سبزار احمد بٹ
انسان کی ترقی کا دارومدار اس کی محنت و مشقت پر ہے۔ زندگی کا چاہے کوئی بھی شعبہ ہو ترقی اور بلندی تو فقط محنت سے ہی ملتی ہے۔ زمیندار جب تک اپنی زمینوں میں محنت کر کے خون پسینہ ایک نہیں کرتا تب تک اچھی فصل حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی کاروباری شخص جب تک اپنے کاروبار میں دل و جان سے محنت نہیں کرتا تب تک اس کا کاروبار کامیاب ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر طالب علم کی بات کریں گے جو طالب علم رات دن محنت کرتے ہیں اپنی نیندیں حرام کرتے ہیں ،ان کے مقدر میں کامیابی لکھ دی جاتی ہے اور جو محنت سے جی چراتے ہیں ناکامی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ ایک ضرب المثل ہے کہ محنت میں برکت ہے ۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی کام بڑا چھوٹا نہیں ہوتا ہے بس ایک انسان کی محنت، لگن، ایمانداری اور سچائی کی بنیاد پر وہ کام چھوٹا یا بڑا قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت سارے لوگ زمینداری کرتے ہیں ،سب کو اچھی فصل نہیں ملتی ۔ ہزاروں لوگ کاروبار کرتے ہیں سب کے سب سرخ رو نہیں ہوتے اور لاکھوں کی تعداد میں بچے امتحان میں بیٹھتے ہیں لیکن سب کے نصیب میں کامیابی نہیں ہوتی۔ کیونکہ سرخرو ہونا تو محنت پر منحصر ہے۔بقولِ شاعر
محنت سے مل گیا جو سفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا
موجودہ دور میں ہمارے جموں وکشمیر کے نوجوان بے روزگاری کا رونا رو رہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بے روزگاری کا تناسب بڑھتا جارہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نظر میں روزگار فقط سرکاری نوکری ہے۔ ہمارا ذہن ایسا بن گیا ہے کہ ہم کسی اور ذریعہ معاش کو روزگار سمجھتے ہی نہیں ہیں اور نہ ہم یہ حقیقت ماننے کے لیے تیار ہیں کہ سب کو سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ہے۔ کچھ نوجوانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔ اور الحمدالله کامیاب بھی ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب دیکھتی ہے اور یہ ایسا خواب ہے جو ہمیں غفلت کی نیند سے کبھی جاگنے ہی نہیں دیتا ہے ۔ ہم اسی خوابِِ غفلت میں سوئے رہتے ہیں اور اس طرح سے ہمارا مستقبل تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔
کبھی ہمارے نوجوان dream 11 میں پیسے خرچ کرتے ہیں تو کبھی کسی اور app میں پیسہ لگا کر پھر خون کے آنسوں روتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیسہ تو ان نوجوانوں کا کمایا ہوا ہے ہی نہیں بلکہ ان کے بزرگ والدین کی خون پسینے کی کمائی ہوئی رقم ہے جسے یہ نوجوان اپنی نادانی اور کم عقلی کی وجہ سے داؤ پر لگاتے ہیں اور اپنے بزرگ والدین کو آرام و آسائش پہنچانے کے بجائے انہیں الٹا تکلیف اور مصیبت سے دوچار کرتے ہیں ۔ میں ایک ایسے بزرگ کو جاتا ہوں جو ایک مہینے پہلے خون کے آنسوں روتا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو خاموش ہو گیا۔ حالانکہ مجھے اس چیز کا علم تھا کہ یہ شخص بہت ہی کمزور ہے، اکثر بیمار رہتا ہے اور اس کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہے۔ اس کا ایک بیٹا ہے اور گھر میں کوئی نہیں ہے۔ ساری امیدیں اسی بیٹے پر ہیں لیکن اس کو حد سے زیادہ پریشان دیکھا تو تجسس ہوا کہ وجہ معلوم کیا جائے ۔ بہت افسوس ہوا یہ جان کر کہ اس شخص نے جو پیسے اپنے علاج کے لئے پچھلے چار سال سے جمع کئے تھے، وہ اس کے نالائق اور نکمے بیٹے نے کسی app میں انوسٹ کئے ہیں اور ایپ اچانک بند ہو گئی اور سارا پیسہ ختم ہو گیا۔
روز ایسے معاملات سامنے آتے ہیں لیکن ہمارے نوجوان باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔ حال ہی میں ایک ایسا ہی سکینڈل سامنے آیاہےجو curative survey کے نام سے چل رہا تھا اور 59 کروڑ روپے کا گھوٹالہ کر کے اس سکینڈل سے منسلک لوگ رفو چکر ہو گئے ہیں اور پھر ایک بار نوجوان سڑکوں پر رونے دھونے کے لئے نمودار ہو گئے ۔ CURATIVE SURVEY نام کی اس ویب سائٹ کو لوگ سکیم سمجھ رہے تھا لیکن وہ توسکینڈل نکلااور جنہوں نے اس میں پیسہ انوسٹ کیا، انہیں جب وجہ پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یوٹیوبرز کے کہنے پر انہوں نے انوسٹ کیا ہے۔ جب یوٹیوبرز کو اپنا آئیڈیل بنائیں گے تو انجام تو ایسا ہی ہونا ہے ۔
قوم کے نوجوانوں سے ایسی امید نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ اس نوجوانوں کو تو علامہ اقبالؒ نے شاہین کہا تھا۔ لیکن علامہ اقبال کےان شاہینوں کو سوشل میڈیا نے اتنا بزدل اور کم عقل بنایا ہے کہ جب کاروبار میں پیسہ لگانے کی باری آتی ہے تو کانپ جاتے ہیں اور ان کے دماغ میں نہ جانے کون کون سے وسوسے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہی پیسہ جب کسی ایپ میں لگانا ہو تو فوراً پیسہ لگا دیتے ہیں ۔ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان محنت کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔ خون پسینہ ایک کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں بلکہ گھر بیٹھے راتوں رات کروڑ پتی بننے کا سپنا دیکھتے ہیں اور اکیس دن میں ڈبل والی سکیم کے انتظار میں ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج کا نوجوان آئے روز روڑپتی بنتا جارہا ہے۔
نوجوانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ محنت سے ہی سب کچھ حاصل ہوتا ہے اور خوابوں کی تعبیر کے لیے غفلت کی نیند سے جاگنا بہت ضروری ہے تاکہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہ آنے پائیں۔ اس ضمن میں انتظامیہ اور محکمہٴ پولیس سے بھی استدعا کی جاتی ہے کہ اس سکینڈل میں ملوث لوگوں کو گرفتار کر کے کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور عبرت کا ایک باب رقم کیا جائے تاکہ لوگ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچ لیا کریں۔ والدین حضرات سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہےکہ وہ اپنے بچوں کو موبائل اور سوشل میڈیا سے دور رکھیں اور انہیں اتنے پیسے نہ دیا کریں کہ وہ ان پیسوں کا کسی بھی طرح کا غلط استعمال کریں ۔عوام الناس کی نظریں محکمہٴ پولیس پر ہیں کہ محکمہ پولیس ایسے مجرموں کو گرفتار کرے تاکہ متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے ۔ پولیس کی فوری کارروائی قابل ستائش ہے ۔چھاپے اور بنک کھاتے منجمد کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایاجانا چاہئے تاکہ لوگوں کو محنت کی کمائی واپس مل سکے اور مستقبل میں ایک کوئی اور ٹھگ لوگوںکو نہ لوٹ سکے۔
ای میل۔[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔