سرینگر//دفعہ35اے پر ریاست بھر میں رائے عامہ منظم کرنے کی مہم جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پرریاست کے تینوں خطوں سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن جماعتوں اور نیشنل کانفرنس لیڈران کی میٹنگ منعقد ہوئی۔ میٹنگ میں نیشنل کانفرنس کارگذار صدر عمر عبداللہ کے علاوہ ریاستی کانگریس صدر جی اے میر، سینئر سیاسی لیڈران محمد یوسف تاریگامی، حکیم محمد یاسین، غلام حسن میر، جی ایم سروڑی،تاج محی الدین، شام لعل شرما، عبدالرحمن ٹکرو ، علی محمد ساگر، عبدالرحیم راتھر، محمد شفیع اوڑی، میاں الطاف احمد، چودھری محمد رمضان، ناصر اسلم وانی ،دیوندر سنگھ رانا ، قمر علی آخون، ٹی نمگیال،فیروز احمد خان نے شرکت کی۔ اجلاس میں ریاست کو دفعہ35اے کی صورت میں درپیش چیلنج کے بارے میں سیر حاصل بحث کی گئی اور اس دفعہ کا سیاسی اور قانونی طور پر دفاع کرنے کے لائحہ پر بھی تبادلہ خیالات کیا گیا۔اجلاس کے شرکا نے یک زبان ہوکر کہا کہ اس دفعہ کے خاتمے سے ریاست کی پہچان اور شناخت بھی ختم ہوجائیگی۔ ڈاکٹر فاروق نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کیساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے اس لئے دشمنوں نے عدالت کا راستہ اختیار کیاہے۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ مرکزی سرکار کو سپریم کورٹ میں دفعہ35Aکیخلاف دائر مفادِ عامہ عرضی کیخلاف بروقت تحریری جواب دینا چاہئے تھا لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کیس کو سماعت کیلئے منظور کروایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کی سماعت اب ہمارے لئے موت و حیات کا سوال بن کر رہ گیا ہے، اس کیخلاف فیصلہ سے ہماری پہچان اور وجود مکمل طور پر ختم ہوجائیگا اور یہ سلسلہ جموں اور لداخ سے شروع ہوگا۔ سٹیٹ سبجیکٹ قانون صرف کشمیر یا کشمیریوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جموں اور لداخ کے بھی اُتنا ہی اہم ہے۔ اگر اس قانون کو ختم کیا گیا تو سب سے پہلے جموں اور لداخ ہی متاثر ہونگے۔ اس لئے ضروری ہے ریاست کے تینوں خطوں کے لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل متحد ہوکر مشترکہ طور پر ریاست کی انفرادیت اور پہچان کا دفاع کریں۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ دفعہ35Aکیخلاف لڑائی صرف مسلمانوں یا کشمیریوں کی جنگ نہیں، یہ دفعہ کشمیریوں کے مفادات کیلئے جتنی اہم ہے اُس سے زیادہ اہم لداخیوں اور جموں کے رہنے والے لوگوں کیلئے ہے۔ دفعہ35Aمسلمانوںکیلئے جتنی ضروری ہے اُتنی ہی اہمیت کی حامل یہاں رہنے والے ہندئوں، سکھوں، بودھوں اور عیسائیوں کیلئے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ35Aآئین ہند میں جموں وکشمیر کی شناخت کی ضامن ہے اور یہ دفعہ فرقہ پرستوں کو روز اول سے ہی کھٹکتی آئی ہے۔ انہوں نے اجلاس کے شرکا کو تاکید کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جاکر اپنی اپنی جماعتوں کے عہدیداروں اور ورکروں کے ذریعے دفعہ35Aکی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنے کے علاوہ اس دفعہ کے نہ رہنے سے ہم پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں بھی آگہی پھیلائیں۔