جنگجو مخالف آپریشنوں کی شدت جاری ہے اور اب وہ دن بڑا مبارک ہوتا ہے جب کوئی انسانی جان ان آپریشنوں کی بھینٹ نہ چڑھ جائے ۔بڑی تعداد میں اب تک عسکریت پسند مارے جاچکے ہیں جن میں ایسے کمانڈر بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے مطلوب ہونے کے باوجود بھی فورسز کے ہاتھ نہیں آرہے تھے ۔شوپیان میں ایک ہی آپریشن میںجو چھ جنگجو جاں بحق ہوئے وہ سب سے بڑی عسکری تنظیموں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کے لئے ایک بڑا دھچکاتھا ۔اب کچھ لوگ یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ اگر یہ آپریشن اسی شدت کے ساتھ جاری رہے تو عسکریت کا دبدبہ کا فی حد تک ختم ہوجائے گا۔فورسز کی کارروائیاں اس خیال کی تائید کرتی ہیں لیکن عسکریت کا دبدبہ ختم ہونے سے کیا حالات 1990ء سے پہلے کی سطح پر پہنچ جائیں گے ۔گورنر ستیہ پال ملک نے ایک بار خود کہا تھا کہ مقصد جنگجووں کو ختم کرنا نہیں بلکہ اس جذبے کو ختم کرنا ہے جو جنگجو پیدا کرتا ہے ۔لیکن جس طرح کے آپریشن ہورہے ہیں وہ جنگجووں کو ختم کرنے کا باعث تو ہورہے ہیں لیکن اس جذبے کو اورزیادہ مضبوط بنانے کا کام بھی کر رہے ہیں جو جنگجو پیدا کرنے کی وجہ بنتا ہے ۔گزشہ تین ماہ کے دوران ان آپریشنوں کے دوران پچاس کے قریب شہری بھی مارے گئے جن میں زیادہ تر انیس سے پچیس سال کے کشمیری تھے ۔ ان آپریشنوں کے دوران پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے جن کے دوران بہت سے لوگ زخمی ہوئے ۔ پیلٹ کا استعمال بھی ہوا اور بلٹ کا بھی ۔
صرف 19مہینوں کی شیرخوار بچی ہبہ کی آنکھ میں بھی پیلٹ گھس گئے ۔اس کی ایک آنکھ کے متعلق ابھی بھی ڈاکٹر پراعتماد نہیں کہ وہ اس کی بینائی بچانے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔جنگجووں کی تدفین کے دوران رقعت آمیز جذباتی مناظر میں لوگوں کا جوش و خروش پہلے سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے ۔چار ٹائر والے محاصرے کے باوجود بھی لوگ جانوں کی پرواہ کئے بغیر اینکاونٹر کی جگہوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔اس طرح سے جتنے بھی جنگجو مارے جاتے ہیں وہ اپنے پیچھے اپنا جنون اور جذبہ ہزاروں دلوں کے اندر بھر جاتے ہیں اور یہ لوگ جب تک موجود رہیں گے جنگجویت کے خاتمے کی بات سوچنا بھی درست نہیں ہوگا ۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گورنر ستیہ پال ملک نے جنگجویت کے متعلق جس آفاقی سچائی کا اظہار کیا تھا وہ ان کے دور میں بھر پور انداز میں پھل پھول رہی ہے ۔گورنر ملک سیاست داں ہیں اور سیاست داں لفظوں کا جادوگر ہوتا ہے ۔ انہوں نے جب اس جذبے کو مارنے کی بات کی تھی جو جنگجو پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے تو لگتا تھا کہ پہلی بار ایک ایسا حکمراں آیا ہے جو حالات کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھ رہا ہے ۔وہ صرف موت کا تانڈو کھیل کر اپنے آپ کودیش بھگتوں کی فہرست میں سب سے اوپر نہیں لانا چاہتا ہے ، اس لئے وہ اپنے پیشروں سے بہت مختلف ثابت ہوگا لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ انہوں جو کچھ کہا تھا لفظوں کی جادوگری تھی اور لفظوں کی اس جادوگری نے ان کے متعلق جو تصور پیدا کیا تھا اس کی دھجیاں اڑ چکی ہیں ۔ان کا پورافوکس جنگجووں کا خاتمہ کرنے پر ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ جنگجووں کا خاتمہ ہی حالات کو تبدیل کرنے کا ایک واحد راستہ ہے۔ چنانچہ جس قدر جلد ممکن ہوجنگجووں کا خاتمہ کیا جانا چاہئے تاکہ حالات معمول پر آجائیں ۔یہ بات درست ہے کہ جنگجووں کی بالادستی کم ہونے سے بھی حالات میں کئی بنیادی تبدیلیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ جنگجووں پر شدید دباو کے نتیجے میں ہی جنوبی کشمیر کے سوا تقریباً ہر جگہ پنچایت انتخابات کی پولنگ میںخاطر خواہ طور پر لوگوں نے شمولیت کی تو غلط نہیں ہوگا لیکن جنگجووں کا خاتمہ ہی اس صورتحال کا حل نہیں جو اس وقت کشمیر میں موجود ہے ۔اس سے بڑا مسئلہ عوام کا وہ اعتبار اور اعتماد ہے جو ختم ہوچکا ہے اس کو بحال کیا جائے تو جنگجو بھی حالات کے بدلاو کو روک نہیں سکیں گے ۔
یہ سوچ ایک مختلف حکمت عملی کا تقاضا کررہی ہے اور جب گورنر ستیہ پال ملک نے اپنے ایک جملے سے اس سوچ کا اظہار کیا تو بڑی توقعات پیدا ہوئیں لیکن عملی طور پر جو ہورہا ہے وہ اعتبار اور اعتماد کو ایسے زخموں میں تبدیل کررہا ہے جو ہمیشہ دلوں میں تازہ رہیں گے اور حالات کو کبھی بہتر نہیں ہونے دیں گے ۔مرکز اور ریاستی گورنر دونوں کے لئے اس بات پر غور کرنا اور اسے سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جو نوجوان عسکریت پسندوں کی حمایت میں اپنی جانیں لیکر بندوقوں کے سامنے آتے ہیں کیوں آرہے ہیں ۔ان کا اس میں کونسا فایدہ ہے ۔ اس طرح سے انہیں کونسا روزگار ملے گا ۔ کونسی ترقی ملے گی ۔ان کے دلوں کی آگ انہیں ایسا کرنے پر آمادہ کررہی ہے ۔ یہ آگ کیوں اورکیسے لگی ہے اور اس کو بجھانے کے لئے کونسی حکمت اور کونسی تدبیر اختیار کرنی ہوگی ۔اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے پنچایت انتخاب میں عوام کی شمولیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ جنہوں نے ووٹ ڈالے وہ مین سٹریم میں شامل ہیںاس لئے اگر جنوبی کشمیر میں بھی جنگجووں کا خاتمہ کیا جائے تو ڈر اور خوف ختم ہوگا اور لوگ انتخابات میں بھر پور شمولیت اختیار کرکے مین سٹریم کا حصہ بنیں گے ۔یہی وہ سوچ ہے جو ایسی غلطیوں کا اعادہ کراتی ہے جو حالات کا رخ بار بار موڑ رہی ہیں ۔ یہ بات نہ جانے کیوں فراموش کی جارہی ہے کہ اب تک اتنے الیکشن ہوئے اور کئی انتخابات میں لوگوں نے بھرپور طور پر شمولیت بھی کی ۔ قومی دھارے کی مقامی جماعتوں نے بھی اقتدار سنبھالا اور عوامی سطح پر رابطے بھی استوار ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی حالات نے مختلف مواقع پر کروٹیں بدلیں اور ہر مرحلے پر پہلے سے زیادہ بدتر حالات سامنے آتے رہے ۔ایک یہ خیال بھی سرکاری سطح پر پالیسیاں بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے کہ جنگجویت اور نوجوانوں کی شدت پسندی مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے ۔اگر یہ خیال درست ہوتا تو کولگام جو موجودہ حالات کا سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے میں سی پی آئی ایم کے رکن کو لوگ ووٹ دیکر منتخب نہیں کرتے ۔مذہبی انتہا پسندی بھی ایک فیکٹر ہے لیکن وہی ایک فیکٹر نہیں ہے ۔کشمیر کے سماج میں عقیدوں اور سوچوں کا ایک تنوع ہے اس لئے موجودہ حالات پیدا کرنے میں اس سے زیادہ نئی دہلی کے اقدامات اور پالیسیوں کے علاوہ دیگر کئی معاملات بھی اپنا کردار اداکررہے ہیں ۔جب تک ان کا تجزیہ نہ کیا جائے اور ان کو پوری طرح سے سمجھ کر کشمیری عوام کی نفسیات اور اور ان کی خواہشات کا ادراک نہ کیا جائے کشمیر کے حالات میں مستقل تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ مثبت سوچ اور پالیسی اختیار کرکے نتائج حاصل کرنے کا یہ بہت ہی اہم وقت ہے کیونکہ جو اعتبار ملک سے ٹوٹ کر مزاحمتی قیادت کی طرف منتقل ہوا تھا وہ اس قیادت سے بھی مایوس ہورہا ہے ۔اس لئے ایک خلاء ہے جس کو وہی بھر سکتا ہے جو امیدیں اور خواہشیں پوری کرنے کا اعتبار پیدا کرے ۔