جناب عبدالمجید زرگر صاحب ہمارے ایک منجھے ہوئے دانشور، تجزیہ نگار اور کالم نویس ہیں۔مسلٔہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں پہ اُنہیں عبور حاصل ہے اور اگر یہ کہیں کہ وہ مسئلہ کے کسی پہلو سے متعلق کوئی ایسی بات سنیں جو حقیقت پہ مبنی نہ ہوتو اُن کیلئے یہ ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ حقائق کو منظر عام پہ پس و پیش نہیں کرتے۔حال ہی میں ہم بہ حیثیت سول سوسائٹی گروپ کئی ایسے بھارتی سول سوسائٹی گروپس سے ملے جو کشمیر آئے اور جہاں بھی ہم نے مسلٔہ کشمیر کے ضمن میں کوئی غیر حقیقی بات سنی تو موقع پر ہی اصل حقیقت کو منظر عام پہ لایا گیا اور ایسی باہمی ملاقاتوں میں مجید زرگر صاحب پیش پیش رہے۔ ایسی کئی ملاقاتوں میں یہ بات سامنے آئی کہ مسلٔہ کشمیر کے ضمن میں جو حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سامنے رکھا تھا یعنی رائے شماری، وہ پاکستان کے عدم فوجی انخلا کے سبب انجام پذیر نہیں ہوئی ۔ مترجم
بھارتی سوسائٹی میں یہ نکتہ نظر کہ پاکستان نے چونکہ اپنی افواج کا انخلا ء عمل میں نہیں لایا، لہٰذا رائے شماری عمل پذیر نہیں ہو سکی، اس حد تک ذہن وقلب میں گیا ہے کہ اسے حقیقت حال مانا جانے لگا ہے۔اس مغالطے کو سچ جاننے اور ماننے میں نہ صرف بھارتی میڈیا شامل ہے بلکہ بھارت کے سابقہ ڈپلومیٹ، سر کردہ صحافی، سیاسی جماعتوں کے سر کردہ لیڈراں اُسے مقدس کتابوں کا سچ( Gospel Truth:گوسپل ٹرتھ) کہا جاتا ہے۔بین الملّی اداروں کے تعین کردہ اصولوں کے مطابق رائے شماری کو حق خود ارادیت کے اظہار کا موثر ترین طریقہ مانا گیا ہے اور یہی حل مسلہ کشمیر کیلئے اقوام متحدہ کی کئی قرار دادوں میںمتعین ہوا ۔ یہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں منعکس ہوا بلکہ الحاق کی شرائط میں بھی یہ مانا گیا کہ مسلٔہ کشمیر کا حتمی حل جموں و کشمیر کے عوام الناس کی رائے کے مطابق ہو گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بھارتی رہنماؤں نے جن میں آزاد بھارت کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو پیش پیش تھے، یہ یقین دہانی کروائی کہ جموں و کشمیر کے عوام کی رائے کو مقدم مانا جایا گا، بھلے ہی وہ بھارت کے خلاف ہو۔جہاں یہ صحیح ہے وہاں یہ بھی صحیح ہے کہ رائے شماری آج تک نہیں ہوئی اور اقوام متحدہ کی رائے شماری کے ضمن میں تعین شدہ قراردادوں کے عدم اجرا ء کیلئے پاکستانی افواج کے عدم انخلا ء کو مورد الزام قرار دیا جاتا ہے۔مجید زرگر صاحب کے کالم میں اِسی موضوع پہ بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔
مجید زرگر صاحب کے کالم کا عنوان ہے: کیا رائے شماری نہ ہونے کا سبب پاکستان کا عدم فوجی انخلا تھا؟ اپنے اِس سوال کے جواب میں وہ رقم طراز ہیں کہــ ’’ تقریباََ تمام بھارتیوں کو جب رائے شماری کے ضمن بھارت کے وعدوں کو یاد دلایا جاتا ہے تو وہ پاکستان کو دوشی مانتے ہیں بایں سبب کہ پاکستان جموں و کشمیر کے اُس حصے سے جو اُس کی تحویل میں ہے، اپنی فورسز نکالنے میں نا کامیاب رہا جب کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جو ریاست جموں و کشمیر پہ لاگو ہوتی ہیں، پاکستان کو فوجی انخلا ء کرنا چاہیے تھا ۔نہ صرف بھارتی بلکہ ہمارے اپنے کئی ہم وطن بھائی بھی اَسی زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ رائے شماری نہ ہونے کا سبب پاکستان کا عدم فوجی انخلاء تھا۔بنابریں یہ لازمی بن جاتا ہے کہ سچ کو فائیلوں و نوشتہ شدہ مواد کے انبار سے کھنگالا جائے۔ کشمیر کے ضمن میں ہند و پاک کے سوال سے نبٹا جائے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 39؍ منظور شدہ مورخہ 20؍جنوری سال 1948ء ایک سہ نفری کمیشن قائم کیا جو بعد میں بنابر قراردادنمبرسنتالیس بہ مورخہ 21؍اپریل1948ء پانچ افراد تک بڑھایا گیا ۔اس کمیشن نے اپنی پہلی قرارداد 13؍اگست 1948ء پاس کی جس کی مقررات مندرجہ ذیل رہیں:
(1) پاکستان کی سرکار اپنی انتہائی کوششوں کو برؤئے کار لا کر ریاست جموں و کشمیر سے قبائل اور ایسے پاکستانی شہریوں کا انخلا عمل میںلائے گی جو وہاں کے شہری نہیں ہیںاور جو لڑائی کی غرض سے وہاں داخل ہوئے ہیں۔
( 2) حتمی فیصلے تک وہ علاقے سے جہاں پاکستانی افواج کا انخلاء عمل میں آ گیا ہو، مقامی انتظامیہ کے تحت رہیں گے۔ البتہ اُس پر کمیشن کی نظر بنی رہے گی۔
(3) قبائل اور پاکستانی شہری جن کا ذکر اوپر ہو ہے، کا انخلا ء بعمل آنے پہ کمیشن سرکار ہند کو نوٹس دے گا کہ اُس صورت حال میں تبدیلی آئی ہے جو سیکورٹی کونسل میں سرکار ہند کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر میں فوجی دخالت سے متعلق عذرداری کا سبب بنی تھی ۔آگے یہ کہ پاکستانی فوجوں کا انخلاء رو بعمل ہو نے پر سرکار ہند ریاست سے اپنی افواج کی اکثریت کا مرحلہ وار انخلا کمیشن سے سمجھوتے کے مطابق عمل پذیر کرنے پہ موافق رہے گی۔
(4) جب تک ریاست جموں و کشمیر میں حالات حتمی فیصلے کیلئے سازگار نہیں ہوتے، سرکار ہند اُن حدود میں جو جنگ بندی کے وقت مقرر ہوئی تھیںکمیشن کی رضامندی سے کم سے کم فورسز کا تعین کرے گی جن کی تعداد اُسی حد تک ہو گی جس سے مقامی حکام کو امن عامہ کو یقینی بنانے میں مدد ملے۔کمیشن جہاں بھی مناسب سمجھے وہاں اپنے نگہداروں (Observers) کا تعین کرے گی۔
جیسے کہ عیاں ہے کہ دوسری شرائط کے ساتھ مندرجہ فوق قرارداد میں دو پہلو نمایاں ہیں: اول یہ کہ دونوں ممالک کو جموں و کشمیر سے افواج کے انخلا کیلئے کہا گیا ہے یعنی ریاست افواج کے قیام سے عاری رہے (Demilitarization) ثانیاََ پس از انخلاء افواج متنازعہ ریاست کی گورننس یعنی انتظامیہ کو چلانے کا عمل۔مندرجہ فوق قرار داد میں کچھ ترمیمات کے بعد جس میں دونوں ممالک کی سرکاروں کے اعتراضات کو مد نظر رکھا گیاکمیشن نے 5جنوری 1949ء کے روز ایک مفصل قرارداد پاس کی جس میں پہلے سے طے شدہ قرارداد کی شرائطوں کو دوہرایا گیا اور اِسے دونوں ممالک نے قبول کیا۔
کمیشن نے چہار فروری 1949ء کے روز بر صغیر کے دورے کا آغاز کیا اور دہلی،سرینگر،کراچی اور راولپنڈی میں قراردادوں پہ عمل آوری کیلئے میٹنگوں کا اہتمام ہوا ،جہاں دیگر مراحل جیسے ملٹری اوبزرور گروپ کا قیام اور قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا ،وہیں دو مراحل فوجی انخلاء اورگورننس کو طے کرنے میں مشکلات پیش آئیں ۔بھارتی نمائندے گرجا شنکر باجپائی کا یہ نظریہ رہا کہ پاکستانی فوج کا یک مشت انخلاء رائے شماری کروانے کیلئے لازمی ہے جب کہ پاکستان کا یہ نظریہ رہا قبائل اور ایسے فورسز کا انخلاء لازمی ہے جو فوج سے نہ بندھے ہوںالبتہ مستقل فوجیوں کا انخلاء اُسی تناسب سے طے ہو گا جس تناسب سے بھارتی فوجیوں کے انخلا ء ہو گا یعنی دونوں فوجوں کا متناسب انخلاء لازم و ملزوم ہے۔ کمیشن نے پاکستانی دلیل سے اتفاق کیا۔ انتظامیہ کو چلانے کے عمل میں بھارت کا تخمینہ یہ رہا کہ مقامی انتظامیہ کو مدد فراہم کرنے کیلئے 27,000فوجیوں کی ضرورت رہے گی جب کہ پاکستان کی یہ رائے رہی کہ 20,000فوجی کافی رئہیں گے ۔بہر حال 22,000 فوجیوں کو تعین کرنے پہ اتفاق ہوا۔
قبائل و غیر منظم فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد پاکستان نے اپنے منظم فوجی دستوں کا انخلا ء شروع کیا جن کی مجموعی تعداد کم و بیش 5000فوجیوں پہ مشتمل تھی۔بھارت نے اس کے مد مقابل یہ اعلان کیا کہ وہ ائر فورس کے ایک سکاڑرن کا انخلاء عمل میں لا رہا ہے لیکن اس میں زمینی فوجی دستوں کا انخلاء شامل نہیں تھا۔پاکستان اور کمیشن کا عملہ بھارت کے اِس اقدام سے متحیر ہوئے چونکہ یہ اقدام قرار دادوں کی شرائط کے برعکس تھا۔ بھارت نے اپنی فوجی دستوں کی مجموعی تعداد اور اُن کا تعین کس کس مقام پہ ہوا ہے،اس کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے سے بھی انکار کیا۔جوزف کوربل جو کہ کمیشن کے ممبر تھے، اپنی تصنیف (Danger in Kashmir:کشمیر میں خطرہ) کے صفحہ (157) پہ رقمطراز ہیں کہ بھارت کشمیر کے شمال و شمال مغرب کے کم و قلیل آبادی والے علاقوں پہ اپنا کنٹرول قائم کرنے کے درپے ہے جب کہ یہ عمل منظور شدہ قرار دادوں کی شرائط کے برعکس ہے۔
مقامی انتظامیہ کے ضمن میں جو کہ اُن علاقوں سے متعلق تھی جہاں فوجی انخلا عمل میں آنا تھا، بھارت نے ایک نئی ہی طرح ایجاد کی۔اس طرح کے مطابق سارے کشمیر میں حتیٰ کہ اُن علاقوں میں بھی جہاں پاکستانی فوجی انخلاء عمل میں آیا تھا،کشمیر سرکار کا اختیار رہے گا جس کی سر براہی شیخ عبداللہ کر رہے تھے۔پاکستان نے اس پہ اعتراض اٹھایا اور یہ اعتراض اِس پہ مبنی تھا کہ شیخ عبداللہ نے 1948ء میں بھارتی ڈیلی گیشن کا حصہ بن کر اپنی ترجیحات کو واضح کیا ہے، لہٰذا وہ بھارتی انتظامیہ کشمیر پر اختیار رکھنے کے اہل نہیں چہ جائیکہ پورے کشمیر پہ اختیار رکھنے کے اہل بن جائیں۔کمیشن نے پاکستان کے اظہار نظر سے اتفاق کیا اور مقامی آفسروں کے حق میں رائے دی جو کہ اقوام متحدہ کے تعین کردہ سٹاف کے تحت کام کریں گے لیکن بھارت نے صریحاََ انکار کیا۔جب کمیشن 126اجلاسوں کے بعدمسائل کو حل نہ کر سکا تو مسلٔہ پھر سیکورٹی کونسل میں پہنچا اور 22 دسمبر 1949ء کے روز مطرح ہوا جہاں سیکورٹی کونسل کے صدر جنرل مکنھاٹن نے رائے شماری سے پہلے فوجی انخلا ء کے ضمن میں کچھ تجاویز پیش کیں۔پاکستان نے کچھ ترمیمات کے ساتھ مکنھاٹن پلان کو مان لیالیکن بھارت نے پھر مکمل پاکستانی فوجی انخلاء اور شمالی علاقہ جات میں بھارتی کی تعیناتی پہ اصرار کیا(جوزف کوربل۔۔۔کشمیر میں خطرہ۔۔۔صفحہ:167)۔انجام کار کمیشن برائے ہند و پاک 14مارچ 1950ء کے روز تحلیل شدہ قرار دیا گیا اور اس کے بجائے سر اُون ڈکسن کو اقوام متحدہ کا واحد نمائندہ بنایاگیا۔بھارت نے یہ قرارداد منظور کی جب کہ پاکستان نے اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہو ئے بھی ڈکسن پلان کا ساتھ دینے کی تلقین کروائی۔
عالمی پریس نے بھارتی ہٹ دھرمی اور ہر قدم پہ مسئلے کو امن کے ماحول میں رائے شماری سے حل کروانے کیلئے عالمی اقدامات میں رخنے ڈالنے پر بھارت کی تنقید کی۔ اکنامسٹ لندن نے 19فروری کو تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’ساری دنیا دیکھ سکتی ہے کہ بھارت جس کا دعویٰ یہ ہے کہ کشمیر کی اکثریت اُس کے ساتھ ہے، عالمی نگرانی میں رائے شماری کروانے میں رخنے ڈال رہا ہے‘‘ دو دن بعد’’ لندن ٹائمز‘‘ رقمطراز ہوا’’ بڑے آدمیوں کی اکثریت کی مانندنہرو کا ایک اندھیرا نکتہ ہے۔ وہ دلیل ماننے سے کترا رہا ہے اور جذبات کو عقل پہ حاوی ہونے دے رہا ہے‘‘۔
ڈکسن نے 20؍سے 24؍جولائی 1950کے دوران بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ کانفرنس کا انعقاد کیا۔اُس نے فوجی انخلاء کے ضمن میں کئی تجاویز پیش کیںجن کو باری باری بھارت نے رد کیا۔اُس کی یہ تجویز بھی رد ہوئی کہ رائے شماری کی تیاری کے دوراں ایک عبوری انتظامیہ کو وجود میں لایا جائے۔ علاقائی رائے شماری کے ضمن میں بھی اُس کی تجویز رد ہوئی۔کانفرنس کے اختتام پہ ڈکسن کی رپورٹ سب ہی کچھ ظاہر کرتی ہے ’’وزیر اعظم ہند کیلئے سب ہی تجاویز نا قابل اعتنا رہیں۔کانفرنس کے دوران میں ،میں نے رائے شماری کی عمل آوری میں ممکنہ اقدامات کی بات کی۔انجام کار میں اس نتیجہ پہ پہنچا کہ فوجی انخلا ء کے ضمن میں اورایک منصفانہ رائے شماری کے طریقہ کار سے متعلق جس میں کوئی دباؤ کوئی زور و زبردستی نہ رہے، بھارتی قبولیت کا حصول نا ممکن ہے‘‘(اے جی نورانی۔۔۔Kashmir Dispute۔۔۔جلد دوم۔۔۔صفحہ:17)۔
انجام کار اگر پھر بھی کوئی شک و شبہ رہا ہو، اُس کو خود نہرو نے تب دور کیا جب کہ اُنہوں نے اُسی عجلت میں رائے شماری کو رد کیا جس عجلت سے اُنہوں نے اُس کا اقرار کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستان نے امریکہ کی سر کردگی میں قائم کئے گئے دو فوجی معاہدوں سیٹو و سینٹو میں شمولیت اختیار کی ہے ( نہرو کی پریس کانفرنس مورخہ 2؍اپریل 1956)پس اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ پاکستان نے فوجی انخلاء میں پس و پیش کیا ہے۔آٹھ سال بعد وی پی مینن ( آخری تین وائسرایوں کے آئینی صلاح کار اور پولٹکل ریفارمز کمشنر) نے ایچ وی ہڈسن جو کہ برطانوی جریدے’ ’سنڈے ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر تھے، سے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’بھارت کا رائے شماری کروانے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا‘‘۔پس اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ رائے شماری نہ ہونے کی وجہ کبھی یہ نہیں رہی کہ پاکستان نے فوجی انخلاء سے انکار کیا ہو‘‘۔ال
Feedback:Iqbal.javid46@gmail.com
نوٹ :کالم نگار عبدالمجید زرگر صاحب پیشے سے چارٹرڈ اکاؤٹنٹ ہیں: E mail abdulmajidzargar@gmail.com