شیخ ولی محمد
سکول میںبچے کی جسمانی سزاکی وجہ سے جہاں اسکی صحت پر بُرے اثرات مرتب ہوئے ہیں وہیں اس کا تعلیمی کیرئیربھی متاثر ہوتاہے۔تدریسی عمل کے دوران بچے پر جسمانی تشدد اور مارپیٹ کے نتیجے میں بہت سارا منفی ردعمل سامنے آتا ہے ۔ تاہم اگر بچے کی بے عزتی کی جائے، اسے ڈانٹاجائے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے، کلاس میں دوسرے بچوں کے سامنے اسے شرمندگی اٹھاناپڑے تویہ ذہنی اذیت بچے کے لئے جسمانی سزاسے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے ۔ ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ ذہنی سزاکے نتیجے میں بچوں کی شخصیت نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ اسے Dropp Outشرح میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ذہنی مار یاMental Tortureکی وجہ سے بچے میں غصہ کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے جس کی وجہ اسکی پوری زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ احساس شرمندگی اس کے مستقبل کو تاریک تربناتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ا حساس شرمندگی میں بچوں کا دماغ بند ہوجا تا ہے ۔ سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوجاتی ہے ۔ گویا ایک ایسا بچہ جسے ڈسلیکسیا یعنی لفظوں کا اندھا پن یا لفظ واضح نظر نہ آنا ، ان کو نہ پڑھ سکنے کی شرمندگی ضرب ہوکر بہت ساری شرمندگیوں کا ایک طوفان لاتی ہے جس سے نفسیا تی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح ایک ہنستا کھیلتا بچہ شرمندگی کی وجہ سے دبو، افسردگی اور احساس کمتری کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے ۔ ڈاکٹر ڈونالڈ ناتھنسن مشہور ماہر نفسیات جیفرسن یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے انسانی رویوں اور جذبات پر بہت تجزیاتی کام کیا ہے ۔ ان کی بچوں کے اندر جذبات اور خصوصاً احساس شرم پر بہت گہری تحقیق ہے۔ ان کی وجہ شہرت ان کا مشہور نظریہ’’ کمپاس آف شیم‘‘ ہے جس میں شرم کے چارردعوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچہ جسے الفاظ پڑھنا مشکل ہوں جب وہ کلاس کے سامنے پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ میں پڑھ نہیں پارہا ہوں تو پہلا شرم کا حملہ اس پر یہ جان کر ہوتا ہے کہ ایک کام جو مجھ سے کئے جانے کی توقع تھی میں وہ نہیں کرپارہا ہوں ۔دوسرایہ کہ میں پبلک میں یعنی کلاس کے سامنے ہوں ، اور پھر یہ احساس شرم ضرب ہوکر بہت پھیل جاتا ہے ۔ جب یہ خیال آتا ہے کہ میں اپنے ہم جماعتیوں سے کمتر ہوں اور وہ مجھ پر ہنسیں گے ۔ اگر اسی بچے کو تنہائی میں بہت محبت سے والدین ، استاد ، یا ٹیوشن پڑھانے والا پڑھنے کا کہے گا تو اس کو شرم کا اتنا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور اس کے سیکھنے کا زیادہ امکان ہے ۔
بہت سے بچوں سے ایک سروے میں پوچھا گیا کہ آپ استاد کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے جواب یہ تھے : ’’نرمی سے پیش آنے والا ، جو ہمیں پڑھانا چاہتا ہو ، زیادہ وقت دے ، ہوم ورک ختم کرنے کے لئے آہستہ بولے ، کلاس کے سامنے غلطیاں نہ نکالے ، میری امی کو میری شکایت نہ بتائے ،جیسے میں پڑھنا چاہتا ہوں ویسے پڑھائے ، کلاس کے سامنے مجھے شرمند ہ نہ کرے ، میری گندی لکھائی کو نظر انداز کردے‘‘۔ ان میں سے اکثر جوابات میں ایک بات مشترک ہے کہ ’’ احساس شرم ‘‘ گویا بچے غلطی نکالنے پر شکایت لگنے اور سزا ملنے پر شرم محسوس کرتے ہیں ۔ احساس شرمندگی اگر بڑوں کے لئے تکلیف دہ ہوسکتا ہے تو بچوں کے لئے کہیں زیادہ ذلت کا باعث بن سکتا ہے۔چھوٹی چھوٹی شرمندگیاں بڑے بڑے ذہنی مسائل پیدا کردیتی ہیں۔ ذہنی مسائل کے حامل بچوں کا تو شرمندہ ہونا روز کامعمول بن جاتا ہے ۔ کلاس میں سبق نہ سُنا سکنا ، کھیلنے کے لئے روکے جانا ، جلدی کام نہ کرسکنا ، بات صحیح نہ سننا اور غلط جواب دے دینا ، بغیر سوچے کچھ ایسا کہہ دینا جونامناسب ہو ۔ شرمندگی کا بوجھ نارمل اور ذہین بچوں کے لئے بھی اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے ۔ بچوں کا شرمندہ ہونا بڑوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس کی مثال ایسے سمجھی جاسکتی ہے کہ بیس کلو وزن ایک چالیس سالہ شخص کو اٹھانے کا کہا جائے تو وہ آرام سے اٹھا لے گا جبکہ اتنا ہی وزن ایک دس سالہ لڑکے کو اٹھانے کو کہا جائے تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ اس طرح احساس شرمندگی بچوں کے لئے بہت تکلیف دہ مسئلہ ہوتا ہے جس کا اکثر بڑوں کو ادراک نہیں ہوتا ۔بڑے اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ یہ تو بچہ ہے اسے کیا کھیل میں یا سوکر یا اگلے دن بھول جائے گا لیکن یہ محض ایک خیال ہے۔ شرمندگی بچوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی ہے ۔ بچے دوسرے بچوں کے سامنے اپنی عزت اور بھرم قائم رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں، اس کا اندازہ ڈاکٹر’’لیوائے کے بیان کردہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے؛
ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ ’’ میں بہت ساری جگہوں پر لیکچر دینے اور ورکشاپس کے سلسلے میں جاتا رہتا ہوں ۔ ریاست میسا چیوسٹ کے کیمونٹی کالج میں ایک لیکچر کے آخر میں ایک نوجوان لڑکا مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے کچھ بات چیت کرنا چاہتا ہوں ، مجھے کچھ وقت دیجئے ۔ ہم نے ایک ٹائم طے کرلیا اور وہ ایک ہفتے بعد مجھ سے ملنے آگیا۔ میر انام ڈینیل ہے ، میں کمیونٹی کالج کا طالب علم ہوں ، میں نے پڑھائی میں بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے۔ ایک ایک کلاس میں کئی کئی سال لگاکر کالج تک پہنچاہوں اور اپنے مستقبل کے لئے آپ سے مشورہ اور مدد چاہتا ہوں ۔ مشورہ تو میں نے اسے دیدیا لیکن جو اپنے بچپن کی کہانی اس نے سنائی ،وہ والدین اور اساتذہ کے لئے سننا ضروری ہے ۔ ’’ میں کیپ کا ڈ میںاپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا ۔ میرا والدمچھلیاں پکڑنے اوربیچنے کا کام کرتا تھا ۔ وہ قصبے کا سب سے محنتی آدمی تھا ۔ صبح سے رات تک بغیر رکے کام کرنے والا جو اپنے کام کے معاملے میں بہت سنجیدہ اور ان تھک تھا۔ میری ماں گھریلو عورت تھی جو سارا دن مشین کی طرح کام کرتی۔ گھر کے سارے کام ختم کرنے کے بعد میرے باپ کے آنے پر بغیر کسی شکایت یا تھکن کے کھانا میز پر لگادیتی ، میرے گھر میں کسی کے کام نہ کرنے کو بہانہ سازی اور کاہلی سمجھا جاتا تھا جس کی جو ڈیوٹی تھی اسے وہ پوری کرنا ہے اور بس ۔ میں پہلی کلاس میں داخل ہوا تو مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا ، دوسرے بچے کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے ، کہانیوں کی باتیں کرتے ، وہ کتاب اٹھاتے تو لفظ ان کے لئے بولنے لگتے اور میرے لیے وہی الفاظ ٹیڑھی میڑھی لائنیں ، دائرے اور دھبے ہوتے ۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آتا کہ لفظ کہاں ہیں جوان کو نظر آتے ہیں ۔ جب میں سترہ سال کا ہوا تو میری سمجھ میں آیا کہ مجھے ڈسلیکسیا( پڑھنے میں مشکل پیش آنا ) ہے لیکن اس وقت جب میں چھ سال کا تھا تو مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ میں اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کررہا ۔ اکتوبر کے درمیان میں میرے نہ پڑھ سکنے کے وجہ سے میری استانی نے مجھ سے چڑنا شروع کردیا اور اکتوبر کے آخرتک بچوں نے میرا مذاق بنانا شروع کردیا ۔ مجھے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ اب وہ وقت دورنہیں جب میرے والدین کو پتا لگ جائے گا کہ میں پڑھ نہیں رہا ۔ اس بات سے میں بہت خوفزدہ تھا ، بہت زیادہ خوفزدہ۔ لیکن میں ایک سمجھدار لڑکا تھا ،میں نے کلاس کے سب بچوں پر غور کیا تو مجھے پتا چلاکہ ایک اور لڑکا بھی ایسا ہے جو پڑھ نہیں سکتا لیکن اس کا کوئی مذاق نہیں اڑاتا تھا، اس لئے کہ وہ بہرا تھا ۔ حتیٰ کہ ٹیچر بھی اسے کچھ نہیں کہتی تھی ۔ وہ سننے کا آلہ لگاتا تھا چونکہ اس کی سماعت خراب تھی اس لئے کوئی اس سے یہ توقع نہیں کرتا تھا کہ وہ پڑھ کر سنائے ۔ چنانچہ میرے چھ سا ل کے دماغ نے مسئلے کا یہ حل سوچا کہ سب کو یقین دلادوں کہ میں بہرا ہوں۔ اگر سب کو یقین ہوجائے گا کہ میں سُن نہیں سکتا تو کوئی مجھے نہ پڑھنے پر تنگ نہیں کرے گا ۔ میں نے ایک ایک بندے کو اپنے بہرے ہونے کا یقین دلانے کی مہم کاآغاز کردیا ۔کلاس میں ٹیچر کے بلانے پر میں جواب نہ دیتا ،یہاں تک کہ وہ آکر میرے کندھے کو ہلاتی ۔ میں کہتا کیا ہوا ؟ وہ کہتی میں تمہیں بلارہی تھی ۔ میں کہتا ’’ میں نے سنا نہیں ‘‘ ۔ میں نے یہ ٹرنینگ کرلی کہ پرشور آوازوں پر توجہ نہ دوں ۔ کسی بڑے شور پر سب بچے بھاگ کر کلاس سے باہر جاتے تو میں ایسے بیٹھا رہتا جیسے کچھ سنا ہی نہیں ۔ آدھی چھٹی کے بعد گھنٹی بجنے پر سب بچے واپس کلاس میں چلے جاتے ، میں جم میں رہ جاتا حتی کہ پرنسپل مجھے کہتا کہ ڈینیل ! گھنٹی نہیں سنی؟ کلاس میں جاؤ ، میں کہتا مجھے نہیں سنی۔ گھر میں ڈنر پر میری والدہ مجھے آوازیں دیتی کہ ڈینیل ! ذرانمک دانی تو پکڑادو ، میںسنی ان سنی کردیتا ، وہ میر ا کندھا ہلاتی اور کہتی ۔ ڈینی! میں نے تم سے نمک مانگا ہے ’’ میں نے سنا نہیں امی‘‘ میں جواب دیتا ۔ جب ہم گھر سے باہر کھیل رہے ہوتے تو میرا باپ گھر واپس آنے کے لئے آوازیں دیتا ، میں باہر ہی رہتا ، یہاں تک کہ میرا باپ باہر آکر مجھے اندر لے جاتا اور میں کہتا ’’ میں نے نہیں سنا ڈیڈ‘‘ یہاں تک کہ ایک دن میرے والدین گھر پر نہیں تھے ، جب مجھے ان کی گاڑی کی آواز آئی تو میں نے ٹی وی کی آواز بہت اونچی کرکے بہت پاس جاکر ایسا ظاہر کیا کہ بڑی مشکل سے سن رہا ہوں ۔ میرے والدین مجھے قصبے کے کانوں کے ڈاکٹر ز کے پاس لے جاتے رہے۔ جب وہ آلات لگا کر مجھے پوچھتے کہ سنائی دے رہا ہے ؟ تو میں کہتا کہ نہیں ، حالانکہ میں سن رہا ہوتا ۔ یہاں تک کہ سب کو یقین ہوگیا کہ میں سن نہیں سکتا ۔ حالات بالکل ٹھیک جارہے تھے کہ جون کا مہینہ آگیا ۔ میںنے کہا کہ’’ جون میں کیا ہوا ڈینیل‘‘ ؟ اگرچہ یہ سترہ سال پرانی بات تھی پھر بھی اس کی رنگت پیلی پڑگئی ، اس نے کالر سیدھا کیا ، کرسی پر بے چینی سے پہلو بدلا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا’’ میںکبھی نہیں بھول سکتا ‘‘ ۔ جون میں پہلی کلاس کے آخری دن میرے والدین میرے سامنے بیٹھ کر کہنے لگے ’’ ڈینی! ہم تمہارے نہ سن سکنے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ، تمہاری سماعت میں کوئی خرابی ہے ، ہم نے تمہیں قصبے کے ہر ڈاکٹرسے چیک کروایا ہے کسی کو تمہارا مسئلہ سمجھ نہیں آیا ۔ اب ہم نے تمہاری اپائنٹ منٹ(Appointment) بوسٹن کے بچوں کے ہسپتال میں بنوائی ہے، تم وہاں اگلے ہفتے جاؤ گے اور چاردن تین رات وہاں رہو گے ۔وہ تمہارے کان کا آپریشن کریں گے اور ٹانسل نکالیں گے‘‘۔ایک چھ سال کے بچے کی ذہنی ا ذیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے شرمندگی سے بچنے کے لئے کان کا آپریشن کروالیا۔ اس عمر میں جب بچے کیلئے ایک معمولی ساٹیکہ لگوانا بھی قیامت سے گزرنا ہوتا ہے ۔ گویا شرمندہ ہونابچوں کیلئے ناقابل برداشت ذہنی اذیت ہوتی ہے جو عمر بھر ان کی یاد میں تازہ رہتی ہے ۔
اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اساتذہ حضرات اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی بچہ شرمندگی سے بچنے کے لئے بہت مشکلات سے گزررہاہوگا۔ بہانوں کی دیوار کے پیچھے یا ڈھٹائی کا لبادہ اوڑھ کر۔ اس پر اعتبار کرکے اسے اعتبار دے کر اس کی زندگی کو آسان کردیں ۔ پڑھنا نہ آنا کوئی ایسا جرم نہیں کہ زندگی سزا بنادی جائے ۔ہاں ! محبت اور توجہ سے بغیر شرمندگی کے چابک مارے، ذلیل کئے بغیر پڑھنا سکھایا جاسکتا ہے ۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)