نئی دہلی// کانگریس نے آج کہا ہے کہ متنازعہ رافیل جنگی طیارے سودے میں چونکہ وزیر اعظم نریندر مودي اور فرانس کے سابق صدرفرانسوااولاند کے علاوہ کوئی تیسراشخص شریک نہیں تھا اس لئے ایک سے زیادہ مرکزی وزیروں سے بیانات دلوانے کے بجائے اس معاملے میں چپ سادھے وزیر اعظم نریندر مودی خود سامنے آکر اس سودے کی حقیقت ملک کے سامنے رکھیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے منگل کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں منعقد خصوصی پریس کانفرنس میں کہا کہ 10 اپریل 2015 کو جب رافیل معاہدہ ہوا تھا اس وقت صرف مسٹر مودی اور مسٹر اولاند ہی بر سر موقع وہاں موجود تھے اور ان دو لوگوں کو ہی یہ معلوم تھا کہ رافیل سودے میں وہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم ہی حقیقت سامنے لا سکتے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ غیر متنازیہ سچ یہ ہے کہ مسٹر مودی کے دورے سے محض 15 دن پہلے رافیل ساز دسالٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایرک ٹراپیر نے کہا تھا کہ ایچ اے ایل کے ساتھ آف سیٹ سمجھوتہ 95 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے ۔ اسی طرح سابق سیکرٹری خارجہ جے شنکر نے دو روز قبل ایک بیان میں کہاتھا کہ مودی کے دورے سے دو روز قبل بیان دیا تھا کہ رافیل مودی جی کے اس دورے کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے . اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سودے سے چپ چاپ سرکاری زمرے کی کمپنی ایچ اے ایل کو باہر کا راستہ دکھا کر انیل امبانی کی کمپنی کو فائدہ پہونچانا مقصود تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب دو ہی لوگوں کو اس معاہدے سے متعلق معلومات ہے تو پھر یہ روز روز وزرائے خزانہ، زراعت، دفاع اور قانون اس بابت نزاعی سوالوں کے جوب کیوں دے رہے ہیں۔ مسٹر سبل نے کہا کہ اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر، سابق وزیر دفاع ارون جیٹلی یا موجودہ وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کی جب سودا گاہ تک رسائی ہی نہیں تھی تو وہ لوگ ان سوالوں کا جواب کیسے دے سکتے ہیں جس کا تعلق مودی اور اولاند کے مابین طے پانے والے معاملے سے ہے ۔ مسٹر سبل نے کہا کہ ساری صورتحال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پہلے سے ہی طے تھا کہ گھپلہ کرنا ہے ۔ اسی لئے حکمت عملی کے تحت لوک پال کی تشکیل نہیں کی گئی جبکہ لوک پال کے سلسلے میں اقتدار میں آنے سے قبل بھارتیہ جنتاپارٹی نے زمین آسمان ایک کردیا تھا۔ اب سمجھ آرہا ہے کہ جس لوک پال کو بنانے کے لئے اتنا ہنگامہ کیا گیا اسے بی جے پی حکومت نے چار سال میں اب تک کیوں نہیں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ رافیل سودے میں کئی حقائق غیر متنازع ہیں۔سابق خارجہ سکریٹری اور ڈسالٹ کے سابق سی ای او کے بیانات پوری طرح سے غیر متنازع ہے ۔ اسی طرح سے اس معاملے پر بھی کوئی تنازع نہیں ہے کہ اس کا آفسیٹ ٹھیکہ ایک تجربہ کار کمپنی کو دیا گیا۔ ان حالات کے پیش نظر سودے کے سلسلے میں جو بھی الزام لگائے جارہے ہیں، ان پر مودی حکومت کے وزیروں کی دلیل نہیں بلکہ وزیراعظم کو خود اس کا جواب دینا چاہیے ۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ اگر یہ سارے الزامات غلط ہیں تو مسٹر مودی کو اس معاملے میں اپنے وزیروں کی فوج نہیں لگانی چاہیے اور اس کے بجائے انہیں خود اس بارے میں وضاحت کرنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اگر وزیراعظم اپنی بات نہیں رکھتے ہیں تو معاملہ عوام کی عدالت میں ہے اور اگلے برس عام انتخابات میں عوام اس کا جواب دے دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے سے قبل جو بھی وعدے کئے تھے ، وہ سارے جملے ثابت ہوئے گئے ہیں اس لیے اب انہیں تبدیل کردیا جانا چاہیے ۔ مسٹر مودی کا 'نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا' والا نعرہ اب 'نہ بولنے دوں گا اور نہ بولوں گا' میں بدل گیا ہے ۔ حکومت کو بتانا چاہیے کہ 126 رافیل طیاروں کی جگہ صرف 36 کے لئے سمجھوتہ کرکے ملک کی سکیورٹی کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا گیا۔