ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
امریکہ میںممتاز شعراء کی ایک کہکشاں پیداہوئی ہے۔ انہیںمیں سے ایک رابرٹ فراسٹ تھے۔ ان کی ولادت ۲۶؍مارچ ۱۸۷۶ء کو سین فرانسسکو، کیلی فورنیا میں اور انتقال ۲۹؍جنوری ۱۹۶۳ء کو بوسٹن میںہوا۔ان کے مزار کا کتبہ ان کی نظم’’The Lesson for Today (1942)‘‘ کی آخری سطر:’’I had a lover’s quarrel with the world‘‘ہے۔ان کے والد ولیم پریسکاٹ ایک اسکول کے استاد تھے اور بعد میں ایک صحافی ہوئے۔فراسٹ کو فوراً کامیابی نہیں ملی تھی۔ انہیںناموری بتدریج حاصل ہوئی اوران کی زندگی میں ہی ان کو شناخت بطور ایک عظیم ترین جدید امریکی شاعر کے ملی۔انہوں نے ایک متواضع انداز میں نوعِ انسانی کی خدمت میں اپنی زندگی گزاری۔ ان کی ۸۸سالہ طویل زندگی انسانیت کے لیے ایک عطیہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پذیرائی صرف امریکہ ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم میں ہوئی۔فراسٹ کو خصوصی طور پر جدید برطانوی دیہی زندگی کی تصویر کشی،مکالماتی طرز ادا پر ان کی گرفت اور معمولی لوگوں کی روزانہ کی صورتِ حال سے متعلق ان کی شاعری کے لیے جاناجاتاہے۔ان کی زندگی کے شروعاتی سال کیلی فورنیا میں گزرے، لیکن ان کے والد کے انتقا ل کے بعد خاندان سلیم، نیو ہیمپشائرمنتقل ہوگیا۔انہوں نے لارنس ہائی اسکول سے گریجویٹ کیااور دارٹماؤتھ کالج میں داخل ہوئے جہاں وہ ایک سیمسٹر سے کم وقت رہے۔فراسٹ نے اپنی ضروریات زندگی مل میںکام کرکے، اسکول میں پڑھاکے اور اخبار میں رپورٹنگ کرکے پوری کی۔خالی وقت میں وہ لکھتے تھے اور ۱۸۹۴ء میں ان کی پہلی نظم’’ My Butterfly‘‘ نیویارک سٹی کی میگزین Independentمیں شائع ہوئی۔ وہ کچھ وقت کے لیے ہارورڈ میں بطور ایک خصوصی طالب علم کے شریک ہوئے اور پھر اسے ترک کرکے ڈیری، نیو ہیمپشائرکے ایک چھوٹے سے فارم میں آباد ہوگئے۔
فراسٹ کو پورے عالم میں بطور ایک عظیم شاعر کے شہرت اور شناخت حاصل ہوئی۔ شعری میدان میں ان کی غیر معمولی خدمات اور قابلِ ذکر کارناموں کی وجہ سے انہیں ’’The Voice of America‘‘ (صوتِ امریکہ) کا خطاب ملا۔ان کی عظمت متضاد اشیاء کے باہمی اختلاط اور ترتیب میں ظاہر ہوتی ہے۔ عمومی طور پر ان کا موضوع روزانہ کے تجربات اور دیہی زندگی سے ماخوذ ہوتاتھا۔وہ عام بول چال کی زبان استعمال کرتے تھے۔اپنی شاعری میں وہ خدا اور فطرت سے انسانی تعلق کو الگ رکھتے تھے۔ان کی شاعری میں روایتی اور جدید عناصر کا اظہار ہوتاہے۔جدید شاعر ہونے کے باوجود انہوں نے قدیم انداز کو جدید طرز پر اختیار کیا۔فطرت سے ان کی محبت جامع ترین تھی، و ہ حواس پر طاری ہونے والے حسن اور اس کے تلخ ناخوشگوار دونوں پہلوؤں کی عکاسی کرتے تھے۔فراسٹ کی شاعری ایک ایسی شاعری ہے جو کبھی حیلہ جوئی نہیں کرتی ہے۔یہ گفتگو اور سادے انداز کی شاعری ہوتی ہے۔یہ ماضی کو مختصراً بیان کرتی ہے اور مستقبل میں حرارت پیداکرتی ہے۔اپنے مدعا میں یہ آفاقیت رکھتی ہے۔ اس مفہوم میں فراسٹ جدید دور کے ایک اہم شاعر ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حالانکہ فراسٹ ایک امریکی شاعر تھے ، لیکن ان کا کلام آغاز میں انگلینڈ میں شائع ہوا۔’’۱۹۱۲ء میں وہ انگلینڈ گئے جہاں انہوں نے اپنا وقت زراعت اور شاعری کے لیے وقف کردیا۔ ان کی پہلی شعری کتاب’A Boy’s Will (1913 لندن میں شائع ہوئی۔اس سے انہیں خراج تحسین حاصل ہوئی اور اگلے سال انہوںنے ’’North of Boston (1914 شائع کی۔ جلد ہی وہ امریکہ واپس آئے اور ’’Mountain Interval (1914), New Hampshire (1923),West-Running West-Running Brook (1928), A Further Range (1936), A Witness Tree (1942), Steeple Bush (1947)اور ’’In the Clearing (1962)شائع کی۔
فراسٹ نے مختلف کالجوں میں پڑھایا اور انہیں پورے امریکہ میںاپنی نظمیں پڑھنے کے لیے بلایاگیا، کیونکہ وہ اب تک قومی شاعر صوتِ امریکہ کی حیثیت سے مشہور ہوچکے تھے۔ انہیں چار پلٹزر ایوارڈس اور۴۴ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں عطا کی گئیں۔انہیں امریک سینیٹ سے اعزاز ملا جس نے ان کے یومِ پیدائش پر تجاویز پاس کیں؛ اور ۱۹۶۱ء میں انہیں جان ایف کنیڈی ایئرپورٹ کے افتتاح کے لیے دعوت دی گئی جہاں انہوں نے اپنی نظم ’’The Gift Outright‘‘ پڑھی‘‘۔ (Eternal Rhythms, P. 186)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ رابرٹ فراسٹ نے کثیر نظمیں لکھیں لیکن ان کی دو نظمیں’’Stopping by Woods on a Snowy Evening‘‘ اور’’The Road Not Taken‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔اول الذکر ایک ڈرامائی خودکلامی ہے۔اسے متعدد شعری گلدستوں میں مقام حاصل ہوا۔یہ نہایت محرک اور الہامی کلام ہے۔اس نے سابق ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے دل کو بھی چھواتھا۔چنانچہ ۲۴؍مارچ ۱۹۶۴ء میں ان کی وفات کے بعدان کے آفس کے میز پر ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑاہواتھا جس پر ان کے ہاتھ کی تحریر شدہ درج ذیل سطریں تھیں:
’’The Woods are lovely, dark and deep,
But I have promises to keep,
And Miles to go before I sleep,
And Miles to go before I sleep‘‘
(کیا ہی خوبصورت جنگلات ہیں، تاریک اور گہرے،
لیکن مجھے اپنے وعدے پورے کرنے ہیں،
اور سونے سے پہلے مجھے میلوں کا سفر طے کرنا ہے،
اور سونے سے پہلے مجھے میلوں کا سفر طے کرنا ہے)۔
بلاشبہ آج بھی یہ سطریں متعدد لوگوں کو ترغیب کا سامان مہیا کررہی ہیں۔
مؤخر الذکر ’’The Road Not Taken‘‘ ہے۔اس کا مرکزی موضوع مقصدِ زندگی کو مناسب وقت پر طے کرنا ہے۔یہ ایک بیانیہ نظم ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ماہنامہ ’’Atlantic‘‘ کے اگست ۱۹۱۵ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔انسان کے اپنے اہداف کی شناخت کا نظریہ اور ایک طرزِ زندگی کے انتخاب کو رابرٹ فراسٹ نے اپنی بارہا دہرائی ہوئی نظم ’’The Road Not Taken‘‘ میں بڑے خوبصورت انداز میں آشکار کیا ہے اور اس کا خاکہ پیش کیاہے۔انہوں نے صاف طور پر لکھا ہے کہ انسان کو سب سے اپنی زندگی کا مقصد متعین کرنا چاہیے۔ ایسا نہ کرنے پر انسان کو بعد میں پچھتانا پڑتاہے اور اسے غیر معمولی خسارے سے دوچار ہونا پڑتاہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رابرٹ فراسٹ ایک کثیر الجہات ذہین شخص اور ایک عظیم غنائی شاعر تھے۔علاوہ ازیں، وہ ایک طاقتور فہم وفکر کے مالک تھے۔ ورڈس ورتھ کی طرح وہ بھی فطرت سے محبت کرنے والے تھے۔لیکن پی بی شیلی کی طرح وہ فطرت کو حسن کا محافظ اور اور اس کا تباہ کار بھی سمجھتے تھے۔وہ امریکہ میں انگریز ی شاعری کے مضبوط رکن اور نمایاں شاعر کے طور پر ہمیشہ یا درکھے جائیں گے۔