ریاست کے دوردراز اور پہاڑی علاقوںمیں ماہانہ مشاہروں پر کام کرنے والے ورکروں اورسرکاری ملازمین کی اپنے فرائض منصبی کے تئیں سنجیدگی کا اندازہ ضلع راجوری کو دیکھ کر بخوبی لگایاجاسکتاہے جہاں ناقابل یقین طور پر ایک ہی دن میں 1400سے زائد ورکر اورملازمین جن میں18سپروائزر بھی شامل ہیں، ڈیوٹی سے غیر حاضرپائے گئے ۔ڈپٹی کمشنرراجوری ڈاکٹر شاہد اقبال کی ہدایت پر چند روز قبل جب ضلع میں قائم آنگن واڑ ی مراکز کامختلف ٹیموںکی طرف سے ایک ساتھ معائنہ کیاگیا تواس دوران 500سے زائد آنگن واڑی سنٹربند پائے گئے ۔معائنہ کے دوران یہ بات عیاں ہوئی کہ آنگن واڑی مراکزمیں تعینات ورکروںاور ملازمین میںسے 1400غیر حاضر ہیں۔ایک ہی دن میں اتنی بڑی تعداد میں ورکروںاور ملازمین کی ڈیوٹی سے غیر حاضر ی جہاں ہمارے نظام کااحوال بیان کرتی ہے وہیںاس سے حکومت کے ملازمین کو جوابدہ بنانے کے دعوئوں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے ۔ضلع راجوری اس حوالے سے ایک مثال بن گیاہے اور اگر ضلع پونچھ ، ڈوڈہ ، کشتواڑ ، رام بن ، ریاسی وغیرہ کا بھی اسی طور پر معائنہ کیاجائے تو یقینا صورتحال اس سے مختلف نظر نہیں ہوگی ۔ آنگن واڑی مراکز میں کام کرنے والا بیشتر عملہ آئی سی ڈی ایس سکیم کے تحت تعینات ہوتاہے جسے مرکزی حکومت کی طرف سے ماہانہ مشاہرہ فراہم کیاجاتاہے لیکن ان اضلاع میں ریاستی حکومت کے ماتحت محکمہ جات کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے اورروزانہ کی بنیاد پر سرکاری ملازمین کی معطلی کے احکامات صادر ہوتے رہتے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معائنہ کے بعد بھی ملازمین کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور راجوری میں اس کے بعددیگر سرکاری محکمہ جات کے درجنوں ملازمین کو ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میںمعطل کیاجاچکاہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ان اضلاع میں اگر نظام اس قدر خراب نہ ہوتاتو لوگوں کو معمولی سے علاج کیلئے جموں کارخ نہ کرناپڑتا اور نہ ہی بچوں کی پڑھائی کیلئے والدین جموں شہر کا انتخاب کرتے ۔یوں تو ملازمین کی ڈیوٹی کے تئیں غیر سنجیدگی سے ہر ایک شعبہ متاثر ہورہاہے لیکن سب سے برا اثر شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم پر پڑ رہاہے ۔آج حالت یہ ہے کہ خطہ پیر پنچال اور وادی چناب میں ہسپتال تو قائم ہیں اور اچھے اچھے ڈاکٹر بھی تعینات ہیں لیکن معمولی سے مرض کو لیکربھی لوگوںکو سینکڑوں میل دورجموںجاناپڑتاہے ۔ان اضلاع میں ڈیوٹی ملازمین کیلئے فرائض منصبی کی انجام دہی نہیں بلکہ وقت گزاری بن کر رہ گئی ہے ۔پہلے تو افسران ان علاقوں میں ڈیوٹی کیلئے جاناہی نہیں چاہتے لیکن اگر انہیں تعینات کربھی دیاجا تا ہے تو ان میںسے بیشتر کسی طرح سے اپناوقت گزارنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ان خطوں میں تعینات ڈاکٹروں ، انجینئروں اور اساتذہ کی قابلیت پر کوئی شک نہیں اور اگر وہ اپنی ڈیوٹی کو فریضہ سمجھ کر انجام دیں تو زمینی سطح پر نمایاں تبدیلی رونما ہوسکتی ہے لیکن چونکہ اکثر ملازمین اور افسران اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرتے اس لئے پیر پنچال اور چناب کے عوام کی حالت میں کوئی بدلائو نہیں آیاہے ۔ سرکاری سکیموں کے نفاذ سے لیکر بنیادی سہولیات کی فراہمی تک ہر ایک معاملے میں یہ خطے ریاست بھر میں پسماندہ ہیں جس کیلئے اگر کچھ حد تک حکومتیں ذمہ دار ہیںتو کچھ حد تک ملازمین بھی ذمہ دار ہیں۔یہ ایسے علاقے ہیں جہاںکام کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے اور سرکاری رقومات کا منصفانہ بنیادوں پر استعمال کرکے نہ صرف زمینی نقشہ بلکہ لوگوں کی تقدیر بھی تبدیل کی جاسکتی ہے لیکن اس کیلئے چھوٹے سے چھوٹے ملازم سے لیکر اعلیٰ درجے کے افسر تک ہر ایک کو اپنے فرائض کو ایمانداری سے انجام دیناہوگا اور یہ تاثر ختم کرناہوگاکہ خطہ پیرپنچال اور خطہ چناب میں ملازمین یا افسر ان ڈیوٹی کرناہی نہیں چاہتے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے جموں وکشمیر اور ریاست کو ماڈل ریاست بنانے کے خواب دکھانے کے بجائے حقیقی معنوںمیںزمینی سطح پرتبدیلی کیلئے کام کیاجائے ۔