یٰسین جنجوعہ
راجوری//ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں جہاں ہر شعبے میں جدیدیت نے جگہ بنائی ہے، وہیں زراعت کے میدان میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ضلع راجوری اور پونچھ کے دیہی علاقوں میں اب گھاس کاٹنے کے لئے روایتی درانتی (sickle) کی جگہ جدید مشینوں نے لے لی ہے۔ اس تبدیلی نے نہ صرف کسانوں کی محنت کم کر دی ہے بلکہ وقت کی بھی بڑی بچت ممکن بنا دی ہے۔پہلے کے زمانے میں کسان گھاس کاٹنے کے لئے درانتی کا استعمال کرتے تھے، جو ایک وقت طلب اور جسمانی طور پر محنت طلب عمل تھا، خاص طور پر گرمیوں کے دنوں میں گھنٹوں دھوپ میں کام کرنا کسانوں کے لئے نہایت دشوار ہوتا تھا۔ مگر اب چھوٹی گھاس کاٹنے والی مشینیں (Grass Cutters / Brush Cutters) بازار میں عام دستیاب ہیں اور کسان بڑی تیزی سے ان کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔راجوری کے ایک کسان محمد سلیم کا کہنا ہے کہ ’پہلے ہم پورے کھیت کی گھاس کاٹنے میں دو دن لگا دیتے تھے، لیکن اب یہ کام دو گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ مشین سے گھاس یکساں طور پر کٹتی ہے اور جانوروں کیلئے چارہ بھی بہتر حالت میں محفوظ رہتا ہے‘۔راجوری کے نوشہرہ سب ڈویژن کے کسانوں کا کہنا ہے کہ مشینوں نے نہ صرف محنت کو کم کیا ہے بلکہ خواتین کو بھی گھاس کاٹنے کے عمل سے بڑی حد تک راحت ملی ہے۔ پہلے خواتین بڑی تعداد میں کھیتوں میں جا کر درانتی سے گھاس کاٹتی تھیں، جس سے جسمانی تھکن اور چوٹ لگنے کے واقعات عام تھے۔ اب مشینوں کے استعمال سے یہ خطرات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔زراعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ راجوری اور پونچھ کے کسانوں میں تکنیکی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب وہ جدید زرعی آلات جیسے پاور ٹلر، گھاس کاٹنے والی مشینیں، اسپرے پمپ، اور واٹر پمپ جیسی سہولیات کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس سے پیداوار میں اضافہ اور وقت کی بچت دونوں ممکن ہو رہی ہیں۔راجوری کے ایک زرعی افسر نے بتایا کہ حکومت کی مختلف اسکیموں کے تحت کسانوں کو سبسڈی پر زرعی مشینری فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہماری کوشش ہے کہ ہر پنچایت میں کم از کم کچھ کسان جدید مشینری استعمال کریں تاکہ دوسرے کسان بھی متاثر ہوں اور زراعت میں جدیدیت آئے‘‘۔پونچھ کے بعض علاقوں میں نوجوان کسانوں نے ان مشینوں کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کئے ہیں۔ وہ اپنی مشینری کرائے پر دوسرے کسانوں کو فراہم کرتے ہیں، جس سے انہیں اضافی آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔کئی بزرگ کسانوں نے اگرچہ روایتی طریقوں کے خاتمے پر کچھ افسوس کا اظہار کیا ہے، مگر وہ بھی مانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ تبدیلی ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’پہلے ہاتھ کی درانتی سے کام کرنے میں جو اطمینان تھا، وہ ضرور کم ہوا ہے، مگر آج کے حالات میں تیزی اور آسانی کی ضرورت ہے‘‘۔راجوری اور پونچھ کے کھیتوں میں اب مشینوں کی آوازیں درانتی کی چھنکار کی جگہ لے چکی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ پہاڑی اضلاع میں زراعت بھی اب جدید ٹیکنالوجی کی راہ پر گامزن ہے۔