سمت بھارگو
راجوری/جموں// جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کے ایک گائوں میں گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو فوجی اہلکاروں نے لہو لہان کردیا۔ فوج نے اس واقعہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔جمعرات کی رات دیر گئے سرحدی گائوں لام کے قریب مبینہ حملے میں پروفیسر لیاقت علی کے سر پر چوٹیں آئیں اور ایک مبینہ ویڈیو آن لائن منظر عام پر آئی جس میں پروفیسر کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔فوج نے اس واقعہ کے حوالے سے کہا”ایک واقعہ منظر عام پر آیا ہے جس میں راجوری ضلع میں فوج کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر کچھ لوگوں سے بدتمیزی کی تھی، فوج کو اس حساس علاقے میں ایک گاڑی میںملی ٹینٹوں کی ممکنہ نقل و حرکت کی اطلاع ملی تھی‘‘۔فوج نے جموں میں ایک بیان میں کہا، “ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ روکے جانے پر، فرد نے ڈیوٹی پر موجود فوجیوں کے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی، تاہم اس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے، اگر کوئی اہلکار بدتمیزی کا مرتکب پایا گیا تو موجودہ قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔”اس میں کہا گیا ہے کہ فوج انسداد ملی ٹینسی کی کارروائیوں میں پیشہ ورانہ مہارت اور نظم و ضبط کے اعلی ترین معیارات کو برقرار رکھنے میں ثابت قدم ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات سے درخواست ہے کہ وہ اس حساس علاقے میں اجتماعی اور جامع سیکورٹی کے لیے ہندوستانی فوج کے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔مبینہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پروفیسر اور ان کے کچھ رشتہ دار اپنے ایک رشتہ دار کی شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے مقام کالاکوٹ واپس جا رہے تھے۔نئی دہلی میں تعینات اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (IGNOU) کے پروفیسر علی نے X پر ایک پوسٹ لکھی جس میں کہا گیا کہ ان پر بغیر کسی وجہ کے “حملہ” کیا گیا۔انہوں نے ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہا”میرا پورا خاندان ہندوستانی فوج میں ہے، مجھے ہمیشہ اس پر فخر رہا ہے، وردی، خدمت، قربانی پر فخر ہے، لیکن آج جو کچھ میں نے محسوس کیا اس نے اس فخر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بغیر کسی وجہ کے، بغیر کسی سوال کے، مجھ پر حملہ کیا گیا ، سر پر ان لوگوں نے ہتھیار سے مارا جن پر میں نے کبھی اندھا اعتماد کیا تھا،” ۔پروفیسر نے لکھا”اس نے مجھے ایک خوفناک سچائی کا احساس دلایا، اگر نظام چاہے تو وہ کسی بھی انسان سے ‘مقابلہ’ کر سکتا ہے ،بغیر ثبوت کے، بغیر مقدمے کے، بغیر انصاف کے، کوئی معافی نہیں جو اس زخم کو مٹا سکے، صرف ایک پریشان کن سوال رہ گیا ہے ،کیا اب انصاف صرف یونیفارم کا استحقاق بن گیا ہے؟” ۔