ہلال بخاری
غذا کی قلت ایک ملک کی ترقی میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ خالی پیٹ لوگ اکثر جانوروں کی طرح وحشی بن سکتے ہیں ۔ بہت سے ممالک میں غذاکی قلت کی وجہ سے جرائم میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جو حکومت لوگوں کا پیٹ نہ پال سکے اسکا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ ہمارے یہاں غذاکی قلت ماضی میں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے عرصہ دراز تک ہماری ترقی محال رہی۔ لیکن آج ہمارے ملک میں غذا کی کوئی قلت نہیں ہے۔ حکومت نے بہت سارے ایسےاقدامات اٹھائے ہیں، جن سے ملک کے مفلس اور تنگدست لوگوں کو بھی راحت ملی ہے۔ ان اقدامات کے لئے ہر وہ حکومت تعریف کی حقدار ہے، جس نے غریبوں کی راحت کے لئے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگر ہمارا ملک آج ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو اس کی ایک اہم وجہ،وہ مختلف ا سکیمیں بھی ہیں جن کے تحت ملک میں فاقہ کشی اور دیگر کئی مسئلے حل ہوئے ہیں۔ آج ہمارے ہم فخر سے کہہ سکتے ہیںکہ ہمارے یہاں فاقہ کشی کی صورت حال نہیں ہے۔البتہ ہمارے یہاں کے ایک انسان کے لئے ماہانہ جتنے راشن کی ضرورت ہے ،اُتنی اُسے فراہم نہیں ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں غریب لوگوں کے لئے پریشانیاں اٹھانا پڑتی ہیں۔اور وہ مہنگائی کے اس دور میں اپنی غذائی اجناس کے حصول سے قاصر ہورہا ہے۔
ہمارے وادیٔ کشمیر میں چاول غذا کا سب سے اہم عنصر ہے۔ یہاں کے تقریباً سبھی لوگ چاول کھانے کے ہی عادی ہیں۔مگر بد قسمتی سے جب سےسرکار کی طرف سے چاول کی مفت فراہمی ہوئی ہے ،وہ مناسب مقدار میں نہیں ملتی ،چنانچہ مفت راشن کی فراہمی سے قبل ہمارے یہاں سرکاری راشن اسٹور سے ماہانہ فی کس گیارہ کلو چاول ملتا تھا ،جس کے نتیجے میں ہر فرد کی غذائی ضرورت پوری ہوتی تھی ،اب اگر چہ پانچ کلو چاول ماہانہ مفت ملتی ہے اس کے باوجود غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر فرد کو بازار سے مہنگے داموں پر راشن خرید نا پڑتا ہے۔اب تو کچھ عرصے سے ہماری ریاست میں ہر طرف راشن کی قلت کا احساس ہوتا ہے۔ چاول جو سرکاری اسٹوروں میں وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا، اب اس میں واضح کمی نظر آتی ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہمارے راشن ڈیپو میں چاول نایاب ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چاول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے مگر سرکاری طور پر اس طرح کے کسی حکم نامے کے بارے میں ہم کو کچھ اطلاع نہیں ملی ہے۔ اس اثناء میں یہاں کے گلہ داروں نے ذخیرہ اندوزی کرکے غیر منصفانہ انداز میں چاول کی قیمتوں میں خود بہ خود اضافہ کیا ہے۔ کچھ لوگ آج ضرورت مندوں سے منہ مانگے دام وصول کررہے ہیں۔ جو لوگ خود کو ایماندار کہتے ہیں، انکے شایانِ شان نہیں کہ وہ موقعے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کا بازار گرم کریں۔ بہت سے غریب لوگ راشن کی قلت کی وجہ سے پریشانی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ وہ راشن کی قلت کی وجوہات کے بارے میں سب لوگوں کو آگاہ کرے۔ اگر قیمتوں میں اضافہ کرنا مقصود ہے تو اس بارے میں بھی لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ انکو اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔ اگر حکومت بروقت کارروائی نہیں کرے گی تو لوگ اپنی من مانی کرتے رہیں گے جس سے ہمارے غریب لوگوں کو اور زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔