بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر میں مرکز کے زیر انتظام درجہ ملنے کے بعد پہلی مرتبہ راجیہ سبھا انتخابات آج یعنی جمعہ کو منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ عددی لحاظ سے نیشنل کانفرنس کو 3 نشستوں پر برتری جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک نشست کیلئے مضبوط پوزیشن میں ہے۔انتخابات چار راجیہ سبھا نشستوں کے لیے 3 نوٹیفکیشنوں کے تحت کرائے جا رہے ہیں۔ ایک نشست پر نیشنل کانفرنس کے چودھری محمد رمضان کا مقابلہ بی جے پی کے ڈاکٹر علی محمد میر سے ہو رہا ہے، جبکہ دوسری نشست پر نیشنل کانفرنس کے سجاد کچلو بی جے پی کے راکیش مہاجن کے مدمقابل ہوں گے۔ تیسری نوٹیفکیشن کے تحت دو نشستوں پرنیشنل کانفرنس کے جی ایس اوبرائے (شمی اوبرائے) اور عمران نبی ڈار کا مقابلہ بی جے پی کے ست شرما سے ہے۔نیشنل کانفرنس نے جمعرات کو اپنے تمام اراکین اسمبلی کیلئے وہپ(پارٹی حکم نامہ) جاری کیا ہے تاکہ وہ پارٹی امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے لازمی طور پر موجود رہیں۔پارٹی کے چیف وہپ مبارک گل نے کہا کہ اراکین پارٹی کی طرف سے نامزد کردہ سرکاری امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالیں اور پارٹی کی ہدایات کے برعکس ووٹ دینے، غیر حاضر رہنے یا ووٹ دینے سے سختی سے گریز کریں۔ اراکین اسمبلی کو انتباہ کیا گیا کہ غیر حاضر رہنے کی صورت میں انکے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ جموں و کشمیراسمبلی کی کل تعداد 88 ہے، جن میں سے این سی کی قیادت والے اتحاد کے پاس 54 اراکین کی حمایت ہے جبکہ بی جے پی کے 28 اراکین اسمبلی ہیں، جنہوں نے اپنے ریاستی صدر ست شرما کو تیسری نوٹیفکیشن میں امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے۔حکمران جماعت نیشنل کانفرنس ا وراسکی اتحادیوں کے پاس کل52 قانون ساز ہیں، جن میں نیشنل کانفرنس کے 41، کانگریس کے 6 ،سی پی آئی ایم کاایک ممبر اور 5 ایسوی سیٹ آزاد ممبران ہیں۔ اپوزیشن جماعت بی جے پی کے پاس 28 قانون ساز ہیں، پی ڈی پی کے پاس3، عام آدمی پارٹی کا ایک، جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کا ایک، عوامی اتحاد پارٹی کا ایک اور شبیر احمد کلے(آزاد) بھی ایوان کے رکن ہیں۔ بی جے پی کو پیپلز کانفرنس کے حالیہ فیصلے سے فائدہ پہنچا ہے، جس میں انہوں نے راجیہ سبھا انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو اعتماد ظاہر کیا کہ نیشنل کانفرنس تمام 4 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگی۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کامیابی کے لیے ہر غیر بی جے پی ووٹ نیشنل کانفرنس کے حق میں پڑنا لازمی ہے۔ادھر کانگریس کے ارکان نے انتخابات سے قبل منعقدہ اتحادی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ عمر عبداللہ نے اس عدم شرکت کو معمول کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہر پارٹی کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ کانگریس اپنی قیادت کے اشارے کی منتظر رہتی ہے، جبکہ ہم اپنے فیصلے خود لیتے ہیں۔ اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ سی پی ایم کے محمد یوسف تاریگامی اور آزاد اراکین نے اجلاس میں شرکت کی جس پر وہ شکر گزار ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا،’’میرے اراکین اور اتحادیوں میں جو جوش و خروش ہے، اس سے میں پرامید ہوں کہ نیشنل کانفرنس کے تمام امیدوار کامیاب ہوں گے۔‘‘پی ڈی پی کی جانب سے حمایت کے حوالے سے عمر عبداللہ نے بتایا کہ اگرچہ محبوبہ مفتی نے باضابطہ اعلان نہیں کیا، لیکن انہوں نے پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور شمی اوبرائے کو یقین دلایا ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے مشورہ کرنے کے بعد’’درست فیصلہ‘‘ کریں گی۔قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر کے 4 راجیہ سبھا نشستیں فروری 2021 سے خالی ہیں، جب غلام نبی آزاد، نذیر احمد لاوے، فیاض احمد میر اور شمشیر سنگھ منہاس کی مدتیں مکمل ہوئیں۔