان بیچارے بے گھر ہوگئے۔ 
ویسے تو دونوں فرقوں میںگھر کے بدلے گھر کا حساب برابر ہوگیا تھا۔ مگر اصل لیکھا جوکھا ابھی باقی تھا۔ ابھی قتل و غارت، آگ زنی، سنگباری، عصمت دری، لوٹ مار غرض یہ کہ تمام تر انسانی درندگیاں باقی تھیں۔ لہٰذا ان حالات کے پیش نظر سرکاری انتظامیہ نے قبل از وقت احتیاطی اقدامات کر لئے تھے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہ آئے۔
مگر دونوں فرقوں کے افراد میں اندر ہی اندر خوف کی ایسی لہر دوڑ چکی تھی کہ راتوں رات آدھا شہر خالی ہوگیا ۔ کسی کو کسی کی خبر نہ لگی کہ کون کہاں چلا گیا ۔ اسی تاریکی میں پنڈت برج نارائین بھی اپنے کنبہ کے ہمرالات کے پچھلے پہر گہری نیند میں سوئے ہوئے گوپال کو لیکر چپ چاپ کسی انجانی منزل کی جانب روانہ ہوگئے اُدھر سلیم اپنے گھر میں نیند کے سمندر میں غوطے کھا تارہ گیا۔ البتہ مولانا ریاض احمد و اُنکا کنبہ جاگا ہوا تھا، اور اپنے آس پڑوس پر نگاہ بنائے ہوئے تھا۔
سلیم نے برآمدے میں بیٹھے بیٹھے رو رو کر اپنا برا حال کر ڈالا۔ اب اسکی ہچکی بھی بندھ گئی تھی۔ اُدھر اسکے گھر والے اپسے بُلا بُلا کر تھک گئے۔ اسکے ابو چھت پھاند کر اسکے لئے کھانے پینے کا سامان لیکر آئے۔ اسکی حوشامدو منتیں کیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ کچھ بھی سننے ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ماسوائے۔۔۔ ’’ مجھے بتائو گوپال کہاں ہے۔۔۔۔۔ گوپال کہاں ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ صرف اس ایک سوال کی رٹ تھی اسکی زبان پر اور کچھ نہیں۔ اب تو اس کے ہونٹ بھی بھوک اور پیاس سے سوکھ چکے تھے۔ اُسے ہلکا ہلکا بخار بھی ہو چلا تھا۔ اُسکے ابو نے بس وبے حال واپس ہی نہیں لوٹے بلکہ اُدھر چھت پر کھڑے گھر والوں کو لیکر نیچے بھی چلے گئے تاکہ سلیم کچھ دیر تنہا رہے ۔ خود سےسوال جواب کرے اور خود ہی سنبھلنے کی کوشش بھی کرے۔
سلیم کے ابو کو وہاں سے گئے ابھی چند لمحے ہی گذرے تھے کہ سلیم کے کانوں میں گوپا ل کے ہرے رنگ، سرخ چونچ و گلے میں لال پروں کی قدرتی ڈوری والے مٹھو کی شیرین آواز پڑی۔۔’ ’رام رام ۔۔۔ رام رام ۔۔۔‘‘! سلیم چونک کر اُٹھ کھڑا ہوا ۔اُسے معلوم تھاکہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے ۔اُسے خود پر غصہ آگیا کہ ابھی تک اُسکا دھیان اس طرف کیوں نہیں گیا۔ وہ برق رفتاری سے برآمدے کے مغربی کونے کی جانب بھاگا ۔مُٹھو کا پنجرہ برآمدے کی اُسی کنڈی سے لٹکا ہوا تھا جہاں ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ مٹھو پنجرے میں بیٹھا اپنی گول گول آنکھیں مٹکا مٹکا کر سلیم کو ُٹکر ٹُکریوں دیکھ رہاتھا،مانو شکایت کر رہا ہو کہ چاہیئے حالات جو بھی رہے ہیں مگر سلیم تمہارے دوست گوپال نے مجھے دھوکہ دیا ہے، مجھے اکیلا چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔ مٹھو کی خاموش شکایت کو ننھا سلیم سمجھ چکا تھا۔ وہ بھی آنکھوں آنکھوں مٹھو سے شکو ہ کر رہا تھا کہ ہمارے گوپال نے مجھےبھی دھوکہ دیا ہے ۔ مجھے بھی وہ بغیر کچھ بتائیے کہیں غائب ہو گیا۔ تاہم وہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بے انتہا خوش ہوئے۔ سلیم نے فوراً کنڈی سے پنجرہ اُتارا اور اپنے سینے سے چپٹا لیا۔
’’ دوپہر ہونےکو آئی۔ سلیم اب بھی وہیںبرآمدے میں بھوکا پیاسہ بیٹھا مٹھو کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ اُدھر مٹھو نے بھی کھانا پینا تر کر دیا۔ گوسلیم اسکے سامنے کھانے پینے کی اشیاء رکھ رہا تھا مگر مٹھو چونچ تک نہیں لگا رہا تھا۔ سلیم اچھی طرح جانتا تھا جب تک مٹھو کے سامنے وہ خود نہیں کھائے گا تب تک وہ بھی چونچ نہیں کھولے گا ۔اُسے مٹھو کی فکر ستانے لگی۔ لہٰذا اس نے مٹھو کی خاطربسکٹ کھایا اور پانی پیا۔ سلیم کی دیکھا دیکھی مٹھو نے بھی چونچ چلانی شروع کر دی۔ یہ منظر دیکھ کر سلیم کے گھر والوں کی سانس میںذرا سی سانس آئی۔
وہ رات گئے تک مٹھو کو گود میں لئےوہیں برآمدےمیں بیٹھا گوپال کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔ مگر کوئی نہیں آیا۔ بالآخر اسکے ابو چھت کی دیوار پھاند کر پھر آئے اور اُسے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر مٹھو سمیت گھر لے گئے۔ رات بیتی۔ دوسرا دن گذرا۔۔۔ تیسرا دن۔۔ پھر چوتھا اور پھر ہفتہ مگر سلیم کا انتظار انتظار ہی رہا۔ گوپال نہیں لوٹا۔ تاہم اُسکی غیر موجودگی میں اسکا مٹھو سلیم کاجگری دوست بن گیا۔ وہ دونوں ہر وقت ساتھ رہتے کھیلتے ، باتیں کرتے۔ مٹھو رام رام بول کر سلیم کے مجروح دل پر مرہم لگاتا۔ اُس کو ڈھار س بند ھاتا اور یقین دلاتا کہ گوپال بہت جلد ہمارے پاس ہوگا۔ سلیم کے چہرے پر ہلکی ہلکی رونق دیکھ کر اُس کے گھروالوں کو بھی دلی راحت میسر ہونے لگی ۔ اُن کے لئے تو اُنکی دنیا ہی سلیم کی مسکراہٹ تھی۔
سلیم کے دادا جان مولانا ریاض احمد پرانے دقیانوسی خیالات کے شخص تھے۔ جوں جوں سلیم سنبھلنے لگا تو ں توں انہیں مٹھو کارام رام بولنا کھٹکنے لگا۔ مگر وہ کچھ کر نہیں پارہے تھے کیونکہ سلیم میں انکی جان اٹکی ہوئی تھی جبکہ موجودہ حالات میں سلیم کی جان مٹھو میں تھی ۔ وہ کرتے بھی تو کیاکرتے ۔وہ عمر بھر مذہبی فرقہ بندی کے نام کی تنگ و تاریک گلیوں کے راہ گیر رہےتھے۔ اب پیری میں وہ کھلی ہوا کاایک ہلکاسا جھونکا بھی اپنے دامن میں اُتار نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے اپنی چاروں طرف سخت ترین پابندیوں کی ایک بیحد اونچی دیوار اُٹھا رکھی تھی۔ نہ کوئی اسکے اندر داخل ہوسکتا تھا اور نہ ہی وہ خود اس اس قید سے باہر نکل سکتے تھے۔ ایسے میں انہیں مٹھو کی وجہ سے ذہنی کوفت ہونے لگی، جواب دن بدن بڑھنے لگی تھی۔ انکے دوست و احباب بھی اب مٹھو کا نام لے لے کر انہیں طعنہ دیتے اور استغفر اللہ پڑھتے۔ مولانا صاحب شرمندگی کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ جاتے۔
سلیم کی حالت اب قدے سنبھل چکی تھی۔ مولانا ریاض نے ایک دن موقع غنیمت جان کر اپنا پارہ دباتے ہوئے سلیم کوبڑے پیار سے اپنے قریب بٹھایا اور لاڑ دلار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔۔۔۔ ’’دیکھ سلیم ، تم میری بات ذرا غور سے سنو اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ جو مٹھو ہے، نا اسے تم وہیں پنڈت جی کے برامدے میں ٹانگ کر آئو، تاہم اسے وہاں کھانے پینے کا سامان پہنچاتے رہنا۔ تم وہاں اسکے ساتھ کھیل بھی لینا، مجھے رتی بھر اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر اسے تم وہیں چھوڑ آئو۔۔۔۔۔!‘‘ مولانا ابھی اپنی بات کہہ ہی رہے تھے کہ سلیم بپھر پڑا۔۔۔ ’’کیوں دادا جان ،کیوں چھوڑ آئوں۔ میں مٹھو کو ہر گز نہیں چھوڑونگا۔ یہ وہاں تڑپ ترپ کر مر جائے گا۔ یہ انسانوںکی صحبت میں پلا بڑھا ہے ۔ اکیلا تویہ دانہ پانی بھی نہیں لیتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ میرے دوست کی نشانی ہے، جب وہ لوٹ کر آئے گا تب میں اُسے سونپوں گا تب تک یہ یہیں رہے گا۔ اس گھر میں میرے ساتھ!۔
سلیم نے فیصلہ کن لہجے میں دو ٹوک جواب دے ڈالا۔ مگر مولانا بھی کہاں ہار ماننے والے تھے۔ وہ اپنی سوچوں کے اسیر تھے۔ وہ جب جب مٹھو کےمنہ سے رام رام سنتے تو اُنکے اندرعجب سی ہلچل ہونے لگتی۔ انہیں ناخوشگواری محسوس ہونے لگتی۔ دل و دماغ کی گہرائیوں میں کہیں احساس گناہ پیدا ہونے لگتا۔ وہ ذہنی تنائو میں غرق ہونے لگتے۔
سلیم کا جواب سن کر انکے دل کو دھچکا ضرور لگا مگر انہوں نے خود پر قابو رکھا اور اپنی گذارش کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔’’ سلیم میر ی جان،تم سمجھو میری بات کو۔ دیکھو ہمارے گھر میں کتنے مہمان آتے ہیں اور ہمارا معاشرہ بھی دوسروں سے ذرا جُدا ہے، ہٹ کر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مٹھو کا ہروقت رام رام رٹتے رہنا درست نہیں لگتا، اس لئے تم اسے اُٹھائو اور وہیں چھوڑ آو جہاں سے اسے لائے تھے۔ یہ پنڈت جی کے سماج کا طوطا ہے ہمارے مزاج کا نہیں ہے۔ سمجھ گئے تم!‘‘ مولانا نے انتہائی صبر و تحمل سے کام لتے ہوئے اپنی بات پوری کی۔
مگر یہ بڑی بڑی باتیں سلیم کے سر کے اوپر سے نکل گئیں۔ اس نے گہری سانس کھینچی، نرم ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھر کر خت لہجے میں بولا۔ دادا جان یہ معاشرے، سماج اور مزاج کی تعلیم جو آپ مجھے دے رہے ہیں میری سمجھ سے پرے ہے۔ یہ علم آپکی انسانی دُنیا کا ہوگا مگر مٹھو تو پرندہ ہے۔ آپ کو یا آپکے مہمانوں کو اُسکا رام رام بولنا ہضم نہیں ہوتا تو میں کیا کروں۔ مٹھو کیا کرے۔ وہ بیچارہ تو وہی بولتا ہے جو اُسے کسی انسان نے سکھایاہے۔ وہ انڈے سے سیکھ پڑھ کر تو نہیں نکلا۔ اسمیں اس کا کیا قصور۔ ویسے بھی رام رام بولنے میں حرج کیا ہے۔ کیا بُرائی ہے رام رام میں۔ ذرا بتائینگے آپ مجھے دادا جان۔ آپ کان کھول کر سُن لیں میں مٹھو کو اپنے سے الگ نہیں کرونگا۔ میں نے کہدیا آپکو بس۔ اب آپ مجھے جانے دیں۔ سلیم نے وہاں سے جانے کے لئے جیسے ہی قدم اُٹھایا تھا کہ مولانا نے اُسکی کلائی پکڑلی۔ اُنکے صبر کا پیمانہ اب چھلکنے لگا تھا۔ سلیم میں اب تمہیں صاف صاف کہہ رہا ہوں۔ تم ابھی اسے یہاں سے رُخصت کرو۔ ورنہ میں اسے پنجرے سمیت گنگا میں ڈال آئونگا!۔ مولانا ریاض کا غُصہ اب کہیں دماغ میں چڑھ کر بولا۔
’’خبردار دادا جان۔ اگر آپ نے پنجرے کو ہاتھ بھی لگایا تو بہت پچھتائنگے آپ ۔اور ویسے بھی ہمارے یہاں گومتی ہے گنگا نہیں۔‘‘ سلیم مولانا کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈالکر بولا۔
’’ تمہارے ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے اور تم میرا مذاق اُڑا رہے ہو۔ سلیم ۔۔ سلیم۔۔ میں تمہیں آخر کس طرح سمجھائوں ! مولانا پل بھر کے لئے طیش میں آئے مگر یکدم پینترا بدلتے ہوئے پھر نرم پڑ گئے۔ آخر لاڈلے سلیم کے سامنے کب تک ٹک پاتے ۔ اُنہوں نے ایک بار پھر خود کو یکجا کیا اور سلیم سے مخاطب ہوئے۔۔۔ سُنو سلیم سنجیدگی سے سُنو۔ اب میں تمہیں بہت ہی گہری، باریک و اصل بات کہنے جارہا ہوں۔ جب تم ماشا اللہ بڑے جائوگے تو تم خود بخود ہر طرح کی حقیقت و تفصیل سے آشنا ہو جائوگے۔ فی الحال اتنا ہی ذہن میں رکھو اور سمجھو کہ مٹھو کا رام رام بولنا ہمارے مُسلم گھروں و معاشرے کو راس نہیں آتا۔ ہم مُسلمان ہیں یہ ہندو گھرانے کا طوطا ہے۔ ہمارے لئے نا موافق و نازیبا ہے۔ اگر پھر بھی تم اسے یہاں رکھنا چاہتے ہو، تو چلو میں تمہاری ضد ماننے کے لئے تیار ہوں۔ مگر ایک شرط پر۔ ورنہ ۔۔۔!‘‘
مولانا نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے معصوم سلیم کے چہرے پر اپنی تجربہ کار نگاہیں ٹکادیں۔
’’کونسی شرط داداجان۔ آپ مجھے بتائیں۔ میں کوئی بھی شرط ماننے کو تیار ہوں! ‘‘سلیم تجس میں بولا۔
مولانا نے گہری سانس لی اور اپنا آخر دائو پھینکا۔’’ شرط یہ ہے کہ اگر تم اس طوطے کو رام رام کے بجائے اللہ اللہ سکھا دو تو میں اسے اپنے گھر میں رکھنے کے لئے تیار ہوں۔ ورنہ نہیں۔‘‘
مولانا کی شرط سن کر معصوم سلیم اُنکے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ہمیشہ پیارا لگنے والے دادا جان کا چہرہ آج پہلی بار اُسے مولانا کے روپ میں اتنا بے رحم و بھیانک لگ رہا تھا کہ اُسکے نازک وجود میں جھُر جُھری دوڑ گئی۔ اُسکے من میں متعدد سوال اُٹھ رہے تھے۔ مگر اُس نے سب کا گلا گھونٹ دیا۔ چند ساتھیں چُپ چاپ سوچنے کے بعد سلیم کے لب ہلے۔’’ مُجھے آپکی شرط منظور ہے!‘‘۔ اتنا کہہ سلیم نے پنجرہ اُٹھایا اور اُسے لیکر اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ پانچ چھ دن مٹھو سب کی نگاہوں سے اوجھل رہا۔ کسی نے اُسکی صورت دیکھی نہ آواز ہی سُنی۔ پھر جس روز سلیم اُسے لیکر کمرے سے باہر نکلا تو وہ رام رام کی جگہ اب اللہ اللہ پڑھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر سبھی کے چہروں پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ خاصکر مولانا ریاض تواب بشا شت عد و فخر کے ملے جُلے احساس سے پُھولے نہیں سما رہے تھے کہ اُنہوں نےننھے سلیم سے کس قدر عظیم کارنامہ سر کروا ڈالا تھا۔
اس دن کے بعد مٹھو اس گھر کا چہیتا بن گیا۔ وہ مٹھو سے میاں مٹھو ہوگیا۔وہ سب کی آنکھوں کا نور اور کانوں کا سرور بن گیا۔ اب ہر کوئی اُسکی تعریف کرتا۔ اسکی شان  میں قصیدے پڑھتا ۔ مہمان آتے تو اُسے اُنکے روبرو ناز و انداز سے پیش کیا جاتا ۔ اُس سے اللہ اللہ بلوایا جاتا۔ مختصر یہ کہ اب مٹھو نے میاں مٹھو بن کے اس گھر میں سلیم کی جگہ بھی لے لی تھی۔
سبھی کو خوش دیکھ کر بظاہر سلیم بھی خوش تھامگر اندر سے وہ مرُ جھایا ہوا ہی تھا۔ اُسے گوپال کی یاد اب اور شدت سے آنے لگی۔ مٹھو جب تک رام رام بولتا تھا تب تک سلیم کو اُسمیں گوپال کی جھلک دکھائی دیتی تھی مگر جب وہ اللہ اللہ پڑھنےلگا تب سے اُسے اُسمیں اپنے مولانا دادا کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ اب مٹھو اُسکے لئے جیسے اجنبی ہوگیا تھا۔ پرایا ہوگیا تھا۔ اب اُسکی محبت سلیم کو وہ پہلے والا سکون نہیں بخشتی تھی۔ وہ خود کو بیحد تنہا محسوس کر رہا تھا۔
جیسے تیسے ایک ایک دن گزرنے لگاکہ ایک دن اچانک پنڈت برج نا دائین مع عیال واپس لوٹ آئے۔ سلیم اور گوپال ایک دوسرے سے مل کر اسقدر خوش ہوئے کہ پاگل سے ہوگئے ۔ چند گھڑیوں میں ہی مہینے بھر سے سونا پڑا یہ گھر پھر سے پُر رونق ہوگیا۔ اسکی چہل پہل لوٹ آئی۔ تھوڑی دیر گلے شکوے ہوئے۔ ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ پھر گوپال نے سلیم سے مٹھو کی بابت پوچھا۔ سلیم تو جیسے اسی تاک میں تھا۔ وہ فوراََ بھاگا اور چھت پار کر کے مٹھو کا پنجرہ اُٹھالایا۔ گوپال اور مٹھو ایکدوسرے کو دیکھ کر، چھو کر محبت کی زبان میں محو گفتگو ہوگئے۔ جبھی مٹھو کی چونچ کھلی اور اُس نے اللہ اللہ پڑھا۔ یہ سن کر سبھی حیران و ششدررہ گئے۔ بالخصوص پنڈت برج نارائین کےتو کان ہی سُن پڑ گئے۔ دل دھک سے بیٹھ گیا اورچہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ اُنہوں نے سوالیہ نگاہوں سے سلیم کی جانب دیکھا۔ بیچارہ سادہ لوح سلیم اُنکی نگاہوں کا مطلب بھلا کیا سمجھتا اور کیا جواب دیتا۔ وہ صرف جھینپ کر رہ گیا۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اُسے پنڈت جی کی نگاہوں میں اپنے مولانا دادا کی آنکھیں نظر آنے لگیں۔
شہر کے حالات قریب قریب سُدھر چُکے تھے، زندگی دھرے دھرے معمول پر لوٹ رہی تھی۔ مگر ان دو گھرانوں میں عجب سی کشمکش کا آغاز ہو گیا۔ مولانا صاحب چاہتے تھے کہ مٹھو اب اُنکے گھر میں ہی رہے۔ کیونکہ اب وہ اللہ اللہ پڑھتا ہے۔ وہ اُنکے معاشرے کی مطابقت میں ڈھل چُکا ہے۔ اب مٹھو میاں مٹھو ہوگیا ہے۔ اُدھر پنڈت برج نادائین کی مرضی تھی کہ مٹھو اللہ اللہ ترک کر کے پھر سے رام رام کہیں۔ تاکہ وہ اُنکے سماج کی مطابقت و ماحول میں لوٹ آئے۔ مٹھو کے منہ سے اللہ اللہ سُن کر پنڈت جی کی حالت بالکل ویسی ہی تھی جیسی رام رام سُن کر مولانا کی ہوتی تھی۔ پنڈت جی اور مولانا ریاض کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے خُدا نے ان دونوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالا ہوا تھا۔ دونوں میں سب کچھ یکساں تھا مگر ندی کے دو کناروں کی مانند جو کبھی ملتے نہیں۔ ہمیشہ آر پار رہتے ہیں۔
اب گوپال کے ساتھ وہی ازیت ناک قصہ دوہرا یا جانے لگا، جس سے چند روز قبل سلیم کو گزرنا پڑا تھا۔
’’گوپال اب یہ مٹھو ہمارے طور طریق کا نہیں رہا۔ ان لوگوں نے اسے اللہ اللہ سکھا دیا ہے۔ اب یہ مُسلمان ہوگیا ہے۔ ہمارے دھر م کا نہیں رہا اور نہ ہی ہمارے کام کا ۔۔۔! گوپال دادا پنڈت کی نہ سمجھ آنے والی کاناپھوسی سُن سُن کر تنگ ہی نہیں بے حد مایوس و دل شکستہ بھی ہوگیا۔۔۔ اُسے اس جنجال سے نکلنے کی کوئی بھی راہ سُوجھ نہیں رہی تھی۔
’’گوپال غور سے سُنو۔ اب یہ مٹھو میرے برداشت سے باہر ہے۔ یہ مجھے ایک کان نہیں بھاتا۔ صاف بات یہ ہے کہ اگر تم اسے دو چار دنوں میں اللہ اللہ بُھلا کر پھر سے رام رام پڑھا دو تو ٹھیک ہے۔ ورنہ میں اسے چڑیا گھر میں ٹانگ آئوں گا‘‘۔ اس بار پنڈت جی نے گوپال کے تئیں تمام تر نرمی طاق پر رکھ کر کرخت و فیصلہ کن لہجے میں پُھنکارا۔
’’ٹھیک ہے دادا پنڈت ۔ مجھے آپکی شرط منظور ہے ۔ ویسے میں آپکی اطلاع کے لئے بتادوں کہ محاورہ وایک کان نہیں بھاتا۔ نہیں ہے بلکہ ’’ایک آنکھ نہیں بھاتا‘ ہے‘‘۔ اس سے قبل پنڈت برج نارائین کچھ سمجھ پاتے گوپال اُنکی آنکھوں سے اوجھل ہو چُکا تھا۔
گوپال اور سلیم نے مل کر مٹھو کو پھر سے رام رام کا پاٹھ پڑھانا شروع کر دیا،جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا ریاض احمد کا دل مرُجھا گیا اور پنڈت برج نارائین کا چہرہ کھل اُٹھا۔ مانو اُنہوں نے ہارا ہوا قلعہ پھر سے فتح کر لیا ہو۔
لیکن اس ایک ماہ کے دوران بیچارے مٹھو کے دل پر کیا کیا بیتی یہ صرف مٹھو ہی جانتا تھا۔ اس رسہ کشی میں اُسکا دل خون کے آنسو رویا۔ وہ دل ہی دل سوچتا رہا کہ کس طرح انسان نے خود کو گھٹن بھر ےتنگ و تاریک نظریات کی سولی پر چڑھا رکھا ہے ،جن سے مذہب کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یہ صرف نچلے درجہ کی انسانی ذہنیت ہے ۔ خُدا نے تو انسان کو ساری کائینات میں سب سے افضل بنایا تھا، مگر یہ کیا سے کیا ہوگیا۔ مٹھو کو انسان کی جہالت پر رہ رہ کر افسوس ہورہا تھا اور حالت پر ترس بھی آرہا تھا۔
تاہم مٹھو کو اس بات کی انتہائی مسرت اور فخر تھا کہ دو معصوم فرشتوں نے اُسے رام رام اللہ اللہ پڑھا دیا ۔اور سمجھا بھی دیا اب وہ ہمہ وقت با آواز بُلند رام رام اللہ اللہ جپتا رہتا ہے ۔ اس پر گوپال اور سلیم خوشی سے اُچھل اُچھل پڑتے ۔ اُنکے معصوم دل روحانی مسرت سے باغ باغ ہوجاتے۔
……………………..
رابطہ :26،1 /2سبھاش نگر اُدھمپور جے اینڈ کے182101
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ناشری ٹنل اور رام بن کے درمیان بارشیں ، دیگر علاقوں میں موسم ابرآلود | قومی شاہراہ پر ٹریفک میں خلل کرول میں مٹی کے تودے گرنے سے گاڑیوں کی آمدورفت کچھ وقت کیلئے متاثر
خطہ چناب
! موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشیات کا نقصان
کالم
دیہی جموں و کشمیر میں راستے کا حق | آسانی کے قوانین کی زوال پذیر صورت حال معلومات
کالم
گندم کی کاشتکاری۔ہماری اہم ترین ضرورت
کالم

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?