رام بن //ضلع انتظامیہ میں موجود چند افسران قصبہ کے وسط میں لہلاتی ہوئی ملبری نرسری کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، وہ یہاں موجودہ بس اڈہ کو توسیع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پرانے ہسپتال کے عقب میں واقعہ یہ نرسری نہ صرف مریضوں کے لئے بلکہ شاہراہ پر واقعہ اس قصبہ کے لوگوں کے لئے آلودگی کے تریاق کا کام کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بس اڈہ بھی قصبہ کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن اس کے لئے ایک ہری بھری نرسری کو اجاڑنا کسی بھی طور پر مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا اور یہ بھی غیر منصوبہ بند ڈھنگ سے کام کرنے کا ہی ایک کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے جیسا کے پانچ برس قبل متذکرہ بالا بس اڈہ کی تعمیر سوچے سمجھے بغیر قصبہ کے وسط میں کر دی گئی اور اس کے لئے بھی محکمہ سیریکلچر سے نرسری کی 4کنال زمین حاصل کر لی گئی۔ یہ نرسری جہاں شجر کاری کا ایک اہم نمونہ ہے وہیں اس سے لوگوں کی روزی روٹی بھی وابستہ ہے ، شہتوت کے درختوں سے ابریشم کے کیڑوں کو پالنے کے لئے خوراک حاصل کی جاتی ہے اور اگر اس نرسری کو ختم کر دیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف قصبہ کی خوبصورتی ختم ہو جائے گی بلکہ ابریشم کی پیداوار سے جڑے ہوئے لوگوں کے روزگار پر بھی برا اثر پڑے گا۔ بس اڈہ میں جگہ کی اتنی زیادہ کمی نہیں ہے جتنی بد انتظامی کی ہے ۔ ضلع انتظامیہ، پولیس اور بلدیہ کے اہلکاروں کے نکمے پن کی وجہ سے بس اڈہ ریڑھی زون بن کر رہ گیا ہے جہاں تین سو کے قریب کھوکھے ہیں جن کی وجہ سے گاڑیاں کھڑا کرنے اور چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بلکہ بیشتر اوقات آٹو، ٹاٹا سومو اور دوسری گاڑیاں بس اڈہ سے باہر شاہراہ پر ہی پارک کر دی جاتی ہیں۔