فکر انگیز
رئیس یاسین
تعلیم جو کبھی ذہنوں کو سنوارنے اور روحوں کو نکھارنے کا مقدس عمل سمجھا جاتا تھا، آج صرف نمبروں، گریڈوں اور پوزیشنوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد — علم، کردار اور مہارت پیدا کرنا — آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہمارے اسکولوں میں صرف نمبرات کا جشن منایا جاتا ہے کردار یا تخلیقی صلاحیتوں کا نہیں۔ یہی رویہ ہماری تعلیمی روح کو خاموشی سے مار رہا ہے۔
ہر تعلیمی سال کے اختتام پر اسکولوں میں ایک جیسا منظر ہوتا ہے — والدین رپورٹ کارڈ لینے کی دوڑ میں، اسکول اپنے ’’ٹاپرز‘‘ کے بینر آویزاں کرتے ہیں اور بچے ایک دوسرے کے نمبرات کا موازنہ کرتے ہیں۔ چند نمبروں کو فخر و کامیابی کی علامت بنا دیا گیا ہے، حالانکہ یہ اعداد و شمار کسی بچے کی حقیقی صلاحیت یا ذہانت کی مکمل تصویر نہیں دکھاتے۔ پہلی، دوسری، تیسری پوزیشن کی دوڑ نے تعلیم کو مقابلہ بنا دیا ہے تربیت نہیں۔ جو بچے پوزیشن حاصل نہیں کرتے وہ خود کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہ ہمیشہ اس مقام کو برقرار رکھنے کے دباؤ میں رہتے ہیں۔ یہ تعلیم نہیں، ذہنی اذیت ہے۔
رپورٹ کارڈ والدین کو خفیہ طور پر ای میل کے ذریعے بھیجے جانے چاہئیں نہ کہ عوامی نمائش کے لیے۔ جانچ کا مقصد ترقی ہونا چاہیے نہ کہ تقابل۔ بدقسمتی سے پرائیویٹ اداروں نے اس نظام کو ایک کاروبار بنا دیا ہے، نمبرات تشہیر کا ذریعہ بن چکے ہیں اور بچے کی اصل تعلیم، اخلاقی تربیت اور تجسس کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی (NEP 2020) اسی سوچ کو بدلنے کے لیے لائی گئی تھی۔ اس کا مقصد ایسی تعلیم دینا ہے جو طلبہ میں مہارت، تخلیق اور کردار پیدا کرے، لیکن عملی طور پر اکثر اسکولوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ زیادہ تر اسکول آج بھی پرانے طرزِ تعلیم پر چل رہے ہیں اوربیشتر تو یہ بھی نہیں جانتے کہ NEP کے مطابق مارک شیٹ کیسے بنائی جاتی ہے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ’’صلاحیت پر مبنی تعلیم‘‘ ہے — جہاں طالب علم کو یاد کرنے پر نہیں بلکہ سمجھنے اور کرنے پر جانچا جائے — مگر اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم تعلیمی طریقے کو نظریات سے نکال کر عملی بنیادوں پر استوار کریں۔ سائنس کو کتابوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ لیبارٹریوں میں پڑھایا جانا چاہیے تاکہ بچے تجربات کر کے علم حاصل کریں۔ انگریزی اور اردو جیسے مضامین میں رٹنے کا نظام مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔ بچوں کو خود اپنے خطوط، مضامین اور تخلیقی تحریریں لکھنے کے قابل بنایا جائے تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار آزادانہ کر سکیں۔اسی طرح کشمیری اور سوشل سائنسز کے مضامین میں عملی پہلو شامل کیے جائیں۔ طلبہ کو تاریخی مقامات، آثارِ قدیمہ اور ثقافتی مراکز کی سیر کرائی جائے تاکہ وہ تاریخ اور سماج کو حقیقی طور پر سمجھ سکیں۔ سیکھنے کا دائرہ کتابوں سے نکل کر معاشرے اور فطرت تک پھیلنا چاہیے۔مزید ، پانچویں جماعت سے ہی ہنر پر مبنی کورسز متعارف کروائے جائیں۔ جیسے کمپیوٹر کی تعلیم، دستکاری، خطاطی، سلائی، تراش خراش اور زراعت سے متعلق عملی سرگرمیاں۔ یہ مضامین نہ صرف طلبہ میں اعتماد اور خود انحصاری پیدا کریں گے بلکہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی اجاگر کریں گے۔
والدین کو بھی اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ وہ بھاری فیسیں صرف اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ ان کے بچے زیادہ نمبر لائیں گے، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل تعلیم خریدی نہیں جا سکتی۔ حقیقی تعلیم بچے کے کردار، اخلاق اور سوچنے کی صلاحیت میں پوشیدہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ نمبرات کے بجائے اپنے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور اخلاقی تربیت پر فخر کریں۔اصل تعلیم پوزیشن لینے والوں کو پیدا نہیں کرتی بلکہ سوچنے والوں، تخلیق کرنے والوں اور اچھے انسانوں کو جنم دیتی ہے۔ تعلیم کا مقصد تجسس، تخلیق اور کردار سازی ہونا چاہیے، کیونکہ نمبر یادداشت کو جانچ سکتے ہیں مگر تخیل، ایمانداری اور انسانیت کو نہیں۔اب وقت ہے کہ ہم تعلیم کو مارک شیٹ سے مائنڈ سیٹ کی طرف لے جائیں — گریڈ سے ترقی کی طرف، دباؤ سے مقصد کی طرف۔ اگر ہم واقعی اپنے معاشرے میں اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے اسکولوں کو بدلنا ہوگا۔ حقیقی تعلیمی انقلاب تبھی ممکن ہے جب ہم نمبروں کے بجائے ذہنوں کو تراشیں، کیونکہ قومیں مارک شیٹ سے نہیں، کردار، ہنر اور علم سے بنتی ہیں۔