گائو رکھشاکے نام پر شرپسندعناصر کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد پھر سے سرگرم ہوگئے ہیں اور اس مرتبہ وہ زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔انہوں نے چند روز قبل رام بن میں پولیس و سیکورٹی اہلکاروں کے سامنے مویشیوں سے لدے ایک ٹرک کوروک کرمویشی کھلے چھوڑ کر آگ لگادی ۔ٹرک کو نذر آتش کرنے سے قبل ان عناصر نے پتھرائو بھی کیا ۔واضح رہے کہ یہ ٹرک بیس مویشی لیکر کشمیر جارہاتھاجسے نشانہ بنایاگیا۔اگرچہ پولیس کی طرف سے اس سلسلے میں کیس درج کرکے متعلقہ ایس ایچ او کاتبادلہ بھی عمل میں لایاگیاہے تاہم واقعہ میں ملوث کسی ایک بھی فرد کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پولیس بھی ان عناصر کے سامنے بے بس ہے، جس نے پہلے تو انہیں کھلے عام یہ فعل انجام دینے کی مہلت دی اور اب ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میںنہیں لائی جارہی ۔ یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ صوبہ جموں کے مختلف حصوں میں اس سے قبل بھی ایسے کئی واقعات رونماہوچکے ہیں جن میں نہ صرف گاڑیوں کو نذر آتش کیاگیابلکہ بے گناہ افراد کی مار پیٹ بھی کی گئی ۔دراصل یہ واقعات گائو رکھشا کے نام پرتشکیل پائی بے لگام فورس کی طرف سے ملک بھر میں انجام دی جارہی کارروائیوں کا تسلسل ہیں جس میں اب تک کئی لوگوں کی جان بھی جاچکی ہے اور کئی کو زخمی کیاگیاہے۔یوپی ،راجستھان اور ملک کی دیگر ریاستوں میں حالیہ برسوں میں ایسے کئی واقعات رونماہوئے ہیں جن سے تحریک پاکر ریاست میں بھی ایسی سو چ رکھنے والے عناصر سرگرم ہوگئےہیں ۔پچھلے سال ضلع ریاسی میں ان عناصر نے ایک خانہ بدوش کنبے پر حملہ کرکے نو سالہ بچی سمیت پانچ افراد کو زخمی کردیا اورانہیں مال مویشی ڈھوک لیجانے سے روکاگیا جبکہ اس سے قبل راجوری میں بھی ایسے متعدد واقعات رونماہوچکے ہیں جن میں ایک گاڑی نذر آتش کردی گئی جبکہ ایک واقعہ میں میاں بیوی کی اس وقت پٹائی کی گئی جب وہ گھریلوضرورت کیلئے گائے خرید کر لیجارہے تھے اوراسی طرح سے مال مویشی کے ہمراہ ایک بزرگ شہری کی بے رحمی سے مار پیٹ بھی کی گئی ۔جموں خاص اور آس پاس کے علاقوں میں بھی ایسے واقعات سرانجام دیئے گئے ہیں۔بدقسمتی سے یہ ایک معمول بن گیاہے کہ اگر کوئی بھی گاڑی مویشیوں کولیکر کہیں سے جاتے ہوئے نظر آجائے تو اس کا شکوک و شبہات اور منفی سوچ کے ساتھ پیچھاکیاجاتاہے اورچاہے مویشیوں کی منتقلی کا یہ عمل قانونی لوازمات پورے کرنے کے بعدہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔گائو رکھشا کے نام پراُسے نشانہ بنانے سے احتراز نہیں کیا جاتا۔اس عمل کو مویشی سمگلنگ سے جوڑاجاتاہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ خانہ بدوش طبقہ کومویشی سمگلنگ کا الزام دے کرڈھوکوںمیںجانے سے روکنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ صدیوں سے یہ طبقہ گرمیوں میں اپنے مال مویشی چرانے کےلئے بالائی علاقوں اور سردیوں میں واپس زیریں علاقوں میں منتقل ہوکر اپنی گزر بسر کرتاہے ۔شرپسند عناصر کی طرف سے تو ایک واضح مقصد کے ساتھ ایسی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس پر پولیس بالکل خاموش رہ کر تماشائی کا کردارادا کررہی ہے اور اس کی طرف سے آج تک ایسی کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی جسے دوسروں کیلئے سبق آموز کہاجاسکے ۔ماضی میں رونماہوئے ایسے واقعات کے تحقیقاتی نتائج سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ پولیس ان عناصر کے سامنے بے بس ہے جو اپنی مذموم حرکت کی وجہ سے امن و قانون کی صورتحال اور ریاست میں بھائی چارے کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ رام بن واقعہ سمیت تمام ایسے واقعات پر کڑی کارروائی کی جائے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے اسے شرپسندوں کے ہاتھوں نہ دیاجائے ۔آخر کب تک ایسے واقعات کا نشانہ بننے والے صبر سے کام لیتے رہیں گے ۔ فی الوقت ریاست میں گورنر راج نافذ ہے اور ظاہر بات ہے کہ امن و قانون کا فروغ اور فرقہ پرستانہ نظریات کی تحدید اس انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہے لہٰذا رام بن کےواقع کی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کرکے متاثرین کو انصاف دلانے اور مجرمانہ زہنیت کے حملہ آور عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی توقع کی جاسکتی ہے!۔